بیان سے اختلاف اپنی جگہ مگر کسی حد تک حقیقت کھولتا اک کالم
کتاب جو ہے بھی اور نہیں بھی
خدا بخش ابڑو –.
جب زندگی سستی تھی، تب کتاب بھی سستی تھی اور مہنگی تھی تو صرف جان۔ اب جان سستی ہے اور کتاب مہنگی۔
پہلے کاغذ ہمارا اپنا تھا۔ چٹگانگ بھی اپنا تھا تو کرنافلی پیپر بھی اپنا۔ کتابیں لکھی بھی جاتیں، خریدی بھی جاتیں تو پڑھی بھی جاتیں۔ تب کتابیں بانٹنے کا رواج بھی نہیں پڑا تھا۔ اخبار کم، کتابیں زیادہ چھپتیں۔ گھر گھر کتاب پڑھی جاتی، خریدنے کی سکت نا بھی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی، گلی محلےمیں کتب خانے تھے۔ لوگ کرائے پر کتاب لے جاتے پھر دوسرے دن دوسری کتاب کے لیے آ کھڑے ہوتے۔
بچوں کا ادب، جاسوسی ادب، شاعری، ناول اور ڈائجسٹ بھی ادب کی چاشنی سے لبریز ہوتے۔ شام کو اگر کوئی لائبریری جا رہا ہوتا تو گھر سے چھوٹوں کی فرمائش الگ، بڑوں کی الگ، بہن کو کچھ چاہیئے تو امی کو کچھ۔ سب پڑھتے تھے اور لکھنے والے صرف لکھتے تھے۔ لکھنے کے بدلے میں عہدے، کرسی اور زندگی کی انگنت رعایتیں ان کی منزل و مقصود نہیں بنی تھیں۔
پھر ہوا یہ کہ اقلیت نےاکثریت کو الگ کرکے خود کو اکثریت میں تبدیل کردیا اور اکثریت کے جانے سے ہمارے ہاتھوں سے بہت کچھ چلا گیا۔ سب سے بڑی بات کرنافلی پیپر مل کے جانے سے جو سب سے بڑا وار ہوا وہ ہماری کتاب پر ہوا۔ ہمارے فنون، فلم، موسیقی، رقص اور ادب سب ادھورے رہ گئے۔ کتابیں سستی سے مہنگی جو ہوئیں تو پڑھنے لکھنےکے رواج میں بھی کمی ہوئی۔ ہماری واپسی کا سفر تب سے ہی شروع ہوا اور جو ابھی بھی جاری ہے.
ایک بڑے بھائی جس کو اس سے چھوٹے نے کبھی بڑا تسلیم کیا ہی نہیں تھا ۔ وہ خودہی بڑا بن بیٹھا اورپھر اپنے بڑے ہونے کے سارے فائدے لینے لگا کہ جو اصل میں بڑا تھا وہ تو اب رہا بھی نہیں تھا۔ چھوٹوں کو دبانا اور اپنے پاؤں تلے رکھنے کا گرتو اسے پہلے ہی خوب آتا تھا کہ اس کے پاؤں ہمیشہ سے فوجی بوٹوں میں ہی رہے اور مولوی تو اس کا ہمیشہ سے لنگوٹیا یار تھا، جس کے بغیر وہ ادھورا ہی دکھائی دیتا۔ بڑے بھائی کا بھرکس بھی دونوں نے مل کرہی نکالا۔
ستر کی دہائی سے واپسی کا سفر شروع ہوا اور اسی میں اس میں تیزی آئی۔ ملک کا کعبہ قبلہ درست ہوا۔ پڑھنے پڑھانے کے دن ختم ہوئے، نماز روزہ لازم ٹھہرا۔ بار اور کلبوں پر تو کب کے تالے پڑہی چکے تھے۔ کہ جہاں روز شام کو ادب، آرٹ، موسیقی، فلم اور تھیئٹر کے بڑے بڑے نام ایک دوسرے سے ملتے، نئے نئے آئیڈیاز پر بحث کرتے۔ کتابیں زیر بحث آتیں اور نئے آئیڈیاز جنم لیتے۔
آہستہ آہستہ کتب خانے، کافی ہاؤس کم ہونے شروع ہوئے۔ ایک طرف کڑھائی اور بالٹی گوشت کی دوکانوں میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب مدرسوں کی بھرمار ہونے لگی۔ مذہبی کتابیں زیادہ چھپنے لگیں صرف اس لیے کہ جو سعودی عرب سے فنڈ وصول ہوتے وہ کتابیں چھاپنے کے نام پر، سو خانہ پری کی خاطر چھاپ کے بھیج دی جاتیں۔
پھر جو نئے وردی والے روشن خیالی کا بیج لگا کر نمودار ہوئے تو وہ بھی درپردہ مردِ مومن کے نقشِ قدم پر ہی چلتے رہے اور اندھیروں کی پرورش کرتے رہے۔ سونے پر سہاگہ نو گیارہ نے کیا۔ انکی بھی چاندی ہوگئی پھر یہ دونو ں کے نام کی رقم اینٹھنے لگے۔
ایک طرف پیسے کی ریل پیل ہوئی تودوسری طرف معاشرے میں طبقاتی تفریق بھی بڑھتی گئی۔ غریب، غریب تر ہوتا گیا اور امیر، امیر تر۔ درمیان والا نا ادھر کا رہا نا ادھر کا۔ اس کو تو جینے کے لالےپڑگئے۔ اب جو ترقی ہوئی ہے تو صرف کھانوں میں۔ طرح طرح کے کھانوں کے آؤٹلیٹ ہیں۔
امیر بھی کھانوں کے آؤٹلیٹ پر ملتے ہیں تو باقی جو درمیان میں رہ گیا ہے۔ وہ بھی ملتا ہے تو کھانے کی ٹیبل پر۔ گفتگو کا محور بھی یا تو کھانے ہوتے ہیں یا وہ جو ان کے درمیان اس وقت موجود نہیں ہوتے۔ یا پھر سیاست یا ملک کا رونا جو ہم کب سے رو رہے رہیں اور روتے ہی رہینگے۔
نئی سوچ نئے خیالات صرف چند سرپھروں تک محدود ہوتے جا رہے ہیں اور وہ بھی بے چارےخانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے خانوں میں ہی ملتے ہیں۔ اس سے باہر وہ بھی دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔
کتاب اب بھی چھپ رہی ہے۔ کتابوں کی دوکانیں بھی دھڑا دھڑ کھل رہی ہیں، لیکن بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز میں۔ کہ جو تفریق معاشرے میں آئی ہے، اس میں ادب، آرٹ، تھیئٹر اور موسیقی تک رسائی صرف اس طبقے کی ہے جو اسے افورڈ کرسکتا ہے۔
کتابیں پڑھنے کی عادت انگریزی اسکولوں میں تو ڈالی جاتی ہے، البتہ سرکاری اسکولوں میں تو پاس ہو نا ہی کافی ہوتا ہے۔ تو پڑھنے لکھنے کا رجحان انگریزی اسکول سے پڑھے بچوں میں تو پھر بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن سرکاری اسکولوں سے پڑھے بچوں میں کم ہی ہوتا ہے۔ اوپر سے قائد کے فرمان کے مطابق کتاب کی جگہ کلاشنکوف نے لے لی ہے۔
انگریزی کتاب تو چھپ بھی رہی ہے اور بک بھی رہی ہے۔ سب سے بڑا ثبوت تو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور اس کی امینہ سید ہیں جنہوں نے کتاب کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ پھر دن بدن پھلتے پھولتے کتابوں کے آئوٹلیٹس ہیں جو ہر نئے شاپنگ سینٹر کے ساتھ وجود میں آجاتے ہیں۔
کتابیں پڑھنے والے بھی خرید رہے ہیں اور وہ بھی کہ جن کو اپنے ملنے ملانے والوں کو یہ باور بھی کرانا ہے کہ ہم بھی پڑھے لکھے ہیں۔ جیسے جو آرٹسٹ اِن ہے اسکی پینٹنگ ڈرائینگ روم میں ضروری ہے ایسے ہی وہ رائیٹر بھی جو اِن ہے اسکی کتاب تو شیلف پر ہونا بہت ضروری ہے۔
اردو کی کوئی ادبی کتاب ہزار کی تعداد میں بھی چھپ جائے تو غنیمت ہے۔ اور وہ بھی لاہور سے چھپی ہو یا کراچی سے، سب سے زیادہ اگر بکتی ہے تو سندھ میں کہ وہاں ابھی تک پڑھنےلکھنے کا رواج ہے۔
باقی ملک میں تو دینی کتابیں جس تعداد میں چھپ رہی ہیں اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ وہ سستی بھی ہیں اور انکے پڑھنے سے ثواب بھی ملتا ہے۔ اب تو ہر مسجد کے ساتھ ایک کتابوں کی دوکان بھی ہے۔ وہ تو چھوڑیں مسجد کے سائے میں نئے زمانے کی دیکھا دیکھی دینی کیسیٹوں کی دوکانیں بھی ہیں۔ لوگ خرید بھی رہے ہیں، سن کر جھوم بھی رہے ہیں اور اپنا ایمان بھی تازہ کر رہے ہیں۔
لیکن، آپ اگر سند ھ میں کسی مزار پر بھی چلے جائیں تو مزار کے اند ر بھی کتابوں کی دوکان ملے گی۔ جہاں سے آپ کنٹیمپوریری ادب خرید سکتے ہیں۔ اور خوشی اور فخر کی بات یہ ہے کہ کتاب کا خریدار بھی کتاب کا نام لے کر کتاب خرید رہا ہے۔
اردو تو چھوڑیں پاکستان میں کتنی زبانیں بولی اور لکھی جاتی ہیں سب کی کتابیں چھپ رہی ہیں اور بک بھی رہی ہیں۔ باقی زبانوں کو قومی زبان کوئی ماننے کے لیے تیار بھی نہیں اور اردو جس کو قومی زبان کا درجہ دیا ہوا ہے اس کے ادب کو اسکے خود کے بولنے والے بھی پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔
آجکل آئیڈیاز ۲۰۱۲ کا شور ہے جو آئیڈیاز ۲۰۰۰ کے نام سے شروع ہوا اور اس کا نعرہ ہے’ ہتھیار امن کے لیے‘۔ کیا ہی اچھا ہوتا یہ آئیڈیاز ہتھیاروں کے لیے نہیں کتابوں کے لیے ہوتے اور اس کا نعرہ بھی ’کتاب امن کے لیے‘ ہوتا اور ہتھیاروں کی جگہ نئی نسل کو کتاب دیتے، تعلیم دیتے، صحت دیتے، روشن خیالی دیتے!
کتاب کو تو اٹھا کر طاق پر رکھ دیا ہے۔ کتاب ہے کہ حسرت سے ہمیں تکتی رہتی ہے، کہ اس کو اٹھا کر کھولنے کا بھی وقت نہیں۔ میسیجز پڑھنے سے اس نسل کو فرصت ملے گی تو کتاب بھی پڑھے گی۔ ویسے اگر پڑھنے والا ہے تو وہ ویب پر بھی پڑھ سکتا ہے کہ اب کتابیں بھی آن لائن ہیں۔ اور جنہیں پڑھنے کی عادت ہے وہ ویب پر بھی پڑھتے ہیں۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے، انٹرنیٹ اور فیس بک تو کتاب کو کھا گیا۔ لیکن کتاب پڑھنے والے کتاب پڑھ رہے ہیں چاہے وہ کاغذ پر نہیں اسکرین پر بھی ہے۔ اور جنہیں نہیں پڑھنا، وہ تو انٹرنیٹ ہو یا فیس بک یا ثواب کمانے میں لگے ہیں یا پھر چھپن چھپائی کھیلنے میں۔
پچھلے دنوں ایک کہاوت پڑھی کہ اس سے مت ڈرو جس نے بہت کتابیں پڑھی ہیں اور کتب خانہ بھی رکھتا ہے ۔ لیکن اس سے ضرور ڈرو جس نے صرف ایک کتاب پڑھی ہے اور اسے مقدس بھی سمجھتا ہے۔