محمداحمد
لائبریرین
پس ثابت ہوا کہ یہاں کا وقت کم کرنا ضروری ہے تاکہ جو آدھ درجن کتب ادھوری پڑی ہیں اور جو درجنوں ان پڑھی ان پر کچھ توجہ دی جائے۔ اگلے سفرنامے کے ساتھ حاضری ہو گی۔
اچھی بات ہے۔
سفرنامے اور کتابوں کے تبصرے کے ساتھ آئیے گا۔
پس ثابت ہوا کہ یہاں کا وقت کم کرنا ضروری ہے تاکہ جو آدھ درجن کتب ادھوری پڑی ہیں اور جو درجنوں ان پڑھی ان پر کچھ توجہ دی جائے۔ اگلے سفرنامے کے ساتھ حاضری ہو گی۔
فی امان اللہ ۔
آپ کے منتظر رہیں گے ۔
فیض نے بھی سوشل میڈیا بارے ہی فرمایا تھا۔۔۔۔
شرح فراق مدح لب مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
کب تک سنے گی رات کہاں تک سنائیں ہم
شکوے گلے سب آج ترے روبرو کریں
ان شاءاللہ آج ہی پانچ سات مزید لڑیاں ضرور نظر انداز کروں گا۔
بہت عمدہ تحریر
اتنی عمدہ کہ مجھے بھی تعریفی تبصرہ کرنا پڑا۔
جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ اس کے بے شمار فائدے ہیںِدور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اسکول کالج اور مدارس میں اب باقاعدہ کمپیوٹر لیب کاقائم عمل میں لایا جا چکا ہے ۔ الیکڑونکس میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے بھی کافی حد تک سوشل میڈیا کے جنون کو ہوا دی ہے ۔جب دنیا کی معلومات یکجا ہوکر ایک چھوٹے سے موبائل میں قید ہو گئی ہے اور باآسانی ایک کلک پر فورا حاضر خدمت ہو تو کون اتنی جدوجہد کرے کیونکہ کر کتاب اٹھانے کی زحمت کرے ۔
حقائق سے پردہ اٹھاتی ایک عمدہ شاندار تخلیق ۔
ہمارے اسلاف کے متعلق لکھا ہے : کہ ان کی بیویاں کتابوں کو سوکن سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے۔ اور آج موبائل نے وہ جگہ لے لی۔
بھئی میں تو یہ کہوں گا کہ جس کو مطالعے کا شوق ہے وہ ضروری نہیں کہ پرنٹ شدہ ہارڈ کاپی کتابیں ہی پڑھے، وہ اپنے اسمارٹ فون میں پی ڈی ایف ریڈر کے ذریعے سے بہترین کتب کا مطالعہ با آسانی کر سکتا ہے۔
مسئلہ کتابوں سے دوری نہیں بلکہ مطالعہ کرنے جیسے بہترین مشغلے کی نوجوانوں میں کمی ہے۔
اس کی اصل وجہ انگریزی تعلیم سے قربت اور اردو و فارسی سے دوری ہے جس کی وجہ سے ہماری نئی نوجوان ہوتی نسل میں اپنی مادری زبان سے بیزاری کا اظہار جا بجاء نظر آتا ہے۔جب اسے اس زبان سے ہی رغبت نہیں جس میں کتاب لکھی گئی ہے تو وہ اس کا مطالعہ کیسے کرے گا؟
آپ کے کہنے پر عمل درآمد کرنے کے لئے حکومت کو چاہیئے کہ تعلیمی معیار کو بہتر کرے اور طلباء اپنی توجہ سوشل سائیٹس سے ہٹا کر کتب بینی پر مبذول کریں۔میرا کہنا یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان کو اس قابل ضرور ہونا چاہیے کہ وہ اردو اور انگریزی میں بہ یک وقت ہر طرح کی کتابیں پڑھ او ر سمجھ سکیں
احمد بھائی ، آپ کی تمام باتیں اپنی جگہ درست لیکن میں آج کل کتابوں سے تنگ آیا ہوا ہوں ۔ اس لئے جواب مضمون " کتاب پھاڑنا کیوں ضروری ہے؟" کا انتظار فرمائیں ۔
آپ کے کہنے پر عمل درآمد کرنے کے لئے حکومت کو چاہیئے کہ تعلیمی معیار کو بہتر کرے اور طلباء اپنی توجہ سوشل سائیٹس سے ہٹا کر کتب بینی پر مبذول کریں۔
کتابیں کھولتا ہوں، دیکھتا ہوں، پھاڑ دیتا ہوں
یہ مضمون آپ جیسوں کے لیے نہیں ہے بلکہ میرے جیسے لوگوں کے لیے ہے۔
ویسے یادش بخیر بچپن میں میں کئی ایک نصابی کتابیں پڑھتے پڑھتے پھاڑ دیتا تھا بلکہ وہ خود ہی میرے شوق کی تاب نہیں لا پاتی تھیں۔ اور اس بات کو آج تک گھر میں یاد کیا جاتا ہے۔
کتابیں کھولتا ہوں، دیکھتا ہوں، پھاڑ دیتا ہوں
کہیں پڑھنی نہ پڑ جائیں، کہیں لکھنی نہ پڑ جائیں
کتب پر تبصرے کیجیے
ہر انسان اپنے اردگرد موجود لوگوں سے یا اپنے پسندیدہ لوگوں کی پسند و ناپسند سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر آپ کا پسندیدہ شخص آپ کو کوئی فلم دیکھنے کا کہے گا، تو وہ آپ ضرور دیکھ لیں گے۔ یا کم از کم اپنی فہرست میں شامل کر لیں گے ۔ یہی بات میوزک اور کھانوں کے حوالے سے بھی کسی نہ کسی حد تک درست ضرور ہے۔ یہ وہ پسند و ناپسند کا وہ دروازہ ہے جو اکثر لوگ اپنی گفتگو میں کھلا رکھتے ہیں اور اپنی پسندیدہ فلمز اور کھانوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن پسندیدہ مصنف اور پسندیدہ کتابوں کے تذکرے متروک ہوئے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نئی کتب ، نئے مصنفین سے تعارف ذاتی کاوشوں تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔ کسی کتاب پر کوئی سیر حاصل تبصرہ یاذاتی تاثرات سننے پڑھنے کو نہیں ملتے۔ کسی مصنف کے بارے میں کوئی بھولی بھٹکی بات کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی ۔ جبکہ کتابیں ابھی بھی چھپ رہی ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کو مصنفین ہی لکھ رہے ہیں۔ میری آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اپنی پسندیدہ کتابوں پر تبصرہ کیجیے۔ اس سے کتاب کے بارے میں نہ صرف آرا قائم کرنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ کتاب پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔
از قلم نیرنگ خیال
10 اکتوبر 2019
میرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے ظہیر بھائی!احمد بھائی ، آپ کی تمام باتیں اپنی جگہ درست لیکن میں آج کل کتابوں سے تنگ آیا ہوا ہوں ۔ اس لئے جواب مضمون " کتاب پھاڑنا کیوں ضروری ہے؟" کا انتظار فرمائیں ۔
میرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے ظہیر بھائی!
گاہ انسان کو کھینچ کر حقائق کی دنیا سے دور لے جانا اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ خواب دکھانا جو کہ "خواب میں بھی" ممکن نہ ہوں۔ صاحب یہ کہاں کی شرافت ہے۔ اگر "فکشن" ہے تو کیوں ہے۔ اور کیوں پڑھیں ہم یہ ماورائی کہانیاں۔ اور اگر حقیقت ہے تو کیا ہم جاگتی آنکھوں خواب دیکھتے نظر آتے ہیں جو ہر آدمی ہم کو حقیقت دکھانا چاہ رہا ہے۔ بھئی ! بہت دیکھ لیے ہم حقائق۔ ہم ہر وقت انہی منہ زور حقیقتوں سے ہی نبردآزما رہتے ہیں۔ اور ہمارا پیشہ بھی عشق نہیں۔ سو ہمیں تو معاف ہی رکھیے۔ کوئی ہمیں حقائق دکھانا چاہ رہا ہے تو کوئی خواب۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ جس حال میں ہیں جینے دو۔ اٹھاؤ اپنے دلائل اور چلو ن م راشد کے کوزہ گر کی راہ پر۔۔۔ بھاگو یہاں سے اندھے کباڑی۔
دونوں ہاتھ اوپر کرنے کو جی چاہا اس مراسلے کو پڑھ کر جیسے امپائر کرتا ہے ۔میرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے ظہیر بھائی!
گاہ انسان کو کھینچ کر حقائق کی دنیا سے دور لے جانا اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ خواب دکھانا جو کہ "خواب میں بھی" ممکن نہ ہوں۔ صاحب یہ کہاں کی شرافت ہے۔ اگر "فکشن" ہے تو کیوں ہے۔ اور کیوں پڑھیں ہم یہ ماورائی کہانیاں۔ اور اگر حقیقت ہے تو کیا ہم جاگتی آنکھوں خواب دیکھتے نظر آتے ہیں جو ہر آدمی ہم کو حقیقت دکھانا چاہ رہا ہے۔ بھئی ! بہت دیکھ لیے ہم حقائق۔ ہم ہر وقت انہی منہ زور حقیقتوں سے ہی نبردآزما رہتے ہیں۔ اور ہمارا پیشہ بھی عشق نہیں۔ سو ہمیں تو معاف ہی رکھیے۔ کوئی ہمیں حقائق دکھانا چاہ رہا ہے تو کوئی خواب۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ جس حال میں ہیں جینے دو۔ اٹھاؤ اپنے دلائل اور چلو ن م راشد کے کوزہ گر کی راہ پر۔۔۔ بھاگو یہاں سے اندھے کباڑی۔
باقی واسطے۔۔۔
چلیے ہم آپ کو فکشن پڑھنے سے چھوٹ دیتے ہیں۔
باقی کتابیں آپ کی منتظر ہیں۔
اور اگر حقیقت ہے تو کیا ہم جاگتی آنکھوں خواب دیکھتے نظر آتے ہیں جو ہر آدمی ہم کو حقیقت دکھانا چاہ رہا ہے۔ بھئی ! بہت دیکھ لیے ہم حقائق۔ ہم ہر وقت انہی منہ زور حقیقتوں سے ہی نبردآزما رہتے ہیں۔