Rashid Ashraf
محفلین
کتابوںکا اتوار بازار۔ 24 جون، 2012
ّّّ کنور مہندر سنگھ بیدی کی یاد میں
اتوار بازار کا قصد اور اس سے قبل ٹیلی وژن پر حالات حاضرہ پر ایک نظر، گویا ایک معمول ہے۔لیکن سامنے کیا آتا ہے ۔۔ادھر ٹیلی وژن کھولا ادھر سب سے پہلا منظر رات بھر میں گرنے والی لاشوں کا دیکھنے میں آتا ہے۔ صاحبو! عجب معاملہ ہے، ان سطور کا راقم علی الصبح خبروں میں رات بھر میں شہر سے ملنے والی بوریاں کھلنے پر لاشیں برآمد ہونے کا منظر دیکھتا ہے اور کچھ ہی دیر بعد کتابوں کے اتوار بازار میں کتابوں کی بوریوں کے کھلنے کا منتظر ہوتا ہے۔اول الذکر معاملے میں اطراف میں مولانا ایدھی کے رضا کار کھڑے ہوتے ہیں جبکہ کتابوں کی بوریاں کھلنے پر کتاب دوست حضرات گھیرا ڈالے اردگرد کھڑے ہوتے ہیں۔ قیادت راتوں رات بدل گئی ہے، پٹے ہوئے مہرے دوبارہ لائے جارہے ہیں: ع۔۔۔
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
اس صورتحال پر اپنے محبوب مصنف جناب ابن صفی کے ناولوں سے فال نکالی تو جو کچھ سامنے آیا ، پیش کرتا ہوں۔ ابن صفی ناول ہوں یا ان کے پیشرس ، دونوں میں اپنے دل کی بات کہہ جاتے تھے۔ انداز ایسا ہوتا تھا کہ آج بھی وہ فقرے ذہن میں روز اول کی طرح تازہ ہیں۔اپنی شہرہ آفاق عمران سیریز کے ایک ناول دوسرا پتھرکے پیشرس میں رقمطراز ہیں:
’’ایک بھائی نے پوچھا ہے کہ جمہوریت اچھی ہے یا ڈکٹیٹر شپ ؟ اور اسلامی مزاج ان دونوں میں سے کسے سہار سکتا ہے ؟۔۔۔
بھائی! اگر آپ اسلامی نکتہ نظر سے پوچھتے ہیں تو پہلے بھی کبھی عرض کرچکا ہوں کہ اسلام میں جمہوریت جیسی کسی شے کی گنجائش نہیں۔اسلام تو اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا نام ہے۔ جمہوریت میں دھارے کے ساتھ بہنا پڑتا ہے جبکہ اسلام میں دھارے پر چڑھنے کو کہتے ہیں۔اسلامی مملکت کے لیے صرف ایک ایماندار فرد کی حکومت کافی ہے کہ وہ ایماندار فرد اپنے احکامات نہیں بلکہ قرانی احکامات ہم سے منواتا ہے۔ لہذا میرے بھائی! اسلام اور جمہوریت کو اجمتاع ضدین سمجھیے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوری نظام پنپ نہیں سکا۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہاں جمہوریت کے علمبرداروں کو بھی ڈکٹیٹر بننا پڑا ہے اور بلاخر یہی چیز ان کے زوال کا باعث بنی کہ زبان پر تو جمہوریت کا نعرہ ہوتا تھا لیکن کرتوت ڈکٹیٹروں سے بھی بدتر۔
غالبا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔اس پر ٹھنڈے دل سے غور کیجیے۔
پھر جمہوریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں صرف ووٹ گنے جاتے ہیں، بقول اقبال ’بندوں کو پرکھا نہیں جاتا‘۔۔جو چاہے دولت کے بل بوتے پر بحیثیت امیدوار کھڑا ہوکر منتخب ہوجائے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ دفتر کی کلرکی کے لیے تو آپ کو فرسٹ کلاس گریجویٹ چاہیے لیکن قوم کی باگ ڈور’’ لٹھ‘‘ قسم کے افراد کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔ مرغی سپلائر، انگوٹھا چھاپ تو اسمبلی میں پہنچ کر قانون سازی فرمائیں اور سکنڈ کلاس گریجویٹ کو چپراسی بنانے کے لائق بھی نہ سمجھا جائے۔‘‘ ( 3 نومبر 1979 )
شہر کراچی سے صاحب علم ہیں کہ اٹھتے جاتے ہیں۔موسیقی کے قدردان ابھی مہدی حسن خان کو روتے تھے کہ پروفیسر آفاق صدیقی بھی گئے اور پیچھے پیچھے عبید اللہ بیگ صاحب نے رخت سفر باندھا۔ گزشتہ برس کراچی کی آرٹس کونسل میں بیگ صاحب سے ملاقات ہوئی تھی ، ذرا دیر میں ان کی دلکش شخصیت اور نستعلیق لہجے نے طبیعت کو باغ باغ کردیا تھا۔ہاتھ میں ’’بینسن اینڈ ہیچز‘‘ کا ڈبہ تھامے سگرٹ سے سگرٹ جلاتے تھے۔ سگرٹ کے ڈبے اور عبید اللہ بیگ کے چہرے کا رنگ، دونوں ایک جیسے لگتے تھے۔۔۔۔۔سنہرا۔۔۔ کچھ عرصہ قبل ان کا ناول ’راجپوت‘ شائع ہوا تھا۔ یہ ایک طویل ناول ہے، صفحات 415۔یہ ایک رزمیہ داستان ہے۔پروفیسر رئیس فاطمہ نے اپنے کالم میں مذکورہ ناول کا ایک اقتباس نقل کیا تھا:
’’ ان کے جانے کے بعد میں چپ چاپ بیٹھا رہ گیا۔ سوچتا رہا اور خود سے سوال کرتا رہا۔ جمشید خان کیا ہورہا ہے ؟ کیا ہونے والا ہے ؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا ؟ ۔۔ یہ سچ ہے کہ ریاستوں کے ختم ہو جانے سے عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی سے روشن چراغ بجھ جائیں گے۔لیکن کیا نیا دور غریبوں کے جھونپڑوں کو محلوں میں بدل دے گا ؟ ۔۔یا ان راجوں مہاراجوں کی جگہ سیٹھوں، تاجروں ،مہاجنوں اور صنعت کاروں کا ایک نیا طبقہ برسر اقتدار آکر عوام کو ایک قدم بھی نہ آگے بڑھنے دے گا۔ ان کو ان کے جھونپڑوں میں قید رکھے گا۔ تعلیم اور ترقی کے تمام موقع اپنے لیے مخصوص کرے گا ۔۔۔یعنی ایک استحصالی طبقہ ختم ہوگا تو کئی استحصالی طبقے جنم لیں گے۔‘‘
-------------+++ --------------
اس مرتبہ کنور مہندر سنگھ بیدی صدر کراچی میں واقع پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں نظر آئے اور ہم نے ان کی یاد میں اک نعرہ مستانہ بلند کیا:
موہوم سی حوروں کی کہانی نہیں آئی
بیکار ہمیں عمر گنوانی نہیں آئی
ہم رند خرابات بڑھاپے میں جواں ہیں
واعظ پہ جوانی میں جوانی نہیں آئی
کنور صاحب سے دو برس قبل بھی اتوار بازار ہی میں ’ملاقات ‘ہوئی تھی جب ان کی خودنوشت ’یادوں کا جشن‘ بمعہ ان کے دستخط بازار سے ملی تھی۔یہ خودنوشت انہوں نے اپنے دورہ کراچی کے موقع پر شکیلہ خانم نامی خاتون کو مرحمت کی تھی ۔کنور صاحب نے یادوں کا جشن کا عنوان اپنے عزیز ترین دوست جوش ملیح آبادی کی خودنوشت ’ یادوں کی برات‘ کے وزن پر رکھا تھا۔ جوش سے ان کی دوستی سے ایک عالم واقف تھا۔پھر یہ ہوا کہ جوش پاکستان چلے گئے ،گویا اس قصر نشاط کے بنیادی پتھروں میں سے ایک پتھر ہل گیا۔
کنور صاحب نے 1973 میں ’من جیت جگ جیت ‘نامی فلم بھی بنائی تھی، اس کے علاوہ تین فلمیں مزید بنائیں لیکن راجندر سنگھ بیدی کی طرح وہ بھی اس میدان میں نہ چل سکے تھے۔اس مرتبہ کے ایل نارنگ ساقی کی مرتب کردہ کتاب ’’ ہمارے کنور صاحب‘‘ ہمارے حصے میں آئی۔جشن کنور مہندر سنگھ بیدی ،نئی دہلی کی جانب سے شائع کردہ یہ کتاب 1986 میں منظر عام پر آئی تھی۔ کنور صاحب پر مضامین لکھنے والوں میں کرنل بشیر حسین زیدی، مالک رام، ڈاکٹر جمیل جالبی، جگن ناتھ آزاد،عابد علی خاں، خواجہ محمد شفیع، رئیس امروہوی،مجتبی حسین،گوپی چند نارنگ،ساحر ہوشیار پوری، جوگندر پال، گوپی ناتھ امن،یوسف ناظم،ڈاکٹر خلیق انجم،خواجہ حسن نظامی ثانی،نریندر لوتھر، کشمیری لال ذاکر،سید شریف الحسن نقوی، رئیس قمر، ظفر پیامی،پروفیسرعنوان چشتی ،فکر تونسوی، نفیس بانو شمع، ڈاکٹر شارب ردولوی،سرور تونسوی، حیات لکھنؤی،رعنا سحری اور ڈاکٹر کامل قریشی شامل ہیں۔ جبکہ کنور صاحب پر نظمیں لکھنے والوں میں جو ش ملیح آبادی، گوپی ناتھ امن، قتیل شفائی، عزیز وارثی، مخمور سعیدی، راہی شباب،راز لائل پوری، دلیپ بادل اور متین امروہوی کی تخلیقات شامل ہیں۔
کنور صاحب کا دیہانت 17 جولائی 1992 کو ہوا تھا۔ ’’ ہمارے کنور صاحب‘‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئی ۔کے ایل نارنگ ساقی نے’کلیاتِ سحر‘ 1992میں مرتب کی تھی جبکہ ’’ہندوستانی ادب کے معمار۔کنور مہندر سنگھ بیدی سحر‘‘ 2007 میں ساہتیہ اکادمی ،نئی دہلی نے شائع کی۔ اس سے قبل 1962 میں طلوع سحرکے نام سے کنور صاحب کا شعری مجموعہ شائع ہوچکا تھا۔
کنور مہندر سنگھ بیدی سرکاری ملازم تھے۔ ان کی ملازمت کا زمانہ مختلف حیثیتوں میں پنجاب،ہریانہ اور دلی میں گزرا۔وہ جہاں بھی رہے، ان کے زمانہ قیام میں اس علاقے کے علم دوست حضرات اور ثقافتی گروہ ان کے گرد جمع ہوگئے ۔ مجلسی انسان تھے ، جہاں گئے ،داستانیں چھوڑ آئے۔ایک ہمارے مرحوم فوجی ادیب صدیق سالک ان کی طرف سے بدگمان نظر آئے تھے ،سالک 1971 میں ہندوستان کی قید میں گزرے دنوں کی یاداشتوں کو لکھنے بیٹھے ۔۔ کنور مہندر سنگھ بیدی انہیں ایک چالاک, حرفوں کے بنے ہوئے انسان کے طور پر یاد رہ گئے تھے جو جنگی قیدیوں کے سامنے اس ڈھنگ سے آیا کہ سر پر رومال ڈال، نعت سنائی شروع کردی۔
کنور صاحب کی ملازمت کا آخری دور چندی گڑھ میں گزرا جہاں وہ ڈائرکٹر پنچایت پنجاب کی حیثیت سے 1967 میں سبکدوش ہوئے۔اس سے قبل وہ 1963 سے 1964 تک، ڈپٹی کمشنر کرنال کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ تقسیم ہند کے موقع پر کنور مہندر سنگھ بیدی ضلع کانگڑہ کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے۔ جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں ۔۔’’اس زمانے میں ،میں نے سڑکوں پر، پلیٹ فارموں پر، کھیتوں میں، ہر جگہ لاشوں کے انبار دیکھے تھے لیکن مشرقی پنجاب میں ایک ضلع ایسا بھی تھا ۔۔۔کانگڑہ۔۔۔جہاںکا نگراں کار ہمارا محترم دوست کنور مہندر سنگھ بیدی تھا۔گورو نانک دیو کے خاندان کا چشم و چراغ۔۔جس نے خدا جانے وہاں کے سکھوں اور ہندوؤں پر کیا جادو کردیا تھا کہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ سارے ضلع میں کسی مسلمان کی نکسیر بھی تو نہیں پھوٹی۔‘‘
خواجہ محمد شفیع اپنے دلچسپ مضمون ’دلی کی ادبی محفلیں اور کنور صاحب ‘ میں لکھتے ہیں: ’’ دلی چھوڑتے ہوئے بہت کچھ چھوڑا،کیا کیا بیان کروں۔لیکن جو تین یادیں آج بھی تڑپادیتی ہیں اور شاید تادم واپسیں تڑپاتی رہیں گی ان میں ایک دلی کی جامع مسجد، دوسری ماں کی قبر اور تیسری یاد کنور بھائی۔محافل کنور صاحب کی جان تھیں اور یہ محافل کے روح رواں۔کالجوں میں مشاعرے ہوتے، دہلی کاٹن ملز کا سالانہ مشاعرہ دھوم دھام سے ہوتا تھا،بیخود دہلوی کے دولت کدے پر نشستیں ہوتی تھیں۔دلی کے پنجابی سوداگران مشاعرہ کراتے ، پر تکلف دعوتیں ہوتی تھیں۔انواع اقسام کے طعام ہوتے تھے جن میں بالخصوص دنبہ کا قورمہ اور چھینٹے اور بغیر چھینٹے کی باقر خوانیاں۔دنبہ کی چکتی کی بڑی بڑی بوٹیاں۔کچھ نہ پوچھیے، اب بھی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔سر شنکر لال کی کوٹھی پر دعوتیں ہوتی تھیں۔ٹھیکری کی بینگن روٹی کا بھرتہ خاص طور پر تیار ہوتا تھا اور قیمہ اور ہری مرچیں، سیخ کباب اور بے شمار قسم کی چٹنیاں اور اچار ۔ایک دو قسم کے سالن ہوتے تھے،خصوصیت سے روے میدے کے گرم گرم پراٹھے اور ربڑی اور اس کے بعد مشاعرہ۔ کنور بھائی خوش خوراک تھے لیکن بیش خور نہیں۔فیض جھنجھانوی، ماہر دہلوی اور نخشب چارجوی بلا نوش تھے۔اچھا حضور،اب بوڑھا تھک گیا ہے، مزید نہیں لکھا جاتا۔کنور بھائی کا حق۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ کنور بھائی ہر بزم ادب میں گل سرسبز تھے اور درشہوار۔ شعر میں جتنی خوبیاں ہوسکتی ہیں، ان کے کلام میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔‘‘
ایک مرتبہ کنور مہندر سنگھ بیدی اور مجتبی حسین ، دلی کی بلند و بالا عمارت میں کسی کام سے گئے، اس وقت بجلی غائب تھی اور لفٹ بیکار ۔مجتبی حسین 48 برس کے تھے جبکہ کنور صاحب 74 برس مکمل کرچکے تھے۔سیڑھیوں سے ایسے اوپر چڑھے کہ تیرہ منزلیں چڑھ گئے ، جانا ساتویں منزل پر تھا۔مجتبی حسین ان کے پیچھے گرتے پڑتے چلے آرہے تھے۔کنور صاحب نے انہیں ڈانٹا کہ آپ کم عمری میں ہی ہانپ گئے ۔مجتبی حسین بولے ’ بیس برس کی عمر کا گدھا، ساٹھ برس کے آدمی سے کہیں زیادہ بوڑھا ہوتا ہے۔‘۔۔مجتبی حسین نے لکھا کہ کنو ر صاحب اس قول سے ایسے ہی محظوظ ہوئے جیسے کہ ایک سچے سکھ کو ہونا چاہیے۔
ّّّ کنور مہندر سنگھ بیدی کی یاد میں
اتوار بازار کا قصد اور اس سے قبل ٹیلی وژن پر حالات حاضرہ پر ایک نظر، گویا ایک معمول ہے۔لیکن سامنے کیا آتا ہے ۔۔ادھر ٹیلی وژن کھولا ادھر سب سے پہلا منظر رات بھر میں گرنے والی لاشوں کا دیکھنے میں آتا ہے۔ صاحبو! عجب معاملہ ہے، ان سطور کا راقم علی الصبح خبروں میں رات بھر میں شہر سے ملنے والی بوریاں کھلنے پر لاشیں برآمد ہونے کا منظر دیکھتا ہے اور کچھ ہی دیر بعد کتابوں کے اتوار بازار میں کتابوں کی بوریوں کے کھلنے کا منتظر ہوتا ہے۔اول الذکر معاملے میں اطراف میں مولانا ایدھی کے رضا کار کھڑے ہوتے ہیں جبکہ کتابوں کی بوریاں کھلنے پر کتاب دوست حضرات گھیرا ڈالے اردگرد کھڑے ہوتے ہیں۔ قیادت راتوں رات بدل گئی ہے، پٹے ہوئے مہرے دوبارہ لائے جارہے ہیں: ع۔۔۔
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
اس صورتحال پر اپنے محبوب مصنف جناب ابن صفی کے ناولوں سے فال نکالی تو جو کچھ سامنے آیا ، پیش کرتا ہوں۔ ابن صفی ناول ہوں یا ان کے پیشرس ، دونوں میں اپنے دل کی بات کہہ جاتے تھے۔ انداز ایسا ہوتا تھا کہ آج بھی وہ فقرے ذہن میں روز اول کی طرح تازہ ہیں۔اپنی شہرہ آفاق عمران سیریز کے ایک ناول دوسرا پتھرکے پیشرس میں رقمطراز ہیں:
’’ایک بھائی نے پوچھا ہے کہ جمہوریت اچھی ہے یا ڈکٹیٹر شپ ؟ اور اسلامی مزاج ان دونوں میں سے کسے سہار سکتا ہے ؟۔۔۔
بھائی! اگر آپ اسلامی نکتہ نظر سے پوچھتے ہیں تو پہلے بھی کبھی عرض کرچکا ہوں کہ اسلام میں جمہوریت جیسی کسی شے کی گنجائش نہیں۔اسلام تو اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا نام ہے۔ جمہوریت میں دھارے کے ساتھ بہنا پڑتا ہے جبکہ اسلام میں دھارے پر چڑھنے کو کہتے ہیں۔اسلامی مملکت کے لیے صرف ایک ایماندار فرد کی حکومت کافی ہے کہ وہ ایماندار فرد اپنے احکامات نہیں بلکہ قرانی احکامات ہم سے منواتا ہے۔ لہذا میرے بھائی! اسلام اور جمہوریت کو اجمتاع ضدین سمجھیے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوری نظام پنپ نہیں سکا۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہاں جمہوریت کے علمبرداروں کو بھی ڈکٹیٹر بننا پڑا ہے اور بلاخر یہی چیز ان کے زوال کا باعث بنی کہ زبان پر تو جمہوریت کا نعرہ ہوتا تھا لیکن کرتوت ڈکٹیٹروں سے بھی بدتر۔
غالبا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔اس پر ٹھنڈے دل سے غور کیجیے۔
پھر جمہوریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں صرف ووٹ گنے جاتے ہیں، بقول اقبال ’بندوں کو پرکھا نہیں جاتا‘۔۔جو چاہے دولت کے بل بوتے پر بحیثیت امیدوار کھڑا ہوکر منتخب ہوجائے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ دفتر کی کلرکی کے لیے تو آپ کو فرسٹ کلاس گریجویٹ چاہیے لیکن قوم کی باگ ڈور’’ لٹھ‘‘ قسم کے افراد کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔ مرغی سپلائر، انگوٹھا چھاپ تو اسمبلی میں پہنچ کر قانون سازی فرمائیں اور سکنڈ کلاس گریجویٹ کو چپراسی بنانے کے لائق بھی نہ سمجھا جائے۔‘‘ ( 3 نومبر 1979 )
شہر کراچی سے صاحب علم ہیں کہ اٹھتے جاتے ہیں۔موسیقی کے قدردان ابھی مہدی حسن خان کو روتے تھے کہ پروفیسر آفاق صدیقی بھی گئے اور پیچھے پیچھے عبید اللہ بیگ صاحب نے رخت سفر باندھا۔ گزشتہ برس کراچی کی آرٹس کونسل میں بیگ صاحب سے ملاقات ہوئی تھی ، ذرا دیر میں ان کی دلکش شخصیت اور نستعلیق لہجے نے طبیعت کو باغ باغ کردیا تھا۔ہاتھ میں ’’بینسن اینڈ ہیچز‘‘ کا ڈبہ تھامے سگرٹ سے سگرٹ جلاتے تھے۔ سگرٹ کے ڈبے اور عبید اللہ بیگ کے چہرے کا رنگ، دونوں ایک جیسے لگتے تھے۔۔۔۔۔سنہرا۔۔۔ کچھ عرصہ قبل ان کا ناول ’راجپوت‘ شائع ہوا تھا۔ یہ ایک طویل ناول ہے، صفحات 415۔یہ ایک رزمیہ داستان ہے۔پروفیسر رئیس فاطمہ نے اپنے کالم میں مذکورہ ناول کا ایک اقتباس نقل کیا تھا:
’’ ان کے جانے کے بعد میں چپ چاپ بیٹھا رہ گیا۔ سوچتا رہا اور خود سے سوال کرتا رہا۔ جمشید خان کیا ہورہا ہے ؟ کیا ہونے والا ہے ؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا ؟ ۔۔ یہ سچ ہے کہ ریاستوں کے ختم ہو جانے سے عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی سے روشن چراغ بجھ جائیں گے۔لیکن کیا نیا دور غریبوں کے جھونپڑوں کو محلوں میں بدل دے گا ؟ ۔۔یا ان راجوں مہاراجوں کی جگہ سیٹھوں، تاجروں ،مہاجنوں اور صنعت کاروں کا ایک نیا طبقہ برسر اقتدار آکر عوام کو ایک قدم بھی نہ آگے بڑھنے دے گا۔ ان کو ان کے جھونپڑوں میں قید رکھے گا۔ تعلیم اور ترقی کے تمام موقع اپنے لیے مخصوص کرے گا ۔۔۔یعنی ایک استحصالی طبقہ ختم ہوگا تو کئی استحصالی طبقے جنم لیں گے۔‘‘
-------------+++ --------------
اس مرتبہ کنور مہندر سنگھ بیدی صدر کراچی میں واقع پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں نظر آئے اور ہم نے ان کی یاد میں اک نعرہ مستانہ بلند کیا:
موہوم سی حوروں کی کہانی نہیں آئی
بیکار ہمیں عمر گنوانی نہیں آئی
ہم رند خرابات بڑھاپے میں جواں ہیں
واعظ پہ جوانی میں جوانی نہیں آئی
کنور صاحب سے دو برس قبل بھی اتوار بازار ہی میں ’ملاقات ‘ہوئی تھی جب ان کی خودنوشت ’یادوں کا جشن‘ بمعہ ان کے دستخط بازار سے ملی تھی۔یہ خودنوشت انہوں نے اپنے دورہ کراچی کے موقع پر شکیلہ خانم نامی خاتون کو مرحمت کی تھی ۔کنور صاحب نے یادوں کا جشن کا عنوان اپنے عزیز ترین دوست جوش ملیح آبادی کی خودنوشت ’ یادوں کی برات‘ کے وزن پر رکھا تھا۔ جوش سے ان کی دوستی سے ایک عالم واقف تھا۔پھر یہ ہوا کہ جوش پاکستان چلے گئے ،گویا اس قصر نشاط کے بنیادی پتھروں میں سے ایک پتھر ہل گیا۔
کنور صاحب نے 1973 میں ’من جیت جگ جیت ‘نامی فلم بھی بنائی تھی، اس کے علاوہ تین فلمیں مزید بنائیں لیکن راجندر سنگھ بیدی کی طرح وہ بھی اس میدان میں نہ چل سکے تھے۔اس مرتبہ کے ایل نارنگ ساقی کی مرتب کردہ کتاب ’’ ہمارے کنور صاحب‘‘ ہمارے حصے میں آئی۔جشن کنور مہندر سنگھ بیدی ،نئی دہلی کی جانب سے شائع کردہ یہ کتاب 1986 میں منظر عام پر آئی تھی۔ کنور صاحب پر مضامین لکھنے والوں میں کرنل بشیر حسین زیدی، مالک رام، ڈاکٹر جمیل جالبی، جگن ناتھ آزاد،عابد علی خاں، خواجہ محمد شفیع، رئیس امروہوی،مجتبی حسین،گوپی چند نارنگ،ساحر ہوشیار پوری، جوگندر پال، گوپی ناتھ امن،یوسف ناظم،ڈاکٹر خلیق انجم،خواجہ حسن نظامی ثانی،نریندر لوتھر، کشمیری لال ذاکر،سید شریف الحسن نقوی، رئیس قمر، ظفر پیامی،پروفیسرعنوان چشتی ،فکر تونسوی، نفیس بانو شمع، ڈاکٹر شارب ردولوی،سرور تونسوی، حیات لکھنؤی،رعنا سحری اور ڈاکٹر کامل قریشی شامل ہیں۔ جبکہ کنور صاحب پر نظمیں لکھنے والوں میں جو ش ملیح آبادی، گوپی ناتھ امن، قتیل شفائی، عزیز وارثی، مخمور سعیدی، راہی شباب،راز لائل پوری، دلیپ بادل اور متین امروہوی کی تخلیقات شامل ہیں۔
کنور صاحب کا دیہانت 17 جولائی 1992 کو ہوا تھا۔ ’’ ہمارے کنور صاحب‘‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئی ۔کے ایل نارنگ ساقی نے’کلیاتِ سحر‘ 1992میں مرتب کی تھی جبکہ ’’ہندوستانی ادب کے معمار۔کنور مہندر سنگھ بیدی سحر‘‘ 2007 میں ساہتیہ اکادمی ،نئی دہلی نے شائع کی۔ اس سے قبل 1962 میں طلوع سحرکے نام سے کنور صاحب کا شعری مجموعہ شائع ہوچکا تھا۔
کنور مہندر سنگھ بیدی سرکاری ملازم تھے۔ ان کی ملازمت کا زمانہ مختلف حیثیتوں میں پنجاب،ہریانہ اور دلی میں گزرا۔وہ جہاں بھی رہے، ان کے زمانہ قیام میں اس علاقے کے علم دوست حضرات اور ثقافتی گروہ ان کے گرد جمع ہوگئے ۔ مجلسی انسان تھے ، جہاں گئے ،داستانیں چھوڑ آئے۔ایک ہمارے مرحوم فوجی ادیب صدیق سالک ان کی طرف سے بدگمان نظر آئے تھے ،سالک 1971 میں ہندوستان کی قید میں گزرے دنوں کی یاداشتوں کو لکھنے بیٹھے ۔۔ کنور مہندر سنگھ بیدی انہیں ایک چالاک, حرفوں کے بنے ہوئے انسان کے طور پر یاد رہ گئے تھے جو جنگی قیدیوں کے سامنے اس ڈھنگ سے آیا کہ سر پر رومال ڈال، نعت سنائی شروع کردی۔
کنور صاحب کی ملازمت کا آخری دور چندی گڑھ میں گزرا جہاں وہ ڈائرکٹر پنچایت پنجاب کی حیثیت سے 1967 میں سبکدوش ہوئے۔اس سے قبل وہ 1963 سے 1964 تک، ڈپٹی کمشنر کرنال کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ تقسیم ہند کے موقع پر کنور مہندر سنگھ بیدی ضلع کانگڑہ کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے۔ جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں ۔۔’’اس زمانے میں ،میں نے سڑکوں پر، پلیٹ فارموں پر، کھیتوں میں، ہر جگہ لاشوں کے انبار دیکھے تھے لیکن مشرقی پنجاب میں ایک ضلع ایسا بھی تھا ۔۔۔کانگڑہ۔۔۔جہاںکا نگراں کار ہمارا محترم دوست کنور مہندر سنگھ بیدی تھا۔گورو نانک دیو کے خاندان کا چشم و چراغ۔۔جس نے خدا جانے وہاں کے سکھوں اور ہندوؤں پر کیا جادو کردیا تھا کہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ سارے ضلع میں کسی مسلمان کی نکسیر بھی تو نہیں پھوٹی۔‘‘
خواجہ محمد شفیع اپنے دلچسپ مضمون ’دلی کی ادبی محفلیں اور کنور صاحب ‘ میں لکھتے ہیں: ’’ دلی چھوڑتے ہوئے بہت کچھ چھوڑا،کیا کیا بیان کروں۔لیکن جو تین یادیں آج بھی تڑپادیتی ہیں اور شاید تادم واپسیں تڑپاتی رہیں گی ان میں ایک دلی کی جامع مسجد، دوسری ماں کی قبر اور تیسری یاد کنور بھائی۔محافل کنور صاحب کی جان تھیں اور یہ محافل کے روح رواں۔کالجوں میں مشاعرے ہوتے، دہلی کاٹن ملز کا سالانہ مشاعرہ دھوم دھام سے ہوتا تھا،بیخود دہلوی کے دولت کدے پر نشستیں ہوتی تھیں۔دلی کے پنجابی سوداگران مشاعرہ کراتے ، پر تکلف دعوتیں ہوتی تھیں۔انواع اقسام کے طعام ہوتے تھے جن میں بالخصوص دنبہ کا قورمہ اور چھینٹے اور بغیر چھینٹے کی باقر خوانیاں۔دنبہ کی چکتی کی بڑی بڑی بوٹیاں۔کچھ نہ پوچھیے، اب بھی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔سر شنکر لال کی کوٹھی پر دعوتیں ہوتی تھیں۔ٹھیکری کی بینگن روٹی کا بھرتہ خاص طور پر تیار ہوتا تھا اور قیمہ اور ہری مرچیں، سیخ کباب اور بے شمار قسم کی چٹنیاں اور اچار ۔ایک دو قسم کے سالن ہوتے تھے،خصوصیت سے روے میدے کے گرم گرم پراٹھے اور ربڑی اور اس کے بعد مشاعرہ۔ کنور بھائی خوش خوراک تھے لیکن بیش خور نہیں۔فیض جھنجھانوی، ماہر دہلوی اور نخشب چارجوی بلا نوش تھے۔اچھا حضور،اب بوڑھا تھک گیا ہے، مزید نہیں لکھا جاتا۔کنور بھائی کا حق۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ کنور بھائی ہر بزم ادب میں گل سرسبز تھے اور درشہوار۔ شعر میں جتنی خوبیاں ہوسکتی ہیں، ان کے کلام میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔‘‘
ایک مرتبہ کنور مہندر سنگھ بیدی اور مجتبی حسین ، دلی کی بلند و بالا عمارت میں کسی کام سے گئے، اس وقت بجلی غائب تھی اور لفٹ بیکار ۔مجتبی حسین 48 برس کے تھے جبکہ کنور صاحب 74 برس مکمل کرچکے تھے۔سیڑھیوں سے ایسے اوپر چڑھے کہ تیرہ منزلیں چڑھ گئے ، جانا ساتویں منزل پر تھا۔مجتبی حسین ان کے پیچھے گرتے پڑتے چلے آرہے تھے۔کنور صاحب نے انہیں ڈانٹا کہ آپ کم عمری میں ہی ہانپ گئے ۔مجتبی حسین بولے ’ بیس برس کی عمر کا گدھا، ساٹھ برس کے آدمی سے کہیں زیادہ بوڑھا ہوتا ہے۔‘۔۔مجتبی حسین نے لکھا کہ کنو ر صاحب اس قول سے ایسے ہی محظوظ ہوئے جیسے کہ ایک سچے سکھ کو ہونا چاہیے۔