Rashid Ashraf
محفلین
اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کے تعارف سے قبل تمہید کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھا جاتا ہے، حالات حاضرہ ہی کو لے لیجیے، ہر مرتبہ بہت کچھ کہنے سننے کو ہوتا ہے، پل پل بدلتے حالات اور ذہن و قلب کو پریشاں کردینے والی خبروں کی آمد بلا تعطل جاری رہتی ہے۔ ہفتہ و اتوار حسب معمول ملاقاتوں کی نذر ہوا۔ اتوار کی صبح جناب قاضی اختر جونا گڑھی اور ان کی اہلیہ رئیس فاطمہ (ایکسیرپس اخبار کی معروف کالم نگار بھی ہیں) کا حکم تھا کہ ملاقات کے لیے آؤ، سو حاضر ہوا لیکن سید معراج جامی صاحب سے درخواست کرکے انہیں بھی اپنے ہمراہ چلنے پر آمادہ کیا۔ اتوار بازار سے قاضی صاحب کی رہائش گاہ پہنچے اور وہاں کتابوں کی ایسی باتیں چل نکلیں کہ دو گھنٹے دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئے۔ ہندوستان کے ایک شہر سے میرے ایک بیحد محترم کرم فرما کی عزیزہ پہلی مرتبہ کراچی آئی ہیں، ان کے ہاتھ خاکسار کے لیے آپ نے چند کتابیں بھجوائی ہیں، وہ ملاقات بھی آج کل میں متوقع ہے۔ جناب عمیر منظر اور محترم چودھری ابن النصر کے بعد ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور بزرگ کی محبتیں سمیٹ رہا ہوں, جواب میں خاکسار کی طرف سے دیگر کتابوں کے ہمراہ ان کی فرمائش پر محمد خالد اختر کا بے مثال ناول "چاکیواڑہ میں وصال" جائے گا۔ لیکن اس مرتبہ خود پر بیتے ایک واقعے کو بیان کرنے کی گنجائش نکال ہی لی ہے۔
واقعہ ایسا کہ پشیمان کرگیا۔
صاحبو! گزشتہ ہفتے کی بات ہے جب عزیزوں میں ملاقات کی غرض سے گیا، شام ہورہی تھی، واپسی پر گھر سے باہر آئے تو تاریکی چھا چکی تھی، خاتون خانہ باہر تک رخصت کرنے آئیں۔ کشادہ گلی میں بجلی کی عدم موجودگی کی بنا پر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ دیکھا کہ ایک صاحب میری گاڑی سے سہارا لیے سر جھکائے کھڑے ہیں۔
مجھے دیکھتے ہی انہوں نے خاتون خانہ کے بھائی کے بارے میں دریافت کیا جو ساتھ والے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔
" جی وہ تو موجود نہیں ہیں"یہ سن کر وہ صاحب آہستگی سے سر جھکائے ایک جانب چل پڑے، اب میں نے پہلی مرتبہ غور سے دیکھا تو علم ہوا کہ ان کی ٹانگ نہیں تھی اور وہ بیساکھیوں کی مدد سے اپنے راستے چلے جارہے تھے۔ دریں اثناء میں نے خاتون خانہ کو ان کے بارے میں بتایا تو وہ جھٹ بولیں: " ہاں، یہ بیچارہ کبھی کبھی آتا ہے، ہم کچھ مدد کردیتے ہیں""اگر میں اس کو کچھ سے دوں تو کوئی حرج تو نہیں " ? میں نے پوچھا
"" ضرور، اس کی مدد ہوجائے گی"۔ خاتون نے جواب دیا
میں نے کچھ پیسے نکالے، اس جانب لپکا اور ان کے قریب پہنچ کر کہا کہ ذرا ٹھہریے۔ اب ہم ایک ایسی جگہ کھڑے تھے جہاں قریبی گھر سے آتی بلب کی روشنی میں ان کا چہرہ مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ رک گئے۔ میں نے پیسے ان کو دیتے ہوئے کہا:
یہ کچھ پیسے ہیں، آپ رکھ لیجیے۔ یہ کہنا تھا کہ ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ بقول ابن صفی مرحوم، غم و غصے کی اخباری ترکیب کا درست مفہوم اس وقت سمجھ میں آیا:
" میاں! آپ کا دماغ تو درست ہے" وہ بولے " کیا آپ نے مجھے بھیک منگا سمجھ رکھا ہے ? ""
ادھر میری روح فنا ہوچکی تھی " خدایا! یہ کیا حماقت ہوگئی، اب گلوخلاصی کیسے ہوگی " وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر درشت لہجے میں کہہ رہے تھے
" آپ میری بارے میں جانتے ہی کیا ہیں، میں 12 برس بعد سعودیہ سے آیا ہوں، ۔۔۔۔۔۔ میرا بچپن کا دوست ہے، سمجھے آپ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تو سوچا تھا کہ یہاں سے گزرا ہوں تو اس سے ملتا چلوں، میرا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے، سمجھے، بتادیجیے گا اس کو کہ میں آیا تھا""
میری معذرت تو وہ سن ہی نہیں رہے تھے۔ بلاآخر میں نے حوصلہ کرکے کہا: "حضرت، مجھے معاف کردیجیے، دراصل (اگلی بات کہنے سے پہلے بھی اس کے نتائج پر میں نے ایک لمحے کو سوچا) بات یہ ہے کہ آپ ہی کے حلیے سے ملتا جلتا ایک شخص یہاں آتا ہے، اس کی بھی ایک ٹانگ نہیں ہے، ادھر یہاں گلی میں آج بجلی کے بلب بھی روشن نہیں ہیں، سو مجھے مغالطہ ہوا۔"" اس بات پر وہ صاحب کچھ ٹھنڈے ہوئے۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر ایک مرتبہ پھر بھڑک اٹھے:
"" اور ہاں! یہ ۔۔۔ یہ دیکھیے آپ" یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جیب سے ایک وزنی چابی نکالی اور کہا " یہ لیجیے، پکڑیں اسے اپنے ہاتھ میں"
میں نے بادل نخواستہ اسے تھاما
" یہ چابی ہے میری گاڑی کی، میں خود چلاتا ہوں، آٹو میٹک ہے، گئیر والی چلا نہیں سکتا، کبھی چلائی ہے آپ نے آٹو میٹک گاڑی" " نہیں حضور، کبھی نہیں، دور ہی سے دیکھی ہے، مجھے اجازت ? " میں نے خجالت سے بھرپور لہجے میں استدعا کی۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے چل پڑے!
واپسی پر خاتون کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہیں رات میں کم نظر آتا ہے۔ واللہ علم بالصواب!
کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے:
ملاقاتیں
ملک کی 16 شخصیات سے ملاقاتوں کا احوال
مصنف: الطاف حسین قریشی
ناشر: مکتبہ اردو ڈائجسٹ، لاہور
سن اشاعت: 1963
الہ آباد تا کراچی
مصنف: مقصود علی
مصنف نے کراچی سے شائع کی
سن اشاعت: 2006
پھر وہی بیاں اپنا
اخلاق احمد دہلوی
ناشر: مکتبہ عالیہ لاہور
سن اشاعت: 1995
بازیچہ بالغاں
یاداشتیں: محمد سعید خاں
تالیف: خیال آفاقی
ناشر: مکتبہ المنیر کراچی
سن اشاعت: 2006
ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی-کچھ میری کچھ ان کی زبانی
تفصیلات: نامعلوم
حمید نظامی
مصنف: شورش کاشمیری
ناشر: مکتبہ چٹان لاہور
سن اشاعت: 1967
مولوی محمد قاسم موشری کی کتھا
مولف: آصف رضا موریو
ناشر: انڈس کلچرل اینڈ لٹریری آرگنائزیشن-لاڑکانہ
سن اشاعت: 2008
واقعہ ایسا کہ پشیمان کرگیا۔
صاحبو! گزشتہ ہفتے کی بات ہے جب عزیزوں میں ملاقات کی غرض سے گیا، شام ہورہی تھی، واپسی پر گھر سے باہر آئے تو تاریکی چھا چکی تھی، خاتون خانہ باہر تک رخصت کرنے آئیں۔ کشادہ گلی میں بجلی کی عدم موجودگی کی بنا پر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ دیکھا کہ ایک صاحب میری گاڑی سے سہارا لیے سر جھکائے کھڑے ہیں۔
مجھے دیکھتے ہی انہوں نے خاتون خانہ کے بھائی کے بارے میں دریافت کیا جو ساتھ والے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔
" جی وہ تو موجود نہیں ہیں"یہ سن کر وہ صاحب آہستگی سے سر جھکائے ایک جانب چل پڑے، اب میں نے پہلی مرتبہ غور سے دیکھا تو علم ہوا کہ ان کی ٹانگ نہیں تھی اور وہ بیساکھیوں کی مدد سے اپنے راستے چلے جارہے تھے۔ دریں اثناء میں نے خاتون خانہ کو ان کے بارے میں بتایا تو وہ جھٹ بولیں: " ہاں، یہ بیچارہ کبھی کبھی آتا ہے، ہم کچھ مدد کردیتے ہیں""اگر میں اس کو کچھ سے دوں تو کوئی حرج تو نہیں " ? میں نے پوچھا
"" ضرور، اس کی مدد ہوجائے گی"۔ خاتون نے جواب دیا
میں نے کچھ پیسے نکالے، اس جانب لپکا اور ان کے قریب پہنچ کر کہا کہ ذرا ٹھہریے۔ اب ہم ایک ایسی جگہ کھڑے تھے جہاں قریبی گھر سے آتی بلب کی روشنی میں ان کا چہرہ مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ رک گئے۔ میں نے پیسے ان کو دیتے ہوئے کہا:
یہ کچھ پیسے ہیں، آپ رکھ لیجیے۔ یہ کہنا تھا کہ ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ بقول ابن صفی مرحوم، غم و غصے کی اخباری ترکیب کا درست مفہوم اس وقت سمجھ میں آیا:
" میاں! آپ کا دماغ تو درست ہے" وہ بولے " کیا آپ نے مجھے بھیک منگا سمجھ رکھا ہے ? ""
ادھر میری روح فنا ہوچکی تھی " خدایا! یہ کیا حماقت ہوگئی، اب گلوخلاصی کیسے ہوگی " وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر درشت لہجے میں کہہ رہے تھے
" آپ میری بارے میں جانتے ہی کیا ہیں، میں 12 برس بعد سعودیہ سے آیا ہوں، ۔۔۔۔۔۔ میرا بچپن کا دوست ہے، سمجھے آپ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تو سوچا تھا کہ یہاں سے گزرا ہوں تو اس سے ملتا چلوں، میرا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے، سمجھے، بتادیجیے گا اس کو کہ میں آیا تھا""
میری معذرت تو وہ سن ہی نہیں رہے تھے۔ بلاآخر میں نے حوصلہ کرکے کہا: "حضرت، مجھے معاف کردیجیے، دراصل (اگلی بات کہنے سے پہلے بھی اس کے نتائج پر میں نے ایک لمحے کو سوچا) بات یہ ہے کہ آپ ہی کے حلیے سے ملتا جلتا ایک شخص یہاں آتا ہے، اس کی بھی ایک ٹانگ نہیں ہے، ادھر یہاں گلی میں آج بجلی کے بلب بھی روشن نہیں ہیں، سو مجھے مغالطہ ہوا۔"" اس بات پر وہ صاحب کچھ ٹھنڈے ہوئے۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر ایک مرتبہ پھر بھڑک اٹھے:
"" اور ہاں! یہ ۔۔۔ یہ دیکھیے آپ" یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جیب سے ایک وزنی چابی نکالی اور کہا " یہ لیجیے، پکڑیں اسے اپنے ہاتھ میں"
میں نے بادل نخواستہ اسے تھاما
" یہ چابی ہے میری گاڑی کی، میں خود چلاتا ہوں، آٹو میٹک ہے، گئیر والی چلا نہیں سکتا، کبھی چلائی ہے آپ نے آٹو میٹک گاڑی" " نہیں حضور، کبھی نہیں، دور ہی سے دیکھی ہے، مجھے اجازت ? " میں نے خجالت سے بھرپور لہجے میں استدعا کی۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے چل پڑے!
تا شام روز حشر "خطاؤں" کے سامنے
شرمندگی سے پانی کا ہر قطرہ آب ہے
واپسی پر خاتون کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہیں رات میں کم نظر آتا ہے۔ واللہ علم بالصواب!
کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے:
ملاقاتیں
ملک کی 16 شخصیات سے ملاقاتوں کا احوال
مصنف: الطاف حسین قریشی
ناشر: مکتبہ اردو ڈائجسٹ، لاہور
سن اشاعت: 1963
الہ آباد تا کراچی
مصنف: مقصود علی
مصنف نے کراچی سے شائع کی
سن اشاعت: 2006
پھر وہی بیاں اپنا
اخلاق احمد دہلوی
ناشر: مکتبہ عالیہ لاہور
سن اشاعت: 1995
بازیچہ بالغاں
یاداشتیں: محمد سعید خاں
تالیف: خیال آفاقی
ناشر: مکتبہ المنیر کراچی
سن اشاعت: 2006
ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی-کچھ میری کچھ ان کی زبانی
تفصیلات: نامعلوم
حمید نظامی
مصنف: شورش کاشمیری
ناشر: مکتبہ چٹان لاہور
سن اشاعت: 1967
مولوی محمد قاسم موشری کی کتھا
مولف: آصف رضا موریو
ناشر: انڈس کلچرل اینڈ لٹریری آرگنائزیشن-لاڑکانہ
سن اشاعت: 2008