Rashid Ashraf
محفلین
کتابوں کا اتوار بازار-20 مئی، 2012
’کراچی کی ریت اور کراچی کی رت‘
شہر کراچی میں ۱۹ مئی کی رات گرد کا طوفان آیا۔خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں صبح تک یہ کیفیت قائم نہ رہے کہ اتوار بازار میں رکھی کتابیں اور کتب فروش، دونوں ہی پہچاننے میں نہ آئیں گے۔ اتفاق دیکھیے کہ اس مرتبہ حضرت رئیس امروہوی کے فن اور شخصیت پر ملنے والی نایاب کتاب میں درج ایک شعر بھی اس صورتحال میں موزوں ہوا:
کراچی کی ریت اور کراچی کی رتُ
بنادے گی انساں کو مٹی کا بتُ
اتوار کی صبح مطلع اور دل ،دونوں ہی صاف نکلے۔ اس مرتبہ انجینئرنگ کے زمانے کا ایک ایسا ہم جماعت رفیق سفر تھا جس کو دور دور تک کتابوں سے واسطہ نہ تھا۔ ہم نے شعر داغ دیا:
الجھے ہوئے ہیں گردش دوراں میں آج کل
تم یہ نہ سمجھنا کہ تعلق نہیں رہا
’’ لگتا ہے شاعر نے یہ شعر اس وقت کہا تھا جب اس کے میڑک کے امتحان ہورہے تھے۔‘‘ اپنے دوست کایہ تبصرہ سن کر بقیہ رستے غیر شاعرانہ گفتگو کرنے ہی میں عافیت جانی۔
رستہ طالب علمی کے زمانے کی یادوں کو سمیٹتے کٹ گیا !
اس مرتبہ اتوار بازار میں شاعر ناصر زیدی کی درجنوں کتابیں فٹ پاتھ کی زینت بنی نظر آئیں۔ لاہور سے یہ کتابیں کراچی کیسے پہنچیں، ناصر زیدی ہی جانتے ہوں گے۔تقریبا تمام کتابوں پر ان کے مصنفین کے دستخط موجود تھے جنہوں نے نہایت اپنائیت سے انہیں ہمارے شاعر کو پیش کیا تھا۔شاعر سے وضاحت کون طلب کرے۔اس صورتحال پر ناصر زیدی کاہی ایک شعر یا د آتا رہا:
تم پر تو اے ہم نفسو! کچھ جبر نہیں، تم تو بولو
ہم تو چپ سادھے بیٹھے ہیں اور زباں پر تالے ہیں
ہم نفسوں کی زبان پر تالے ضرور ہوں، قلم تو آزاد ہے! لیکن ناصر زیدی کتابوں کے کراچی پہنچنے کے معاملے میں اکیلے نہیں ہیں، لگتا ہے کہ لاہور سے پہنچنے والی کھیپ کے پیچھے کتب فروشوں کا کوئی طاقتور مافیا کارفرما ہے یا پھر ان کتابوں کے مالکان نے کوئی اور مصروفیت تلاش کرلی ہے۔ مدیر نقوش محمد طفیل بلکہ بقول شخصے ’محمد نقوش‘ کے صاحبزادے جاوید طفیل کا نام بھی لیا جائے گا کہ جگن ناتھ آزاد نے نہایت محبت و خلوص کے ساتھ ان کو جو کتاب تحفے میں پیش کی تھی، وہ بھی چپ چاپ ایک کونے میں نوحہ کناں نظر آئی۔یہ تھی تلوک چند محروم لٹریری سوسائٹی دہلی سے شائع ہوئی ’’جگن ناتھ آزاد۔فکر و فن‘‘۔ اندورنی صفحے پر جناب آزاد نے اپنا دل کھول کر جاوید طفیل کے سامنے رکھ دیا ۔۱۷ مئی ۱۹۹۹ کو لکھے اس نوٹ میں آزاد کہتے ہیں:
’’قرآن نمبر کی جلد اول اور دوم موصول ہوچکی ہیں۔جہاں تک یاد پڑتا ہے، اس گراں قدر تحفے کی شکریے کے ساتھ اطلاع دے چکا ہوں۔ عمر اسی سے تجاوز کرچکی ہے، ہر بات اب یاد بھی نہیں رہتی۔اب تو صرف یہ آرزو ہے کہ زندگی میں ایک بار اور عیسیٰ خیل، میانوالی ،ملتان اور لاہور کو دیکھ لوں ‘‘۔پیار کے ساتھ۔جگن ناتھ آزاد
جاوید طفیل نے آزاد کے پیارکے جواب میں ’’جگن ناتھ آزاد۔فکر وفن‘‘ کو آزاد کردیا۔
ع جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا
رام لعل کے افسانوں کا مجموعہ ’ ہر مال بیس روپیہ‘ کے ڈھیر میں ڈھیر ہوا پڑا تھا۔ کسی نجات دہندہ کی تلاش میںجو اسے زمین پر پڑے بے تو قیری کے اس انبار سے نکال کر اپنے کتب خانے کی زینت بنا سکے۔کتاب پر ’ فخر الدین میموریل کمیٹی،اتر پردیش، لکھنؤ کے مالی تعاون سے شائع ہوئی‘ کے جادوئی الفاظ کندہ تھے۔ہم اپنے یہاں اس قسم کے اداروں کی موجودگی کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ۱۱ فروری 1977 کو انتقال کرجانے والے ہندوستانی صدر فخر الدین علی احمد نجی زندگی میں ایک سادہ انسان تھے۔ ہندوستانی صدور حلیے ہی سے نہیں، شکل و صورت سے بھی ہمارے والوں کے مقابلے میں "مسکین" نظر آتے ہیں۔ جناب رضا علی عابدی کو جرنیلی سڑک پر بس کے سفر کے دوران ایک درزی ملا تھا جو صدر جمہوریہ کی شیروانی کا ناپ لینے جارہا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ ان کا خاندانی درزی ہے۔ دوسری جانب آج کے اخبارات میں ہمارے ملک کی اعلی شخصییت کے اہل خانہ کا ذکر خیر ہے جنہوں نے گزشتہ کل لندن کے مشہور زمانہ اسٹور ’’ ہیروڈز‘‘ سے خریداری کی۔ حال ہی میں صاحب کے اثاثوں کی تفصیل جاری کی گئی ہے جس کے مطابق ان کے پاس ذاتی کار تک نہیں۔زیورات، کپڑے، جوتے و دیگر اشیاء کے علاوہ "صاحب" کے لیے تین سوٹ خریدے گئے، صرف جن کی قیمت 54 ہزار پونڈز ادا کی گئی، پاکستانی روپوں میں یہ 80 لاکھ بنتے ہیں۔ اسٹور کے ملازمین انہیں کسی شاہی خاندان کے فرد سمجھے تھے۔ آج (۲۵ مئی) کو علی الصبح ایک ٹی وی چینل پر ایک رفاہی و خیراتی ادارے پر ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں لوگوں کو مفت میں کھانا کھلایا جاتا ہے، کراچی کا ایک مشہور نام۔۔لوگوں کا جم غفیر تھا۔۔لمبی قطار میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ایک عورت پروگرام کی خاتون میزبان کو اپنا حال بتاتے بتاتے بری طرح رو پڑی ، اس کے آنسو تیزی سے بہہ کر نقاب میں جذب ہوتے جاتے تھے۔۔ فرط جذبات سے مغلوب وہ بار بار خاتون کو ’سر جی‘ کہہ کر پکار رہی تھی۔۔۔اسے تو اپنی بات بھی کہنی نہیں آتی تھی، ایک ہم ہیں کہ صبح سے شام لفظوں کے جال بنتے ہیں ، غلط کو صحیح ثابت کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔صبح سات بجے سے شام پانچ بجے کی محنت کے بعد ا س عورت کو ڈھائی ہزار روپے ملتے ہیں۔دل کچھ ایسا خراب ہوا کہ ہاتھ سے لقمہ ایک جانب رکھ دیا۔
تم ہو یا میں یہاں بفضل خدا
سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں
سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں
دفتر کی ایر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے روزانہ بسوں میں جانوروں کی طرح ٹھنسے ہوئے لوگوں پر نظر پڑتی ہے، یہ منظر دیکھتے اب تو سات برس ہوچلے ہیں ، ایک ساتھی ہیں جو ساتھ والی نشست پر بیٹھتے ہیں، ان کی اور میری رفاقت طویل ہے۔مذہبی ہیں،ایک د ن بسوں کی چھتوں پر لوگوں کو بیٹھا دیکھ کر کہنے لگے : کیا سمجھتے ہیں آپ ، یہ لوگ جو بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہیں ، روز قیامت بھی اسی طرح نظر آئیں گے ؟ میں ان کی طرف دیکھتا رہا۔وہ گویا ہوئے: بھائی یہ اللہ کے مقرب بندوں کی صف میں ہوں گے کہ اپنے حصے کا دکھ تو یہ دنیا ہی میں جھیل چکے، آپ اور ہم سے سوال ضرور ہوگا ۔میں نے گھبرا کر پوچھا: تو کیا کیا جائے حضرت ؟ ۔۔جواب ملا: مستحق آپ کے پاس چل کر نہیں آئے گا، اسے ہمیں خود تلاش کرنا ہوگا۔ ان کی اس بات سے ذہن دو برس پیچھے چلا گیا۔گلشن اقبال کراچی کی ایک مشہور دکان ہے، بروسٹ بناتے اور بیچتے پندرہ سال تو ہوگئے ہوں گے۔ گاہکوں کے لیے فٹ پاتھ پر کرسیاں لگی رہتی ہیں۔ ایک روز چند احباب کے ہمراہ ہم وہاں بیٹھے تھے۔شام کا وقت تھا ، تمام دن کی کڑی محنت کے بعد گھر لوٹتے بسوں کی چھتوں پر بیٹھے مزدور یکے بعد دیگرے ہمارے سامنے سے گزر رہے تھے۔ایک بس ہمارے سامنے آکر رکی۔ مزدور جس طرح ہماری پلیٹوں کی جانب دیکھ رہے تھے، ان نظروں کو آج تک فراموش نہ کرسکا ہوں، اسی وقت ایک فیصلہ یہ کیا کہ آئندہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کبھی کھانا نہیں کھاؤں گا۔
ایک کثیر الاشاعت اخبار میں عبدالقادر حسن کالم لکھتے تھے، اب تو خیر سے ان کی بھی ترقی ہوگئی ہے کہ ایک دوسرے اخبار سے وابستہ ہوگئے ہیں اور اکثر اسی اخبار کے ٹی وی چینل پر بھی بیٹھے نظر آتے ہیں۔ قادر صاحب نے اپنے ایک بیس برس پرانے کالم میں آسائشوں کی بارے میں لکھا تھا کہ کس سرعت سے انسان ان کا عاد ی ہوجاتا ہے۔ وہ لاہور میں مال روڈ پر پیدل جارہے تھے کہ ساتھ ہی ایک نئے ماڈل کی مرسڈیز آکر رکی، اس میں ان کا کالج کے زمانے کا ایک دوست بیٹھا تھا جو ترقی کر کے ایک معروف صنعتکار بن چکا تھا، اس نے انہیں ساتھ بٹھا لیا۔ عبدالقادر حسن نے لکھا کہ صرف بیس منٹ کے سفر کے بعد مجھ میں یہ تبدیلی آئی کہ فٹ پاتھ پر پیدل چلتے لوگ مجھے کیڑے مکوڑوں کی طرح حقیر لگنے لگے۔ لیکن ان سب باتوں کا، روز مرہ زندگی میں نظر آنے والے ایسے دلخراش مناظر کا جہاں انسان کی مجبوری ایک گالی بن کر رہ جائے، دیکھنے والوں پر اثر کتنا دیرپا ہوتا ہے ؟ بقول جناب ابن صفی :
بلاآخر تھک ہار کے یارو ہم نے یہ تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا، باقی سب افسانے ہیں
معاف کیجیے گا! آج اتوار بازار کے باب میں آپ کو خوب بور کیا۔
کتابوں کی تفصیل اس طرح سے ہے:
آہنگ بازگشت÷خودنوشت÷مولوی محمد سعید÷ناشر: کمانڈو پرنٹر لاہور÷سن اشاعت: 1979
÷صفحات: 501
دود چراغ محفل÷خودنوشت÷زاہد حسین÷ناشر: سٹی بک پریس، کراچی÷سن اشاعت: 2000
صفحات: 145
جگن ناتھ آزاد ۔ فکر و فن÷مرتبہ: محمد منظور عالم÷ناشر: محروم میموریل لٹریری سوسائٹی۔نئی دہلی÷سن اشاعت: 1999÷صفحات: 626
اکھڑے ہوئے لوگ÷افسانوں کا مجموعہ÷مصنف: رام لعل ÷ناشر: ادارہ فکر جدید-نئی دہلی
سن اشاعت: 1986÷صفحات: 360
سرجیکل وارڈ÷نامور شعرا کے شخصی خاکے÷تحریر: ضیاء ساجد÷ناشر: مکتبہ القریش لاہور
سن اشاعت: 1994÷صفحات: 312
رئیس امروہوی-فن اور شخصیت÷مرتبہ: صبا لکھنوی÷ناشر: رئیس امروہوی میموریل ٹرسٹ کراچی÷سن اشاعت: 1990÷صفحات: 452
’کراچی کی ریت اور کراچی کی رت‘
شہر کراچی میں ۱۹ مئی کی رات گرد کا طوفان آیا۔خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں صبح تک یہ کیفیت قائم نہ رہے کہ اتوار بازار میں رکھی کتابیں اور کتب فروش، دونوں ہی پہچاننے میں نہ آئیں گے۔ اتفاق دیکھیے کہ اس مرتبہ حضرت رئیس امروہوی کے فن اور شخصیت پر ملنے والی نایاب کتاب میں درج ایک شعر بھی اس صورتحال میں موزوں ہوا:
کراچی کی ریت اور کراچی کی رتُ
بنادے گی انساں کو مٹی کا بتُ
اتوار کی صبح مطلع اور دل ،دونوں ہی صاف نکلے۔ اس مرتبہ انجینئرنگ کے زمانے کا ایک ایسا ہم جماعت رفیق سفر تھا جس کو دور دور تک کتابوں سے واسطہ نہ تھا۔ ہم نے شعر داغ دیا:
الجھے ہوئے ہیں گردش دوراں میں آج کل
تم یہ نہ سمجھنا کہ تعلق نہیں رہا
’’ لگتا ہے شاعر نے یہ شعر اس وقت کہا تھا جب اس کے میڑک کے امتحان ہورہے تھے۔‘‘ اپنے دوست کایہ تبصرہ سن کر بقیہ رستے غیر شاعرانہ گفتگو کرنے ہی میں عافیت جانی۔
رستہ طالب علمی کے زمانے کی یادوں کو سمیٹتے کٹ گیا !
اس مرتبہ اتوار بازار میں شاعر ناصر زیدی کی درجنوں کتابیں فٹ پاتھ کی زینت بنی نظر آئیں۔ لاہور سے یہ کتابیں کراچی کیسے پہنچیں، ناصر زیدی ہی جانتے ہوں گے۔تقریبا تمام کتابوں پر ان کے مصنفین کے دستخط موجود تھے جنہوں نے نہایت اپنائیت سے انہیں ہمارے شاعر کو پیش کیا تھا۔شاعر سے وضاحت کون طلب کرے۔اس صورتحال پر ناصر زیدی کاہی ایک شعر یا د آتا رہا:
تم پر تو اے ہم نفسو! کچھ جبر نہیں، تم تو بولو
ہم تو چپ سادھے بیٹھے ہیں اور زباں پر تالے ہیں
ہم نفسوں کی زبان پر تالے ضرور ہوں، قلم تو آزاد ہے! لیکن ناصر زیدی کتابوں کے کراچی پہنچنے کے معاملے میں اکیلے نہیں ہیں، لگتا ہے کہ لاہور سے پہنچنے والی کھیپ کے پیچھے کتب فروشوں کا کوئی طاقتور مافیا کارفرما ہے یا پھر ان کتابوں کے مالکان نے کوئی اور مصروفیت تلاش کرلی ہے۔ مدیر نقوش محمد طفیل بلکہ بقول شخصے ’محمد نقوش‘ کے صاحبزادے جاوید طفیل کا نام بھی لیا جائے گا کہ جگن ناتھ آزاد نے نہایت محبت و خلوص کے ساتھ ان کو جو کتاب تحفے میں پیش کی تھی، وہ بھی چپ چاپ ایک کونے میں نوحہ کناں نظر آئی۔یہ تھی تلوک چند محروم لٹریری سوسائٹی دہلی سے شائع ہوئی ’’جگن ناتھ آزاد۔فکر و فن‘‘۔ اندورنی صفحے پر جناب آزاد نے اپنا دل کھول کر جاوید طفیل کے سامنے رکھ دیا ۔۱۷ مئی ۱۹۹۹ کو لکھے اس نوٹ میں آزاد کہتے ہیں:
’’قرآن نمبر کی جلد اول اور دوم موصول ہوچکی ہیں۔جہاں تک یاد پڑتا ہے، اس گراں قدر تحفے کی شکریے کے ساتھ اطلاع دے چکا ہوں۔ عمر اسی سے تجاوز کرچکی ہے، ہر بات اب یاد بھی نہیں رہتی۔اب تو صرف یہ آرزو ہے کہ زندگی میں ایک بار اور عیسیٰ خیل، میانوالی ،ملتان اور لاہور کو دیکھ لوں ‘‘۔پیار کے ساتھ۔جگن ناتھ آزاد
جاوید طفیل نے آزاد کے پیارکے جواب میں ’’جگن ناتھ آزاد۔فکر وفن‘‘ کو آزاد کردیا۔
ع جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا
رام لعل کے افسانوں کا مجموعہ ’ ہر مال بیس روپیہ‘ کے ڈھیر میں ڈھیر ہوا پڑا تھا۔ کسی نجات دہندہ کی تلاش میںجو اسے زمین پر پڑے بے تو قیری کے اس انبار سے نکال کر اپنے کتب خانے کی زینت بنا سکے۔کتاب پر ’ فخر الدین میموریل کمیٹی،اتر پردیش، لکھنؤ کے مالی تعاون سے شائع ہوئی‘ کے جادوئی الفاظ کندہ تھے۔ہم اپنے یہاں اس قسم کے اداروں کی موجودگی کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ۱۱ فروری 1977 کو انتقال کرجانے والے ہندوستانی صدر فخر الدین علی احمد نجی زندگی میں ایک سادہ انسان تھے۔ ہندوستانی صدور حلیے ہی سے نہیں، شکل و صورت سے بھی ہمارے والوں کے مقابلے میں "مسکین" نظر آتے ہیں۔ جناب رضا علی عابدی کو جرنیلی سڑک پر بس کے سفر کے دوران ایک درزی ملا تھا جو صدر جمہوریہ کی شیروانی کا ناپ لینے جارہا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ ان کا خاندانی درزی ہے۔ دوسری جانب آج کے اخبارات میں ہمارے ملک کی اعلی شخصییت کے اہل خانہ کا ذکر خیر ہے جنہوں نے گزشتہ کل لندن کے مشہور زمانہ اسٹور ’’ ہیروڈز‘‘ سے خریداری کی۔ حال ہی میں صاحب کے اثاثوں کی تفصیل جاری کی گئی ہے جس کے مطابق ان کے پاس ذاتی کار تک نہیں۔زیورات، کپڑے، جوتے و دیگر اشیاء کے علاوہ "صاحب" کے لیے تین سوٹ خریدے گئے، صرف جن کی قیمت 54 ہزار پونڈز ادا کی گئی، پاکستانی روپوں میں یہ 80 لاکھ بنتے ہیں۔ اسٹور کے ملازمین انہیں کسی شاہی خاندان کے فرد سمجھے تھے۔ آج (۲۵ مئی) کو علی الصبح ایک ٹی وی چینل پر ایک رفاہی و خیراتی ادارے پر ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں لوگوں کو مفت میں کھانا کھلایا جاتا ہے، کراچی کا ایک مشہور نام۔۔لوگوں کا جم غفیر تھا۔۔لمبی قطار میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ایک عورت پروگرام کی خاتون میزبان کو اپنا حال بتاتے بتاتے بری طرح رو پڑی ، اس کے آنسو تیزی سے بہہ کر نقاب میں جذب ہوتے جاتے تھے۔۔ فرط جذبات سے مغلوب وہ بار بار خاتون کو ’سر جی‘ کہہ کر پکار رہی تھی۔۔۔اسے تو اپنی بات بھی کہنی نہیں آتی تھی، ایک ہم ہیں کہ صبح سے شام لفظوں کے جال بنتے ہیں ، غلط کو صحیح ثابت کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔صبح سات بجے سے شام پانچ بجے کی محنت کے بعد ا س عورت کو ڈھائی ہزار روپے ملتے ہیں۔دل کچھ ایسا خراب ہوا کہ ہاتھ سے لقمہ ایک جانب رکھ دیا۔
تم ہو یا میں یہاں بفضل خدا
سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں
سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں
دفتر کی ایر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے روزانہ بسوں میں جانوروں کی طرح ٹھنسے ہوئے لوگوں پر نظر پڑتی ہے، یہ منظر دیکھتے اب تو سات برس ہوچلے ہیں ، ایک ساتھی ہیں جو ساتھ والی نشست پر بیٹھتے ہیں، ان کی اور میری رفاقت طویل ہے۔مذہبی ہیں،ایک د ن بسوں کی چھتوں پر لوگوں کو بیٹھا دیکھ کر کہنے لگے : کیا سمجھتے ہیں آپ ، یہ لوگ جو بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہیں ، روز قیامت بھی اسی طرح نظر آئیں گے ؟ میں ان کی طرف دیکھتا رہا۔وہ گویا ہوئے: بھائی یہ اللہ کے مقرب بندوں کی صف میں ہوں گے کہ اپنے حصے کا دکھ تو یہ دنیا ہی میں جھیل چکے، آپ اور ہم سے سوال ضرور ہوگا ۔میں نے گھبرا کر پوچھا: تو کیا کیا جائے حضرت ؟ ۔۔جواب ملا: مستحق آپ کے پاس چل کر نہیں آئے گا، اسے ہمیں خود تلاش کرنا ہوگا۔ ان کی اس بات سے ذہن دو برس پیچھے چلا گیا۔گلشن اقبال کراچی کی ایک مشہور دکان ہے، بروسٹ بناتے اور بیچتے پندرہ سال تو ہوگئے ہوں گے۔ گاہکوں کے لیے فٹ پاتھ پر کرسیاں لگی رہتی ہیں۔ ایک روز چند احباب کے ہمراہ ہم وہاں بیٹھے تھے۔شام کا وقت تھا ، تمام دن کی کڑی محنت کے بعد گھر لوٹتے بسوں کی چھتوں پر بیٹھے مزدور یکے بعد دیگرے ہمارے سامنے سے گزر رہے تھے۔ایک بس ہمارے سامنے آکر رکی۔ مزدور جس طرح ہماری پلیٹوں کی جانب دیکھ رہے تھے، ان نظروں کو آج تک فراموش نہ کرسکا ہوں، اسی وقت ایک فیصلہ یہ کیا کہ آئندہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کبھی کھانا نہیں کھاؤں گا۔
ایک کثیر الاشاعت اخبار میں عبدالقادر حسن کالم لکھتے تھے، اب تو خیر سے ان کی بھی ترقی ہوگئی ہے کہ ایک دوسرے اخبار سے وابستہ ہوگئے ہیں اور اکثر اسی اخبار کے ٹی وی چینل پر بھی بیٹھے نظر آتے ہیں۔ قادر صاحب نے اپنے ایک بیس برس پرانے کالم میں آسائشوں کی بارے میں لکھا تھا کہ کس سرعت سے انسان ان کا عاد ی ہوجاتا ہے۔ وہ لاہور میں مال روڈ پر پیدل جارہے تھے کہ ساتھ ہی ایک نئے ماڈل کی مرسڈیز آکر رکی، اس میں ان کا کالج کے زمانے کا ایک دوست بیٹھا تھا جو ترقی کر کے ایک معروف صنعتکار بن چکا تھا، اس نے انہیں ساتھ بٹھا لیا۔ عبدالقادر حسن نے لکھا کہ صرف بیس منٹ کے سفر کے بعد مجھ میں یہ تبدیلی آئی کہ فٹ پاتھ پر پیدل چلتے لوگ مجھے کیڑے مکوڑوں کی طرح حقیر لگنے لگے۔ لیکن ان سب باتوں کا، روز مرہ زندگی میں نظر آنے والے ایسے دلخراش مناظر کا جہاں انسان کی مجبوری ایک گالی بن کر رہ جائے، دیکھنے والوں پر اثر کتنا دیرپا ہوتا ہے ؟ بقول جناب ابن صفی :
بلاآخر تھک ہار کے یارو ہم نے یہ تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا، باقی سب افسانے ہیں
معاف کیجیے گا! آج اتوار بازار کے باب میں آپ کو خوب بور کیا۔
کتابوں کی تفصیل اس طرح سے ہے:
آہنگ بازگشت÷خودنوشت÷مولوی محمد سعید÷ناشر: کمانڈو پرنٹر لاہور÷سن اشاعت: 1979
÷صفحات: 501
دود چراغ محفل÷خودنوشت÷زاہد حسین÷ناشر: سٹی بک پریس، کراچی÷سن اشاعت: 2000
صفحات: 145
جگن ناتھ آزاد ۔ فکر و فن÷مرتبہ: محمد منظور عالم÷ناشر: محروم میموریل لٹریری سوسائٹی۔نئی دہلی÷سن اشاعت: 1999÷صفحات: 626
اکھڑے ہوئے لوگ÷افسانوں کا مجموعہ÷مصنف: رام لعل ÷ناشر: ادارہ فکر جدید-نئی دہلی
سن اشاعت: 1986÷صفحات: 360
سرجیکل وارڈ÷نامور شعرا کے شخصی خاکے÷تحریر: ضیاء ساجد÷ناشر: مکتبہ القریش لاہور
سن اشاعت: 1994÷صفحات: 312
رئیس امروہوی-فن اور شخصیت÷مرتبہ: صبا لکھنوی÷ناشر: رئیس امروہوی میموریل ٹرسٹ کراچی÷سن اشاعت: 1990÷صفحات: 452