Rashid Ashraf
محفلین
کتابوں کا اتوار بازار ۔ یکم جولائی 2012
شاہد احمد دہلوی اور مارک ٹوین کی یاد میں
ّّّ
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
حصہ اول
اس مرتبہ کتابوں کے اتوار بازار میں کراچی کے ایک کتب خانے کی کتابیں دیکھنے میں آئیں۔ ’’منٹو ۔نوری نہ ناری ‘‘ (سن اشاعت: 1985)، کراچی کے علاقے لانڈھی ٹاؤن کی ’شہید ذوالفقار علی بھٹو لائبریری‘ سے فٹ پاتھ پر پہنچی۔ مذکورہ کتاب کے آخر میں ’محکمہ کتب خانہ جات زونل میونسپلٹی کمیٹی شرقی ‘ کا کارڈ محفوظ حالت میں چسپاں ہے۔ اس کارڈ پر یہ جملہ بھی لکھا دیکھا: ’ آخری درج شدہ تاریخ پر کتاب کا واپس کرناضروری ہے۔ ‘ ۔۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کارڈ پر شامل ’تاریخ واپسی ‘ کے تمام کالمز خالی ہیں۔ یہ کتاب ایک مرتبہ بھی کسی نے مطالعے کی غرض سے حاصل نہیں کی۔ شہید وزیر اعظم کے نام پر قائم کی گئی اس لائبریری کی کتابیں بھی بالاآخر جون 2012 میں ’شہید‘ قرار پائیں۔ایک دوسری کتاب جو 1945 میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی تھی، لگ بھگ 67 برس بعد, 2012 میں اتوار بازار کے فٹ پاتھ کی زینت بنی نظر آئی، اسے مزید ناقدری سے بچانے کے لیے ہم نے اس پر قبضہ کرلیا۔ یہ ہے سید سلیمان ندوی کا لکھا سفرنامہ ۔۔۔ ’’ سیر افغانستان۔تین ہم سفر۔علامہ اقبال۔سید سلیمان ندوی۔سر راس مسعود۔‘‘۔۔۔اس کتاب کی قیمت ’کلدار روپیہ‘ کے ساتھ ساتھ ’سکہ عثمانیہ ‘میں بھی درج ہے ۔ہم ’عہد نظام دکن‘ میں ہوتے تو اس کتاب کو خریدنا لازم قرار پاتا۔ اس بارے میں سبط حسن جو کچھ ’شہر نگاراں‘ میں لکھ گئے ہیں، اسے پڑھنے کے بعد ’عہد راجہ‘ میں سانس لینے پر شکر ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ عہد راجہ میں شاید عنقریب عمل تنفس بھی محصول کی زد میں آ جائے۔
-----------------
شاہد احمد دہلوی کی کتاب بزم خوش نفساں بھی کیا خوب کتاب ہے۔ وہ لکھے اور پڑھا کرے کوئی۔ حال ہی میں وقت و حالات کی ستم ظریفی کے شکار ایک شخص کے حالات زندگی جاننے کا موقع ملا ، بے اختیار شاہد دہلوی کا مضمون ڈپٹی صاحب یاد آگیا۔ گردش حالات کی وجہ سے انسان کیسا کیسا وقت دیکھتا ہے، دنیا ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ چند روز قبل (15 جون، 2012) ہمیں ڈاکٹر جمیل جالبی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔شاہد دہلوی اور جمیل جالبی، ایک جان دو قالب رہے ہیں۔ جالبی صاحب سے ملاقات کا احوال عنقریب پیش کروں گا ۔ بزم خوش نفساں ،جمیل جالبی صاحب نے مرتب کی تھی اور اس کے لیے ایک عمدہ و دلچسپ ابتدائی مضمون شاہد احمد دہلوی پر لکھا تھا۔
ڈپٹی صاحب سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
ڈپٹی صاحب کی جامہ زیبی ہزاروں میں ایک تھی۔چنی ہوئی دوپلی، سفید براق تن زیب کا انگرکھا ،آڑا پاجامہ، آدھی پنڈلیوں تک چوڑیاں پڑی ہوئی، پاؤں میں زرکار سلیم شاہی، بائیں ہاتھ میں پانوں کی ڈبیا اور بٹوہ۔دائیں ہاتھ میں چاندی کے موٹھ کی چھڑی۔ڈپٹی صاحب دلی کے محکمہ آبکاری میں انسپکٹر لیے گئے تھے ، ترقی کرکے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ہوگئے تھے۔جب وہ شام کو بازار مٹیا محل سے چوک کا رخ کرتے تو سب کی نظریں انہی پر لگی رہتی تھیں۔
ڈپٹی صاحب ہمت کے آدمی تھے مگر دس بیس کا نہیں، بیگم سے پچپن برس کا ساتھ تھا۔ بڈھے کی بیوی مر جائے تو بڈھے کی مٹی ٰ پلید ہے۔ پہلے روپیہ گیا، پھر بیوی گئی۔ عمر کے ساتھ ہاتھ پاؤں جواب دے رہے تھے، نماز پڑھتے اور دعا کرتے یا اللہ مجھے بھی اٹھا لے۔ دلی سے کراچی آچکے تھے، یہاں سعادت مند بیٹی اور داماد ان کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے تھے مگر ڈپٹی صاحب پرانی وضع کے بڑے نکیلے آدمی تھے۔ وہ اس غم میں گھلے جاتے تھے کہ ہائے میں بیٹی کے ٹکڑوں پر پڑا ہوا ہوں۔ وہ اب اسی کے پیٹے میں آگئے تھے۔ گھٹیا نے جوڑوں کو جکڑ لیا تھا۔ حکیم نے کہا کہ روزانہ کچھ پیدل چل لیا کریں۔
پچھلے جاڑوں میں ڈپٹی صاحب کو دیکھا کہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا میلا اوور کوٹ پہنے لکڑی کے سہارے ڈگمگاتے چلے آرہے ہیں۔ میں نے سلام کیا۔ پوچھا "آپ کون صاحب ہیں"۔۔۔۔۔ میں نے نام بتایا۔ بولے " ایں ؟ "۔۔۔ میں نے پھر اونچی آواز میں اپنا نام بتایا۔ کہنے لگے " بھئی ہماری خیر خبر لیتے رہا کرو میاں شاہد، ہم پکے پان ہیں، نہ جانے کب بلاوا آجائے۔"
پرانی باتیں کرتے، ٹھسکیاں لیتے، ہم گھر تک ہنچ گئے۔
ڈپٹی صاحب نے کہا " آج ہم تمہیں ایک مزے دار کہانی سناتے ہیں۔ جی چاہے تو کبھی لکھ بھی دینا، لاؤ، یہ رکابی مجھے دے دو۔"
میں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا " لیجیے"
اب میں نے دیکھا کہ رکابی میں مکئی کی روٹیاں تھیں اور ان پر سرسوں کا ساگ رکھا ہوا تھا۔
میں نے کہا " حضرت سلامت، یہ آپ کہاں سے لے آئے اور اسے آپ کیسے کھائیں گے؟ ‘‘
ڈپٹی صاحب نے کہا " ارے بھائی یہی تو بتانے تمہیں اپنے ساتھ لایا ہوں، سنو:
آج جب میں بازار سے لوٹا تو حسب معمول رکتا رکاتا چلا آرہا تھا۔ راستے میں جہاں ایک جھونپڑی ہے نا، وہاں دم لینے کے لیے میں ایک پتھر پر ٹک گیا۔ کھانسی زور سے اٹھی، اتنی کہ سانس بے قابو ہوگیا۔ کھانسی اور ہائے ہائے کی آوازیں سن کر جھونپڑی کا پردہ ہٹا کر ایک عورت نے جھانکا " اے ہے، بیچارہ بابا تھک گیا۔ بھوک لگی ہے ؟ ‘‘
یہ کہہ کر جھونپڑی میں اندر چلی گئی۔ پھر جلدی سے واپس آکر بولی " بابا! جائیو مت! میں نے ابھی ہنڈیا اتار کر توا رکھا ہے۔"
وہ پھر چلی گئی ۔
معا" میرے دل میں خیال آیا کہ یہ عورت مجھے فقیر سمجھ رہی ہے۔ کیا اللہ کی شان ہے۔ یہ بڑھاپا نہیں، برا آپا ہے۔ اور مجھے اپنی بے بسی پر رونا آگیا۔ بہت ضبط کیا مگر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اتنے میں اس نے پردے میں سے ہاتھ بڑھا کر ایک پیڑھی میرے آگے ڈال دی " لے اس پر بیٹھ جا۔ پتھر ٹھنڈا ہوگا۔"
پھر میرے آنسو بہتے دیکھ کر جیسے بچے کو چمکارتے ہیں، چمکار کر بولی " رو مت بابا! میں تجھے گرم گرم روٹی کھلاؤں گی اور ہاں! سرسوں کا ساگ بھی،۔ نہ رؤ۔ "
اپنی زبوں حالی پر افسوس اور تاسف تو ہو ہی رہا تھا کہ اللہ! اب ہم ایسے ہوگئے کہ لوگ ہمیں فقیر سمجھ کر بھیک کے ٹکڑے دینے لگے۔ غیرت نے للکارا اور طبیعت میں بڑی جھونجھل آئی۔ وہاں سے اٹھنے کی کوشش کی کہ اس کے روٹی لانے سے پہلے چلا جاؤں مگر اس عورت کی ہمدردی اور خلوص نے ایک ایک پاؤں من من بھر کا کردیا۔
ابھی یہ کش مکش جاری تھی کہ ایک مٹی کی رکابی میں مکئی کی دو سفید سفید روٹیاں اور ان پر بھاپیں اٹھتا ہوا سرسوں کا ساگ رکھا ہوا نظر آیا۔
’’ لے بابا! کھا لے۔۔‘‘
میں نے ہاتھ بڑھا کر رکابی لے لی۔
عورت نے کہا ’’ یہیں بیٹھ کر کھالے، میں تیرے لیے پانی لاتی ہوں۔ ‘‘ ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں بیٹی ، میں گھر لے جاؤں گا، وہیں جاکر کھاؤں گا۔اس عورت نے چمکار چمکار کر کہا ’’ اچھا تو گھر لے جا۔رو مت، تیرا گھر کہاں ہے ؟ لا میں تیرے گھر پہنچا دوں۔‘‘
میں نے کہا ۔ ’’ نہیں بیٹی میں خود چلا جاؤں گا، تمہاری یہ رکابی شام کو دے جاؤں گا۔‘
عورت نے کہا ’ ’ نا! واپس نہ کیجیو۔میرے کنے اور بہتیری ڈھوبریاں ہیںگی، جو تیرا جی چاہے تو اگلی نوچندی جمعرات کو آ جائیو ۔جب سے میرا منا ہٹا ہے، میں نوچندی جمعرات کو ایک وقت کا کھانا اللہ نام کا نکالوں ہوں۔‘‘
میں نے کہا اچھا بیٹی،اللہ تجھے بہت سا دے۔جو میں جیتا رہا، ضرور آؤں گا۔
بس میاں میں وہیں سے چلا آرہا تھا کہ تم سے ملاقات ہوگئی۔
ڈپٹی صاحب اتنا کہہ کر رونے لگے۔
یہ وہی ڈپٹی صاحب تھے جن کے پیشاب میں چراغ جلتا تھا۔ جوز مین میں ٹھوکرماریں تو پانی نکل آتا تھا۔ آج ان کا یہ بڈرا ہوگیا تھا کہ لوگوں کو ان پر ترس آتا تھا۔ اور جھونپڑی والی عورت نے انہیں اللہ والا سمجھا۔ میں نے کہا ’’ ڈپٹی صاحب! یہ سخت روٹیاں بھلا آپ سے کیا کھائی جائیں گی ؟‘‘
میری بات ختم ہی ہوئی تھی کہ گھر میں سے ڈپٹی صاحب کی بیٹی کی آواز آئی ’’ ابا جی! میز پر کھانا لگا دیا ہے۔آجائیے۔‘‘
ڈپٹی صاحب نے کہا ’’ بیٹی آج تو ہم اللہ کے مہمان ہیں‘‘
ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔کھڑکی میں آکر بولیں ’’ جی ابا جی‘‘
ڈپٹی صاحب نے کہا ’’ آج تو ہم یہ کھائیں گے۔یہ دیکھو‘‘
بیٹی نے کہا ’’ اے ہے یہ کیا ؟ یہ ٹکڑ بھلا آپ سے کھائے جائیں گے ؟ کہاں سے لے آئیں ہیں انہیں۔اور یہ سرسوں کا ساگ ،یہاں تک آرہی ہے تیل کی بھکر، توبہ۔‘‘
ڈپٹی صاحب نے پر عزم آواز میں کہا ’’ہم تو بھائی آج یہی کھائیں گے۔ اللہ نے یہ کھانا ہمیں دلوایا ہے۔ہمارے لیے تو یہی من و سلوی ہے۔‘‘
ڈپٹی صاحب روٹی کا ٹکڑا توڑ کر ساگ لگا کر کھانے لگے۔ بھلا وہ ان سے کیسے چبتا ؟ سوکھ کر کھڑتک ہوگیا تھا ، مگر وہ اسے زہر مار کرتے رہے اور روتے رہے۔بمشکل دو ایک نوالے حلق سے اتارے اور پانی پی کر بولے ’’ الحمد اللہ ! آج بھیک کے ٹکڑوں کا مزہ بھی چکھ لیا۔‘‘
ان کی بیٹی انہیں ٹکر ٹکر دیکھتی رہی۔ ڈپٹی صاحب نے بیٹی کی طرف رکابی بڑھا کر کہا ’’ لو بھئی! اسے خالی کر لاؤ ،شام کا انتظار کون کرے‘‘
اور خالی رکابی لے کر لکڑی ٹیکتے ہوئے ڈپٹی صاحب روانہ ہوئے۔خدا جانے اس وقت ماضی کی دنیا میں کہاں پہنچے ہوئے تھے۔بار بار اس دوہے کو دوہرا رہے تھے:
ان نینوں کا یہی بسیکھ
وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ
-----------------
شاہد احمد دہلوی اور مارک ٹوین کی یاد میں
ّّّ
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
حصہ اول
اس مرتبہ کتابوں کے اتوار بازار میں کراچی کے ایک کتب خانے کی کتابیں دیکھنے میں آئیں۔ ’’منٹو ۔نوری نہ ناری ‘‘ (سن اشاعت: 1985)، کراچی کے علاقے لانڈھی ٹاؤن کی ’شہید ذوالفقار علی بھٹو لائبریری‘ سے فٹ پاتھ پر پہنچی۔ مذکورہ کتاب کے آخر میں ’محکمہ کتب خانہ جات زونل میونسپلٹی کمیٹی شرقی ‘ کا کارڈ محفوظ حالت میں چسپاں ہے۔ اس کارڈ پر یہ جملہ بھی لکھا دیکھا: ’ آخری درج شدہ تاریخ پر کتاب کا واپس کرناضروری ہے۔ ‘ ۔۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کارڈ پر شامل ’تاریخ واپسی ‘ کے تمام کالمز خالی ہیں۔ یہ کتاب ایک مرتبہ بھی کسی نے مطالعے کی غرض سے حاصل نہیں کی۔ شہید وزیر اعظم کے نام پر قائم کی گئی اس لائبریری کی کتابیں بھی بالاآخر جون 2012 میں ’شہید‘ قرار پائیں۔ایک دوسری کتاب جو 1945 میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی تھی، لگ بھگ 67 برس بعد, 2012 میں اتوار بازار کے فٹ پاتھ کی زینت بنی نظر آئی، اسے مزید ناقدری سے بچانے کے لیے ہم نے اس پر قبضہ کرلیا۔ یہ ہے سید سلیمان ندوی کا لکھا سفرنامہ ۔۔۔ ’’ سیر افغانستان۔تین ہم سفر۔علامہ اقبال۔سید سلیمان ندوی۔سر راس مسعود۔‘‘۔۔۔اس کتاب کی قیمت ’کلدار روپیہ‘ کے ساتھ ساتھ ’سکہ عثمانیہ ‘میں بھی درج ہے ۔ہم ’عہد نظام دکن‘ میں ہوتے تو اس کتاب کو خریدنا لازم قرار پاتا۔ اس بارے میں سبط حسن جو کچھ ’شہر نگاراں‘ میں لکھ گئے ہیں، اسے پڑھنے کے بعد ’عہد راجہ‘ میں سانس لینے پر شکر ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ عہد راجہ میں شاید عنقریب عمل تنفس بھی محصول کی زد میں آ جائے۔
-----------------
شاہد احمد دہلوی کی کتاب بزم خوش نفساں بھی کیا خوب کتاب ہے۔ وہ لکھے اور پڑھا کرے کوئی۔ حال ہی میں وقت و حالات کی ستم ظریفی کے شکار ایک شخص کے حالات زندگی جاننے کا موقع ملا ، بے اختیار شاہد دہلوی کا مضمون ڈپٹی صاحب یاد آگیا۔ گردش حالات کی وجہ سے انسان کیسا کیسا وقت دیکھتا ہے، دنیا ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ چند روز قبل (15 جون، 2012) ہمیں ڈاکٹر جمیل جالبی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔شاہد دہلوی اور جمیل جالبی، ایک جان دو قالب رہے ہیں۔ جالبی صاحب سے ملاقات کا احوال عنقریب پیش کروں گا ۔ بزم خوش نفساں ،جمیل جالبی صاحب نے مرتب کی تھی اور اس کے لیے ایک عمدہ و دلچسپ ابتدائی مضمون شاہد احمد دہلوی پر لکھا تھا۔
ڈپٹی صاحب سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
ڈپٹی صاحب کی جامہ زیبی ہزاروں میں ایک تھی۔چنی ہوئی دوپلی، سفید براق تن زیب کا انگرکھا ،آڑا پاجامہ، آدھی پنڈلیوں تک چوڑیاں پڑی ہوئی، پاؤں میں زرکار سلیم شاہی، بائیں ہاتھ میں پانوں کی ڈبیا اور بٹوہ۔دائیں ہاتھ میں چاندی کے موٹھ کی چھڑی۔ڈپٹی صاحب دلی کے محکمہ آبکاری میں انسپکٹر لیے گئے تھے ، ترقی کرکے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ہوگئے تھے۔جب وہ شام کو بازار مٹیا محل سے چوک کا رخ کرتے تو سب کی نظریں انہی پر لگی رہتی تھیں۔
ڈپٹی صاحب ہمت کے آدمی تھے مگر دس بیس کا نہیں، بیگم سے پچپن برس کا ساتھ تھا۔ بڈھے کی بیوی مر جائے تو بڈھے کی مٹی ٰ پلید ہے۔ پہلے روپیہ گیا، پھر بیوی گئی۔ عمر کے ساتھ ہاتھ پاؤں جواب دے رہے تھے، نماز پڑھتے اور دعا کرتے یا اللہ مجھے بھی اٹھا لے۔ دلی سے کراچی آچکے تھے، یہاں سعادت مند بیٹی اور داماد ان کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے تھے مگر ڈپٹی صاحب پرانی وضع کے بڑے نکیلے آدمی تھے۔ وہ اس غم میں گھلے جاتے تھے کہ ہائے میں بیٹی کے ٹکڑوں پر پڑا ہوا ہوں۔ وہ اب اسی کے پیٹے میں آگئے تھے۔ گھٹیا نے جوڑوں کو جکڑ لیا تھا۔ حکیم نے کہا کہ روزانہ کچھ پیدل چل لیا کریں۔
پچھلے جاڑوں میں ڈپٹی صاحب کو دیکھا کہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا میلا اوور کوٹ پہنے لکڑی کے سہارے ڈگمگاتے چلے آرہے ہیں۔ میں نے سلام کیا۔ پوچھا "آپ کون صاحب ہیں"۔۔۔۔۔ میں نے نام بتایا۔ بولے " ایں ؟ "۔۔۔ میں نے پھر اونچی آواز میں اپنا نام بتایا۔ کہنے لگے " بھئی ہماری خیر خبر لیتے رہا کرو میاں شاہد، ہم پکے پان ہیں، نہ جانے کب بلاوا آجائے۔"
پرانی باتیں کرتے، ٹھسکیاں لیتے، ہم گھر تک ہنچ گئے۔
ڈپٹی صاحب نے کہا " آج ہم تمہیں ایک مزے دار کہانی سناتے ہیں۔ جی چاہے تو کبھی لکھ بھی دینا، لاؤ، یہ رکابی مجھے دے دو۔"
میں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا " لیجیے"
اب میں نے دیکھا کہ رکابی میں مکئی کی روٹیاں تھیں اور ان پر سرسوں کا ساگ رکھا ہوا تھا۔
میں نے کہا " حضرت سلامت، یہ آپ کہاں سے لے آئے اور اسے آپ کیسے کھائیں گے؟ ‘‘
ڈپٹی صاحب نے کہا " ارے بھائی یہی تو بتانے تمہیں اپنے ساتھ لایا ہوں، سنو:
آج جب میں بازار سے لوٹا تو حسب معمول رکتا رکاتا چلا آرہا تھا۔ راستے میں جہاں ایک جھونپڑی ہے نا، وہاں دم لینے کے لیے میں ایک پتھر پر ٹک گیا۔ کھانسی زور سے اٹھی، اتنی کہ سانس بے قابو ہوگیا۔ کھانسی اور ہائے ہائے کی آوازیں سن کر جھونپڑی کا پردہ ہٹا کر ایک عورت نے جھانکا " اے ہے، بیچارہ بابا تھک گیا۔ بھوک لگی ہے ؟ ‘‘
یہ کہہ کر جھونپڑی میں اندر چلی گئی۔ پھر جلدی سے واپس آکر بولی " بابا! جائیو مت! میں نے ابھی ہنڈیا اتار کر توا رکھا ہے۔"
وہ پھر چلی گئی ۔
معا" میرے دل میں خیال آیا کہ یہ عورت مجھے فقیر سمجھ رہی ہے۔ کیا اللہ کی شان ہے۔ یہ بڑھاپا نہیں، برا آپا ہے۔ اور مجھے اپنی بے بسی پر رونا آگیا۔ بہت ضبط کیا مگر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اتنے میں اس نے پردے میں سے ہاتھ بڑھا کر ایک پیڑھی میرے آگے ڈال دی " لے اس پر بیٹھ جا۔ پتھر ٹھنڈا ہوگا۔"
پھر میرے آنسو بہتے دیکھ کر جیسے بچے کو چمکارتے ہیں، چمکار کر بولی " رو مت بابا! میں تجھے گرم گرم روٹی کھلاؤں گی اور ہاں! سرسوں کا ساگ بھی،۔ نہ رؤ۔ "
اپنی زبوں حالی پر افسوس اور تاسف تو ہو ہی رہا تھا کہ اللہ! اب ہم ایسے ہوگئے کہ لوگ ہمیں فقیر سمجھ کر بھیک کے ٹکڑے دینے لگے۔ غیرت نے للکارا اور طبیعت میں بڑی جھونجھل آئی۔ وہاں سے اٹھنے کی کوشش کی کہ اس کے روٹی لانے سے پہلے چلا جاؤں مگر اس عورت کی ہمدردی اور خلوص نے ایک ایک پاؤں من من بھر کا کردیا۔
ابھی یہ کش مکش جاری تھی کہ ایک مٹی کی رکابی میں مکئی کی دو سفید سفید روٹیاں اور ان پر بھاپیں اٹھتا ہوا سرسوں کا ساگ رکھا ہوا نظر آیا۔
’’ لے بابا! کھا لے۔۔‘‘
میں نے ہاتھ بڑھا کر رکابی لے لی۔
عورت نے کہا ’’ یہیں بیٹھ کر کھالے، میں تیرے لیے پانی لاتی ہوں۔ ‘‘ ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں بیٹی ، میں گھر لے جاؤں گا، وہیں جاکر کھاؤں گا۔اس عورت نے چمکار چمکار کر کہا ’’ اچھا تو گھر لے جا۔رو مت، تیرا گھر کہاں ہے ؟ لا میں تیرے گھر پہنچا دوں۔‘‘
میں نے کہا ۔ ’’ نہیں بیٹی میں خود چلا جاؤں گا، تمہاری یہ رکابی شام کو دے جاؤں گا۔‘
عورت نے کہا ’ ’ نا! واپس نہ کیجیو۔میرے کنے اور بہتیری ڈھوبریاں ہیںگی، جو تیرا جی چاہے تو اگلی نوچندی جمعرات کو آ جائیو ۔جب سے میرا منا ہٹا ہے، میں نوچندی جمعرات کو ایک وقت کا کھانا اللہ نام کا نکالوں ہوں۔‘‘
میں نے کہا اچھا بیٹی،اللہ تجھے بہت سا دے۔جو میں جیتا رہا، ضرور آؤں گا۔
بس میاں میں وہیں سے چلا آرہا تھا کہ تم سے ملاقات ہوگئی۔
ڈپٹی صاحب اتنا کہہ کر رونے لگے۔
یہ وہی ڈپٹی صاحب تھے جن کے پیشاب میں چراغ جلتا تھا۔ جوز مین میں ٹھوکرماریں تو پانی نکل آتا تھا۔ آج ان کا یہ بڈرا ہوگیا تھا کہ لوگوں کو ان پر ترس آتا تھا۔ اور جھونپڑی والی عورت نے انہیں اللہ والا سمجھا۔ میں نے کہا ’’ ڈپٹی صاحب! یہ سخت روٹیاں بھلا آپ سے کیا کھائی جائیں گی ؟‘‘
میری بات ختم ہی ہوئی تھی کہ گھر میں سے ڈپٹی صاحب کی بیٹی کی آواز آئی ’’ ابا جی! میز پر کھانا لگا دیا ہے۔آجائیے۔‘‘
ڈپٹی صاحب نے کہا ’’ بیٹی آج تو ہم اللہ کے مہمان ہیں‘‘
ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔کھڑکی میں آکر بولیں ’’ جی ابا جی‘‘
ڈپٹی صاحب نے کہا ’’ آج تو ہم یہ کھائیں گے۔یہ دیکھو‘‘
بیٹی نے کہا ’’ اے ہے یہ کیا ؟ یہ ٹکڑ بھلا آپ سے کھائے جائیں گے ؟ کہاں سے لے آئیں ہیں انہیں۔اور یہ سرسوں کا ساگ ،یہاں تک آرہی ہے تیل کی بھکر، توبہ۔‘‘
ڈپٹی صاحب نے پر عزم آواز میں کہا ’’ہم تو بھائی آج یہی کھائیں گے۔ اللہ نے یہ کھانا ہمیں دلوایا ہے۔ہمارے لیے تو یہی من و سلوی ہے۔‘‘
ڈپٹی صاحب روٹی کا ٹکڑا توڑ کر ساگ لگا کر کھانے لگے۔ بھلا وہ ان سے کیسے چبتا ؟ سوکھ کر کھڑتک ہوگیا تھا ، مگر وہ اسے زہر مار کرتے رہے اور روتے رہے۔بمشکل دو ایک نوالے حلق سے اتارے اور پانی پی کر بولے ’’ الحمد اللہ ! آج بھیک کے ٹکڑوں کا مزہ بھی چکھ لیا۔‘‘
ان کی بیٹی انہیں ٹکر ٹکر دیکھتی رہی۔ ڈپٹی صاحب نے بیٹی کی طرف رکابی بڑھا کر کہا ’’ لو بھئی! اسے خالی کر لاؤ ،شام کا انتظار کون کرے‘‘
اور خالی رکابی لے کر لکڑی ٹیکتے ہوئے ڈپٹی صاحب روانہ ہوئے۔خدا جانے اس وقت ماضی کی دنیا میں کہاں پہنچے ہوئے تھے۔بار بار اس دوہے کو دوہرا رہے تھے:
ان نینوں کا یہی بسیکھ
وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ
-----------------