محب اگر آپ کے پاس شورس کشمیری کی کتب ہیں تو چند اقتباسات پوسٹ کیجیے ۔ کچھ ہم جیسے بھی حظ اٹھایا شورس کشمیری کو پڑھ کے۔
ویسے کیا یہ کشمیر کے رہنے والے تھے؟
جناب اس معاملہ میں ہم مقدم ہیں، پس دیوار زنداں ، ابوالکلام آزاد، اور اس بازار میں، شب جائے کہ من بودم اور فن خطابت تو طالب علمی ہی میں پڑھ ڈالی تھیں، چٹان کے کئی شمارے میرے دور افتادہ گاؤں کاوی ضلع بھروچ گجرات انڈیا میں اب بھی ہیں، اور یہ ناکارہ پڑھتا بھی ہے، البتہ کتابیں دو تین، انڈیا میں کوئی چھاپتا نہیں، اور پاکستان سے آئی ہوئی بہت مہینگی، !!!
واقعی آپ نے ثابت کردیا کہ آپ مقدم ہیں تو کیا خیال ہے اب کچھ اقتباسات ہو جائیں شورش کاشمیری کی کسی کتاب سے۔ میرے پاس اس وقت تو کوئی کتاب نہیں مگر اگر فرید چند اقتباس پیش کریں تو میں اگلے ماہ پاکستان پہنچ کر اپنا وعدہ پورا کردوں گا۔
گھر جا کر پرانہ کشکول کھولا تو 15 سال پرانی ڈائری میں چٹان کے اداریہ کا یہ اقتباس نظر آیا :
امیر مال مست ہیں۔
صوفی قال مست ہیں۔
غریب زوال مست۔
حکمراں اقبال مست۔
شاعر خدوخال مست۔
اور عابد وصال مست۔
فی الجملہ ساری قوم اپنے ہی مرگھت پر گھڑی ہے۔ چٹان ؛ اداریہ ؛ 28 مئی ، 1962 اسی اداریہ میں ہے :حقیقت یہ ہے کہ ہمارا اونچا طبقہ جنہیں ارباب و حل وعقد بھی کہتے ہیں، دین سے عاری ہے، اور ہمارا دین دار طبقہ جو منبر و محراب کا وارث ہے، علم سے خالی ہے، رہ گئے عوام تو وہ واقعی کالانعام ہیں، پہلے مسلمان اسلام کی حفاظت کیا کرتے تھے، اب اسلام مسلمانوں کی حفاظت کر رہا ہے۔
ایک نعت شورش صاحب کی سیرت فارم پر : http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?p=13476#13476
خوش خبر جناب فرید صاحب
آپ مقدم ہو گئے،
بہترین اقتباس ،
اب آپ کےمست ہونے کی باری ہے۔
حمد و نعت کچھ آپ اب محب صاحب کی بھی کر لیں۔
محب صاحب انہوں نے ایک حمد ، ایک نعت اور ایک اقتباس تو دے دیا ہے، اور انتظار !!!
وفا غائب ، حیا عنقا، ستم حاضر ، غضب وافر
خدا رکھے بہت سی خوبیاں ہیں شہر یاروں میں
مجھے اندیشہ شاہان دوراں ہو نہیں سکتا
کہ میں ہوں سرور کونین کے مدحت نگاروں میں
شورش