Rashid Ashraf
محفلین
لوگ مرجاتے ہیں لیکن کتابیں نہیں مرتیں۔ یہ کہاوت حال ہی میں ایک ایسے پوسٹر کے نیچے لکھی دیکھی جس میں ایک شخص کتابوں کے انبار کو اٹھائے لڑکھڑاتا چلا جارہا ہے۔ سچ ہی تو ہے ۔ اتوار بازار میں ہر مرتبہ ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن کے مالکان انتقال کرچکے ہوتے ہیں، بعد ازاں یہ ذخیرہ کوڑیوں کے بھاؤ بکتا ہے۔ 26 فروری 2012 کی صبح اتوار بازار میں کتابوں کے معائنے کے دوران لاہور سے عقیل عباس جعفری صاحب کا فون آگیا۔ وہ لاہور کے پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں چہل قدمی کررہے تھے اور مظہر محمود شیرانی کی ’بے نشانوں کا نشاں ‘اور گلزار کی ’چاند پکھراج کا ‘ کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے لیکن ایک بات بتا کر انہوں نے مجھے حیران کردیا۔ اظہر جاوید کا انتقال 14 فروری 2012 کو ہوا ہے، ان کی ذاتی دستخط شدہ کتابیں محض بارہ روز کے بعد لاہور کے اتوار بازار میں فروخت کے لیے آگئی تھیں ۔ جعفری صاحب کو ملنے والی دونوں کتابیں مدیر تخیلق کی ملکیت تھیں جن پر ان کے دستخط بھی موجود ہیں۔
کراچی کے اتوار بازار میں ایک کرم فرما مسکراتے ہوئے ملے:
’’ ایک مرتبہ چکر لگا چکا ہوں، اب دوبارہ ’کانٹا ‘لے کر جارہا ہوں، دیکھئے کیا پھنستا ہے اس مرتبہ ‘‘
کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے
اور پھر بیاں اپنا
خاکے، مضامین
مصنف: اخلاق احمد دہلوی
صفحات: 167
ناشر: اردو مرکز لاہور
سن اشاعت: 1957
اخلاق صاحب نے یہ کتاب 1957 میں لکھی تھی، 1995 میں اس کا دوسرا حصہ ’پھر وہی بیاں اپنا‘ کے عنوان سے مکتبہ عالیہ سے شائع ہوا۔ ’اور پھر بیاں اپنا‘ میں شامل مضامین، خاکوں، تذکروں کے عنوانات یہ ہیں:
میرا جی کااخلاق ، ردی کے بھاؤ، اناونسر، شاہد لطیف کی شادی، سر اٹھایا تھا کہ سنگ یاد آیا، قصہ سوتے جاگتے کا، مصنف کی تلاش، عصمت (چغتائی)، ادب برائے عاقبت، مجازکے بعد کی رات، وہ ہنس کیوں رہے تھے۔
دہلی اور اس کے اطراف
ایک سفرنامہ ایک روزنامچہ
مصنف: مولانا حکیم سید عبدالغنی
ناشر: مجلس نشریات اسلام، کراچی
سن اشاعت: 1998
وادی گنگا سے وادی مہران تک
خودنوشت
مصنف: محمد امجد علی حمیدی
ناشر: الحسن الیڈمی کراچی
سن اشاعت: 2006 دسمبر
ایک مہم ایک فریب
ناول
ایچ اقبال
۔۔۔۔۔۔
اتوار بازار سے رخ کیا جناب شجاع الدین غوری کی رہائش گاہ کا جہاں ’پایوں‘ کی دعوت میں انہوں نے معراج جامی صاحب کے ساتھ ساتھ مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ منزل پر پہنچنے سے قبل وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہاں ایک باقاعدہ ادبی نشست کا بھی اہتمام رہا ہوگا۔ فلیٹ کی بیٹھک میں کراچی کے بیس شعراء و ادباء فرشی نشست جمائے تشریف فرما تھے۔چند ایک کرسیوں پر براجمان تھے۔ مشتاق احمد یوسفی کی آب گم یاد آگئی، ایک باب میں بشارت (گمان ہے کہ خود یوسفی صاحب) کے دوست خان صاحب بیمار ہوکر کراچی سے واپس پشاور چلے گئے تھے اور کچھ عرصے بعد انہوں نے بشارت صاحب کو خط لکھ کر کہا کہ اب آپ پشاور چلے آئیے، یہاں آپ کے اعزاز میں مشاعرے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ کمرے میں کراچی کے سو اور پشاور کے پچاس شعراء کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
پائے ، گرم نان، چاولوں کی کھیر اور اس کے بعد چائے ۔ اصولا تو اس ’پائے ‘کی دعوت کے بعد گھر کا رخ کرنا ہی مناسب تھا لیکن نشست کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، حاضرین کی اکثریت اس بات سے ناواقف تھی کہ انہیں اپنی کوئی تخلیق بھی پیش کرنی ہے لہذا جو ہمراہ کچھ لائے تھے، مائیک انہی کے آگے گردش میں رہا۔
کراچی کے اتوار بازار میں ایک کرم فرما مسکراتے ہوئے ملے:
’’ ایک مرتبہ چکر لگا چکا ہوں، اب دوبارہ ’کانٹا ‘لے کر جارہا ہوں، دیکھئے کیا پھنستا ہے اس مرتبہ ‘‘
کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے
اور پھر بیاں اپنا
خاکے، مضامین
مصنف: اخلاق احمد دہلوی
صفحات: 167
ناشر: اردو مرکز لاہور
سن اشاعت: 1957
اخلاق صاحب نے یہ کتاب 1957 میں لکھی تھی، 1995 میں اس کا دوسرا حصہ ’پھر وہی بیاں اپنا‘ کے عنوان سے مکتبہ عالیہ سے شائع ہوا۔ ’اور پھر بیاں اپنا‘ میں شامل مضامین، خاکوں، تذکروں کے عنوانات یہ ہیں:
میرا جی کااخلاق ، ردی کے بھاؤ، اناونسر، شاہد لطیف کی شادی، سر اٹھایا تھا کہ سنگ یاد آیا، قصہ سوتے جاگتے کا، مصنف کی تلاش، عصمت (چغتائی)، ادب برائے عاقبت، مجازکے بعد کی رات، وہ ہنس کیوں رہے تھے۔
دہلی اور اس کے اطراف
ایک سفرنامہ ایک روزنامچہ
مصنف: مولانا حکیم سید عبدالغنی
ناشر: مجلس نشریات اسلام، کراچی
سن اشاعت: 1998
وادی گنگا سے وادی مہران تک
خودنوشت
مصنف: محمد امجد علی حمیدی
ناشر: الحسن الیڈمی کراچی
سن اشاعت: 2006 دسمبر
ایک مہم ایک فریب
ناول
ایچ اقبال
۔۔۔۔۔۔
اتوار بازار سے رخ کیا جناب شجاع الدین غوری کی رہائش گاہ کا جہاں ’پایوں‘ کی دعوت میں انہوں نے معراج جامی صاحب کے ساتھ ساتھ مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ منزل پر پہنچنے سے قبل وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہاں ایک باقاعدہ ادبی نشست کا بھی اہتمام رہا ہوگا۔ فلیٹ کی بیٹھک میں کراچی کے بیس شعراء و ادباء فرشی نشست جمائے تشریف فرما تھے۔چند ایک کرسیوں پر براجمان تھے۔ مشتاق احمد یوسفی کی آب گم یاد آگئی، ایک باب میں بشارت (گمان ہے کہ خود یوسفی صاحب) کے دوست خان صاحب بیمار ہوکر کراچی سے واپس پشاور چلے گئے تھے اور کچھ عرصے بعد انہوں نے بشارت صاحب کو خط لکھ کر کہا کہ اب آپ پشاور چلے آئیے، یہاں آپ کے اعزاز میں مشاعرے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ کمرے میں کراچی کے سو اور پشاور کے پچاس شعراء کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
پائے ، گرم نان، چاولوں کی کھیر اور اس کے بعد چائے ۔ اصولا تو اس ’پائے ‘کی دعوت کے بعد گھر کا رخ کرنا ہی مناسب تھا لیکن نشست کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، حاضرین کی اکثریت اس بات سے ناواقف تھی کہ انہیں اپنی کوئی تخلیق بھی پیش کرنی ہے لہذا جو ہمراہ کچھ لائے تھے، مائیک انہی کے آگے گردش میں رہا۔