محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
کتابوں کا اتوار بازار اور ہماری اوڈیسی
از محمد خلیل الرحمٰن
نہ گل کھِلے ہیں نہ اُن سے ملے نہ بُک لی ہے
عجیب رنگ میں یہ ایتوارگزری ہے
یہی شعر دہراتے ہم نے اپنی نصف بہتر کا کہا مانتے ہوئے، بادلِ نا خواستہ اپنے سسرائیل کا دورہ کرنا منظور کرلیا۔ سہ پہر واپس جاتے ہوئے بچوں نے واویلا مچایا کہ ’’پاپا ! گھر نہیں ، کہیں اور چلئے ۔‘‘تو ہم نے گاڑی موڑ لی اور کلفٹن براستہ صدر روانہ ہوئے۔ عجب اتفاق کہ راستے میں فریر ہال آگیا جسےبغیر خراج عقیدت پیش کیے پھلانگ کر گزر جانا، کم از کم ہمارے بس میں نہ تھا،۔ چل سو چل، گاڑی کو داہنے ہاتھ موڑتے ہوئے ایک خوبصورت کنج میں اسے پارک کیا اور اس طرح خدا کی کرنی ہم کتابوں کے اتوار بازار پہنچ گئے۔
محفلین کی اطلاع اور اہالیانِ کراچی کی یاددہانی کے لیے عرض کرتے چلیں کہ آج کل کراچی میں دوجگہ کتابوں کا اتوار بازار لگتا ہے۔ ایک صدر اور دوسرے فریر ہال۔ یوں تو ڈیفنس کے اتوار بازار میں بھی پرانی کتابوں کے کچھ اسٹال موجود ہوتے ہیں مگر اُن میں اردو کتابوں کا ڈھونڈنا گویا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ یادش بخیر کچھ دن کوچہء ثقافت کے نام سے بھی کتابوں کا ایک اتوار بازار آرٹس کونسل کے سامنے لگا کیا لیکن اس سلسلے کو بند ہوئے بھی اب کچھ عرصہ بیت گیا ہے۔
ان جملہ ھائے معترضہ کے بعد اب آمدم برسرِ مطلب کہ اس مرتبہ ہم نے فریر ہال کے کتابوں کے بازار میں کیا پایا۔ آج کل ، جب سے کراچی کا امریکن سنٹر یہاں سے منتقل ہوکر مائی کلاچی بائی پاس پر گیا ہے، فریر ہال کی انتہائی خوبصورت عمارت کے پہلو میں صادقین آرٹ گیلری کےخوبصورت زینوں کے سامنے شامیانے لگاکر کتابوں کے اسٹال سجادئیے جاتے ہیں ۔ یوں تو سارا ہی باغ آج کے دن کھچاکچ بھرا ہوا ہوتا ہے لیکن کتابوں کے بازار کاتو کیا ہی کہنا۔
اس مرتبہ ہم نے تہیہ کررکھا تھا کہ پسند کی کتاب نظر آتے ہی بھاؤ تاؤ کو بھول کر اسے ہتھیانے کی کریں گے، لیکن وائے ناکامی کہ کوئی ایسی کتاب نظر سے نہ گزرنے پائی کہ جس پر دِل آجاتا۔ اسی دوران نمازِ مغرب سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ پیغام آیا کہ حضور، بچے اب تھک چکے ہیں اور کلفٹن بھی جانا ہے لہٰذا چلے چلئے۔ ہم نے ایک آہِ سرد کے ساتھ واپسی کا قصد کیا اور اپنے مچلتے ہوئے دِ ل کو تھامتے ہوئے اسٹالز کے درمیان سے گزرے اور اپنا رخ گاڑی کی جانب کرلیا۔ ایک آخری اسٹال کو دیکھ کر تو طبیعت مچل گئی۔ کیا آج ہم بے نیل و مرام واپس جائیں گے؟ یہ سوچتے ہوئے اس اسٹال پر نظر داڑائی تو انگریزی کی چند کتابوں پر نگاہ ٹھہر گئی۔ یہ مشہور جرمن مصنف و ناول نگار ہرمن ہیسے کی تین کتابیں تھیں۔ سدھارتھ، نارسیسس اور گولڈمنڈ اور اس کے پچاس سالہ افسانوں کا انتخاب ۔ ہرمن ہیسے کی کتاب سدھارتھ اور اس کا آصف فرخی کا کیا ہوا خوبصورت ترجمہ تو ہمارے ذاتی کتب خانے میں موجود ہے، البتہ یہ دونوں کتابیں ہمارے لیے نئی تھیں۔ ہم نے فوراً دونوں کتابوںکو اٹھالیا اور بھاؤ تاؤ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیا۔
آصف فرخی ’’ ہرمن ہیسے ‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں جو ان کے ترجمے سدھارتھ کے آخر میں ہے، لکھتے ہیں۔
’’ ہرمن ہیسے کا شمار اس صدی کے اہم ترین اور سربرآواردہ ادیبوں میں ہوتا ہے۔ یہ بے مثال کہانی کار ، شاعر اور مفکر ۱۸۷۷ء میں جرمنی کے قصبے کلاؤ میں پیدا ہوا۔ اس کا گھرانا راسخ العقیدہ پادریوں اور راہبوں کا گھرانا تھا، اور ہیسے کی تربیت بھی اسی تصور کے مطابق ہوئی کہ وہ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے راہب بنے گا۔ لیکن ہیسے نے نوعمری ہی میں اپنے خاندان کی کٹر روایات اور نظامِ تعلیم کے خلاف بغاوت کردی۔ ۱۸۹۱ء میں وہ اپنی درس گاہ سے بھاگ نکلا اور ادھر ادھر بھٹکتا پھرا۔ اس دوران ایک عالم نے اس کا روحانی علاج کرنا چاہا۔ ہیسے نے خود کشی کی کوشش بھی کی، جو روحانی علاج کی طرح ناکام رہی۔ ۱۹۴۳ء میں اس کا آخری ناول ’’شیشے کی گولیوں کا کھیل‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ ۱۹۴۶ء میں ہیسے کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔‘‘
ہماری خرید کردہ کتاب ’’ نارزس اور گولڈمنڈ‘‘ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔
’’ ۱۹۳۰ ء میں ناول ’’ نارزس اور گولڈمنڈ‘‘ شایع ہوا ۔ اس ناول کے کردار ازمنہ وسطیٰ کے دو راہب ہیں ، جو دراصل انسان کے دو چہرے، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ نارزس عالم ہے، گوشہ گیری اور تنہائی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے اور گولڈمنڈ دنیاء کا پجاری ہے۔ ان دونوں کی کہانی دراصل انسانیت کی تمثیل ہے جس کے اندر یہ دونوں رجحانات نہ صرف موجود ہیں بلکہ برسرِ پیکار بھی رہتے ہیں۔‘‘
امید ہے ہماری یہ اوڈیسی آپ کو پسند آئی ہوگی ۔ آپ کے تبصرے ہمیں دوسری قسط لکھنے یا نہ لکھنے پر مجبور کریں گے لہٰذا قلم اٹھائیے اور جو جی میں آئے لکھ دیجے۔