مغزل
محفلین
کتا بیں مجھ پہ ہنستی تھیں
ادھر!
وہ اس طر ف
کمرے میں میر ے
ایک وہ جو بر گز یدہ شیلف ہے
واں رو شنئ فکر کا
دن بھر عجب اک
رمز یت آ میز و فکر انگیز سا
ہنگا مہ رہتا ہے۔۔۔۔۔
ارسطو، کا نٹ، ہیگل
اور پلو ٹی نس کے جیسے
فلسفی مصر و ف رہتے ہیں
نہ جا نے کیسی کیسی
منطقی بحثو ں کو
سلجھا نے میں
الجھا نے میں
گر ہیں کھو لنے
گر ہیں لگا نے میں
میں جب آ ٹا بھر ے ہا تھو ں سے
ما تھے کا پسینہ پو نچھتی
آنگن سے اور دالا ن سے اور صحن سے
مصر و فیت کے ان گنت لمحو ں کو چنتی
پا س سے ان کے گزر تی تھی
تو وہ اک بر گز یدہ شیلف
اور اس پر دھر ی سا ری کتا بیں
مجھ پہ ہنستی تھیں
مرے مصر و ف تر احوا ل کے
ہر منطقی اثبا ت کو رد کر کے
مجھ سے پو چھتی تھیں
زند گی کیا ہے..
محبت کیا ہے۔۔
لا شے کیا۔۔۔
خدا کیا ہے ۔۔۔۔
ا لٰہیا ت میں
مو جو د کی منطق.......
کہ جو مو جو د ہے
" شے " ہے
تو گو یا آ پ یہ اقرا ر کر تی ہیں
خدا " شے " ہے
کی جیسی منطقی با تو ں میں
الجھا کے
مجھے حیر ا ں پر یشا ں چھو ڑ دیتی تھیں
میں گھبرا ئے ہو ئے ہا تھو ں سے
لا علمی کے ما تھے کا پسینہ پو نچھتی
شر مندہ شر مندہ سی
اپنا سر جھکا ئے
وا ں سے اٹھ آ تی
مگرآج......اور ہی کچھ با ت تھی
میں در د زہ کے پر جلا ل و با خبر و جدا ن سے
تا بند ہ و رخشندہ
اپنے با ز ؤ ں میں معر فت کا
سا نس لیتا معجزہ تھا مے
عجب منز ل سے ہو کے
اک عجب منز ل پہ پہنچی تھی
سو یو ں ہی با تو ں با تو ں میں
کتا بو ں سے
وہی پھر با ت چل نکلی
جو لہجے میں میر ے
لکنت کہ گر ہیں سی لگا تی تھی
مگر.....میں خو د بھی حیر ا ں تھی
وہی عا لم.....کہ
ا پنا سر جھکا ئے دست بستہ تھی
مگر لہجہ عجب تھا
اس میں گھبر ہٹ نہیں تھی
تمکنت تھی
حضر ت اعلٰی علیّنّا !
صحیفے چا ر یہ جو کو کھ پر
اتر ے ہیں میری
ان کو پڑ ھ کے زند گی کے
سب سوا لو ں کو میں سمجھی ہو ں
محبت کیا ہے
کیا ہے زند گی
کیا زند گی کا ار تقا
کیسے زمیں سے پا ؤ ں جڑ تے
کب اکھڑ تے ہیں
مجھ معلو م ہے مر شد!
انہیں پڑ ھ کے
الہٰیا ت کے معنی کو سمجھی ہو ں
میں منطق کے سوا لو ں سے پٹی
پتھر یلی گلیوں میں
گلا بی ننھی ننھی انگلیو ں کو تھا م کے
سا ری چٹا نو ں کی
سبھی پر تو ں سے گز ری ہو ں
مر ے مر شد ار سطو!
زند گی کے تن میں جس سے بو ر آ تا ہے
جو الھڑ کچی لو ئی جیسی مٹی کو
سبھی گن، سا رے مطلب، سب معا نی
زند گی اور محب کے سکھا تا ہے
فقط اک حر ف ہے مر شد !
سو میں نے فلسفے کی سب کتا بو ں کو
اسی اک حر ف " ما ں " میں
بو جھا سیکھا اور سمجھا ہے
محبت کے سمندر کو پیا ہے
ہا ں.....پلو ٹی نس
خدا ہے
میں نے اس کو چھو کے دیکھا ہے
میں اپنے بر گز یدہ شیلف کے آ گے
نظر نیچی کئے، گر دن جھکا ئے، دست بستہ
اپنی سو چو ں اور لفظو ں کے
چڑ ھا وے دے رہی تھی
بر گز یدہ شیلف کا
گہرا گھنا سا یہ تھا میر ے سر پہ
بے حد پیا ر سے
اقرا ر سے
سب خو د کو میر ی سو چ میں
آ ر ا ستہ سا کر رہی تھیں
جو کتا بیں.....
مجھ پہ ہنستی تھیں!
نسیم سید
ادھر!
وہ اس طر ف
کمرے میں میر ے
ایک وہ جو بر گز یدہ شیلف ہے
واں رو شنئ فکر کا
دن بھر عجب اک
رمز یت آ میز و فکر انگیز سا
ہنگا مہ رہتا ہے۔۔۔۔۔
ارسطو، کا نٹ، ہیگل
اور پلو ٹی نس کے جیسے
فلسفی مصر و ف رہتے ہیں
نہ جا نے کیسی کیسی
منطقی بحثو ں کو
سلجھا نے میں
الجھا نے میں
گر ہیں کھو لنے
گر ہیں لگا نے میں
میں جب آ ٹا بھر ے ہا تھو ں سے
ما تھے کا پسینہ پو نچھتی
آنگن سے اور دالا ن سے اور صحن سے
مصر و فیت کے ان گنت لمحو ں کو چنتی
پا س سے ان کے گزر تی تھی
تو وہ اک بر گز یدہ شیلف
اور اس پر دھر ی سا ری کتا بیں
مجھ پہ ہنستی تھیں
مرے مصر و ف تر احوا ل کے
ہر منطقی اثبا ت کو رد کر کے
مجھ سے پو چھتی تھیں
زند گی کیا ہے..
محبت کیا ہے۔۔
لا شے کیا۔۔۔
خدا کیا ہے ۔۔۔۔
ا لٰہیا ت میں
مو جو د کی منطق.......
کہ جو مو جو د ہے
" شے " ہے
تو گو یا آ پ یہ اقرا ر کر تی ہیں
خدا " شے " ہے
کی جیسی منطقی با تو ں میں
الجھا کے
مجھے حیر ا ں پر یشا ں چھو ڑ دیتی تھیں
میں گھبرا ئے ہو ئے ہا تھو ں سے
لا علمی کے ما تھے کا پسینہ پو نچھتی
شر مندہ شر مندہ سی
اپنا سر جھکا ئے
وا ں سے اٹھ آ تی
مگرآج......اور ہی کچھ با ت تھی
میں در د زہ کے پر جلا ل و با خبر و جدا ن سے
تا بند ہ و رخشندہ
اپنے با ز ؤ ں میں معر فت کا
سا نس لیتا معجزہ تھا مے
عجب منز ل سے ہو کے
اک عجب منز ل پہ پہنچی تھی
سو یو ں ہی با تو ں با تو ں میں
کتا بو ں سے
وہی پھر با ت چل نکلی
جو لہجے میں میر ے
لکنت کہ گر ہیں سی لگا تی تھی
مگر.....میں خو د بھی حیر ا ں تھی
وہی عا لم.....کہ
ا پنا سر جھکا ئے دست بستہ تھی
مگر لہجہ عجب تھا
اس میں گھبر ہٹ نہیں تھی
تمکنت تھی
حضر ت اعلٰی علیّنّا !
صحیفے چا ر یہ جو کو کھ پر
اتر ے ہیں میری
ان کو پڑ ھ کے زند گی کے
سب سوا لو ں کو میں سمجھی ہو ں
محبت کیا ہے
کیا ہے زند گی
کیا زند گی کا ار تقا
کیسے زمیں سے پا ؤ ں جڑ تے
کب اکھڑ تے ہیں
مجھ معلو م ہے مر شد!
انہیں پڑ ھ کے
الہٰیا ت کے معنی کو سمجھی ہو ں
میں منطق کے سوا لو ں سے پٹی
پتھر یلی گلیوں میں
گلا بی ننھی ننھی انگلیو ں کو تھا م کے
سا ری چٹا نو ں کی
سبھی پر تو ں سے گز ری ہو ں
مر ے مر شد ار سطو!
زند گی کے تن میں جس سے بو ر آ تا ہے
جو الھڑ کچی لو ئی جیسی مٹی کو
سبھی گن، سا رے مطلب، سب معا نی
زند گی اور محب کے سکھا تا ہے
فقط اک حر ف ہے مر شد !
سو میں نے فلسفے کی سب کتا بو ں کو
اسی اک حر ف " ما ں " میں
بو جھا سیکھا اور سمجھا ہے
محبت کے سمندر کو پیا ہے
ہا ں.....پلو ٹی نس
خدا ہے
میں نے اس کو چھو کے دیکھا ہے
میں اپنے بر گز یدہ شیلف کے آ گے
نظر نیچی کئے، گر دن جھکا ئے، دست بستہ
اپنی سو چو ں اور لفظو ں کے
چڑ ھا وے دے رہی تھی
بر گز یدہ شیلف کا
گہرا گھنا سا یہ تھا میر ے سر پہ
بے حد پیا ر سے
اقرا ر سے
سب خو د کو میر ی سو چ میں
آ ر ا ستہ سا کر رہی تھیں
جو کتا بیں.....
مجھ پہ ہنستی تھیں!
نسیم سید