نور وجدان
لائبریرین
جلتے ہوئے حروف
میں نے آسمان سے ایک تارا ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ بہت تیزی سے آسمان کے ذہن میں ایک جلتی ہوئی لکیر کھینچتا ہوا۔۔۔۔ لوگ کہتے ہیں تو سچ ہی کہتے ہوں گے کہ انہوں نے کئی بار ٹوٹے ہوئے ستاروں کی گرم راکھ زمین پر گرتے دیکھی ہے۔۔۔۔۔ میں نے بھی اس تارے کی گرم راکھ اپنے دل کے آنگن میں برستی ہوئی دیکھی ہے ۔
جس طرح اور تاروں کے نام ہوتے ہیں، اسی طرح جو تارا میں نے نونتے دیکھا اس کا بھی ایک نام تھا۔۔۔۔ سارا شگفتہ اس تارے کے ٹوٹتے وقت آسمان کے ذہن میں جو لمبی اور جلتی ہوئی لکیر کھینچ گئی تھی، وہ لکیر سارا شگفتہ کی نظم تھی۔
نظم زمین پر گری تو خدا جانے اس کے کتنے ٹکڑے ہوا میں کھو گئے۔ لیکن جو راکھ میں نے ہاتھ سے چھو کر دیکھی تھی اس میں کتنے ہی جلتے ہوئے حروف تھے جو میں نے اٹھا اٹھا کر کاغذوں پر رکھ لیے...
نہیں جانتی خدا نے ان کاغذوں کو بددعا کیوں دی ہے کہ آپ ان پر کتنے ہی جلتے ہوئے حروف رکھدیں وہ کاغذ نہیں جلتے...
جن لوگوں کے پاس احساس ہے، جلتے ہوئے حروف پڑھتے ہوئے ان کے احساس سلگنے لگتے ہیں مگر کوئی کاغذ نہیں بنتا۔ شاید یہ بددعا نہیں ہے۔ ۔ ۔ ہے بھی تو اسے بددعا نہیں کہنا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہوتا تو خدا جانے دنیا کی کتنی کتابیں اپنے حروف کی آگ سے جل گئی ہوتیں ۔
میں نے آسمان سے ایک تارا ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ بہت تیزی سے آسمان کے ذہن میں ایک جلتی ہوئی لکیر کھینچتا ہوا۔۔۔۔ لوگ کہتے ہیں تو سچ ہی کہتے ہوں گے کہ انہوں نے کئی بار ٹوٹے ہوئے ستاروں کی گرم راکھ زمین پر گرتے دیکھی ہے۔۔۔۔۔ میں نے بھی اس تارے کی گرم راکھ اپنے دل کے آنگن میں برستی ہوئی دیکھی ہے ۔
جس طرح اور تاروں کے نام ہوتے ہیں، اسی طرح جو تارا میں نے نونتے دیکھا اس کا بھی ایک نام تھا۔۔۔۔ سارا شگفتہ اس تارے کے ٹوٹتے وقت آسمان کے ذہن میں جو لمبی اور جلتی ہوئی لکیر کھینچ گئی تھی، وہ لکیر سارا شگفتہ کی نظم تھی۔
نظم زمین پر گری تو خدا جانے اس کے کتنے ٹکڑے ہوا میں کھو گئے۔ لیکن جو راکھ میں نے ہاتھ سے چھو کر دیکھی تھی اس میں کتنے ہی جلتے ہوئے حروف تھے جو میں نے اٹھا اٹھا کر کاغذوں پر رکھ لیے...
نہیں جانتی خدا نے ان کاغذوں کو بددعا کیوں دی ہے کہ آپ ان پر کتنے ہی جلتے ہوئے حروف رکھدیں وہ کاغذ نہیں جلتے...
جن لوگوں کے پاس احساس ہے، جلتے ہوئے حروف پڑھتے ہوئے ان کے احساس سلگنے لگتے ہیں مگر کوئی کاغذ نہیں بنتا۔ شاید یہ بددعا نہیں ہے۔ ۔ ۔ ہے بھی تو اسے بددعا نہیں کہنا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہوتا تو خدا جانے دنیا کی کتنی کتابیں اپنے حروف کی آگ سے جل گئی ہوتیں ۔