بیگم نام کی مخلوق : حنیف سمانا
چھٹی کا دن تھا ..ارشد بھائی کی بیگم نے ضد کی کہ میری خالہ بیمار ہے..مجھے اسکے گھر لے چلو...ارشد بھائی نے سمجھانے کی کوشش کی.
"دیکھو ... ایک تو یہ کہ میں سارے ہفتے کام میں مصروف ہوتا ہوں..مجھے ایک ہی دن ملتا ہے آرام کا...دوسرا یہ کہ ابھی یہاں سے نیوکراچی آنے جانے میں تین چار سو روپے لگ جائیں گے....تنخواہ ویسے ہی 24 /25 تاریخ کو ختم ہو جاتی ہے...تم بات مانو..ان کو فون کر کے خیریت دریافت کر لو "
مگر بیگم صاحبہ کہاں ماننے والوں میں سے تھیں.بس اپنی ضد پراڑی رہیں.
"بس میں نے کہہ دیا نہ مجھے خالہ سے ملنا ہے.تم تو ہر ہفتے آرام کرتے ہو.
اور روزانہ آفس میں کونسے پہاڑ کھودتے ہو.سیٹ پر بیٹھے ہی تو رہتے ہو.
تھکتی تو میں ہوں سارے گھر کا اکیلے کام کر کے.جھاڑ پونچھ, برتن دھونا, کپڑے دھونا, کھانا پکانا, بچے سنبھالنا. "
ارشد بھائی نے اخبار کو ایک طرف پھینکا اور سر پکڑ لیا
"ارے چلو بابا جہاں چلنا ہے...خدا کے لئے سر مت کھاؤ "
دونوں میاں بیوی نے بچوں کو گھر میں چھوڑا..گھر سے نکل کر سڑک پر آئے تو بیگم صاحبہ نے ایک فروٹ والے کا ٹھیلہ دیکھ کے نئی فرمائش کر دی...
"سنو! اتنے عرصے کے بعد خالہ کے ہاں جا رہے ہیں...خالی ہاتھ جانا ٹھیک نہیں...2 کلو سیب تو لےلو ..."
ارشد بھائی لال ہوگئے..."تمہارا دماغ خراب ہے..یہ سیب 100 روپے کلو سے کم نہیں ہیں"
بیگم کہاں ماننے والی تھیں"ارے تو کیا خالی ہاتھ جائیں گے...کونسا روز روز جاتے ہیں...ارے صرف 200 روپے میں تمہاری جان نکلتی ہے"
مرتا کیا نہ کرتا...ارشد بھی نے سیب خریدے...رکشه روکا"بھائی..نیو کراچی کے کیا لو گے"
"250 روپے "
ارشد بھائی کا بی پی ہائی ہو گیا.."دماغ خراب ہے...بھائی نیو کراچی جانا ہے... حیدرآباد نہیں"
رکشے والا بولا "چلو 230 دیدینا"
ارشد بھائی نے کہا " میاں..150 روپے دونگا" رکشے والا آگے بڑھ گیا...دو تین رکشے والوں سے مذاکرات کرنے کے بعد بمشکل ایک 180 روپے میں راضی ہوا....ارشد بھائی سارے راستے بیوی کو غصّے سے دیکھتے رہے..
خالہ کے ہاں پہنچے تو پتا لگا کے انکی سالی صاحبہ بھی آئی ہوئی ہیں عیادت کے لئے....انکی بیگم کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا سیب کا..سالی صاحبہ ذرا خوش حال تھیں..انکے ہاتھ میں تین چار تھیلے تھے..سیب..انار..بسکٹ وغیرہ کے...بیمار خالہ کے چہرے پر بھی اتنے سارے تھیلے دیکھ کر رونق آگئی...
انکے "تھیلے" سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق،
وہ سمجھتے ہیں کے بیمار کا حال اچھا ہے..
بہرحال ..خالہ نے بستر سے اٹھ کے ارشد بھائی کی بیگم کا چھوٹا سا تھیلا تو دیکھے بنا ایک طرف رکھ دیا...اور انکی سالی کو بمع تھیلے کے گلے سے لگا لیا....اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنے بستر کے پاس ہی کرسی پر بٹھا لیا...ارشد بھائی اوران کی بیگم وہیں دروازے پر کھڑے تھے ...
خالہ مصروف تھیں سالی صاحبہ سے باتیں کرنے میں..."ارے نرگس! تم اتنے عرصے بعد آئیں...اور اس تکلف کی کیا ضرورت تھی..یہ اتنی ساری چیزیں..یہ کون کھائے گا..."
ارشد بھائی کی بیگم کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا..ارشد بھائی اس سچوویشن کو انجوئے کر رہے تھے..
وہاں سے جب واپس نکلے تو بیگم صاحبہ کا موڈ بہت خراب تھا..واپسی کا رکشہ بھی 200 کا پڑا...ارشد بھائی نے بات شروع کی..
"منع کیا تھا نا تمہیں کہ صرف فون پر خیریت معلوم کرلو...بلاوجہ..پانچ چھ سو روپے برباد کئے...اور فائدہ بھی کچھ نہیں ہوا...اس سے اچھا تو یہ پانچ چھ سو روپے اپنے بچوں کو کھلاتے..."
لیکن بیگم صاحبہ کی سوچ کا تو زاویہ ہی الگ تھا...
"یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے...تم ہی غریبوں کی طرح ایک تھیلا لے کے چلے تھے.....اگلے ہفتے میری کمیٹی کھلنے والی ہے...دیکھنا میں 1000 روپے کا فروٹ اور دیگر چیزیں لے کے خالہ کے گھر جاؤں گی...پھر دیکھنا خالہ کیسی ہماری آؤ بھگت کرتی ہیں "
ارشد بھائی آسمان کی طرف دیکھنے لگے...جیسے الله سے پوچھ رہے ہوں..
"مالک! یہ بیگم نام کی مخلوق تو نے کیوں بنائی ؟؟