بے کلی فغاں کرنے میرے دل تک آپہنچی
اور میں نے مجبوراً ، اختیار کی وحشت
اے فشانِ کوہِ عشق بات کیا ہے آخر کیوں
عمر بھر سلگتی ہے ، انتظار کی وحشت
کچھ خبر تو ہو آخر کس لیے دھڑکتی ہے
اے ٍغزالِ دشتِ دل ، بار بار کی وحشت
اول تو تاخیر کی معذرت اور اس کے بعد انتہائی خوبصورت غزل پر مبارک باد۔
کمال کی معانی آفرینی ہے اور الفاظ کی بندش کا بھی جواب نہیں۔سبحان اللہ!
ذیل کے اشعار تو بہت ہی بھائے:
بے کلی فغاں کرنے میرے دل تک آپہنچی
اور میں نے مجبوراً ، اختیار کی وحشت
اے فشانِ کوہِ عشق بات کیا ہے آخر کیوں
عمر بھر سلگتی ہے ، انتظار کی وحشت
کچھ خبر تو ہو آخر کس لیے دھڑکتی ہے
اے ٍغزالِ دشتِ دل ، بار بار کی وحشت
عزیز مکرم محمود مغل صاحب: سلام محبت
یقین کیجیے کہ آپ کاخط پڑھ کر دلی مسرت سے دو چار ہوا۔ آپ نے نہ صرف اپنی انفرادی فکر کی تشریح اور اس کے جواز کی اساس عنایت کی ہے بلکہ اردو شاعری، خصوصا اردو غزل کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم اور نازک صورت حال کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اردو غزل جتنے ادوار سے گزر چکی ہے اور اس میں جس کثرت سے شاعر ہویے ہیں ان کے پیش نظر یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اب انسانی تجربہ، مشاہدہ، احساس اور جذبات کا کویی پہلو ایسا نہیں رہ گیا ہے جس پر کسی نہ کسی شاعر نے اپنے انداز میں فکرنہ کی ہو۔ گویا خیالات اور جذبات و احساسات کے بجایے اب کسی شاعر کو اس کا انداز فکر ونظر ہی دنیایے شعر مین دوام دے سکتا ہے۔ پرانے خیالوں کو پرانے انداز میں بار بار بیان کرنا تحصیل لا حاصل ہے لیکن بیشتر شعرا کا اسی پر مدار ہے اورآیندہ بھی رہے گا۔ اس کے اسباب میں جانے کی ضرورت نہیں ہےالبتہ انھیں ذہن میں رکھنا یقینا ضروری ہے۔ آپ نے جو راہ اختیار کرنے کی ٹھانی ہے وہ یقینا خاردار اور مشکل ہے لیکن اگر آپ لگن، مطالعہ اور محنت سے اس پر گامزن رہے تو آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ اس نیی راہ میں آپ تلمیحات، علامات اور اشارے و کنایے استعمال کرنے پر خود کو مجبور پاییں گے۔ اس حقیقت سے آپ یقینا واقف ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہو گی کہ آپ کی یہ کوشش الفاظ و علامات و تلمیحات کی ایسی بھول بھلیاں ہو کر نہ رہ جایے کہ آپ اپنے قاری کو کوسوں پیچھے چھوڑ جاییں اور آپ:لکھے عیسی اور پڑھے موسیِ: کا شکار ہو کر رہ جاییں۔ یہ راہ بہت کٹھن ہے لیکن اپنے دامن میں ہزار ہا گوہر آبدار رکھتی ہے۔ میں آپ کی کامیابی کے لیے صدق دل سے دعا گو ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن آپ کو اس دلسوزی اور جگرکاوی کا ثمر ملے گا۔ انشاء اللہ
سرور عالم راز سرور
ماشاءاللہ جناب، کیا کمالِفن ہے، اس دور میں بھی اتنے اچھے لکھنے والے اور ذہنِ رسا رکھنے والے قلمکار موجود ہیں، اللہ کا شکر ہے۔۔۔ میں تو اوائلِ عمری ہی میں برِ صغیر کے ادب سے مایوس ہوگیا تھا، اس فورم نے ایک ہی دن میں میری امیدوں کو جلا بخشی ہے!!
جہاں تک تبصرے اور تنقید کا تعلق ہے، تو بڑوں کے سامنے گو کہ بچوں اور نا فہموں کا بولنا مناسب تو نہیں لگتا مگر پھر بھی اتنا خوبصورت اندازِ سخن دیکھ کر اس بحر میں قطرے کی مانند شامل ہوکر مجسم بحر ہوجانے کو جی چاہتا ہے!!!
سمجھ نہیں آتا کس شعر کو منتخب کروں کلام کے نمائندے کے طور پر۔۔۔ہر شعر اپنی جگہ پورے قد سے کھڑا ہے۔۔۔ بس اس سے زیادہ میں کچھ عرض کرنے سے قاصر ہوں۔۔۔
غزل
انحصار کرنے کو تھی بہار کی وحشت
میں نے اور وحشت سے استوار کی وحشت
چاپ جب سلگتی ہو ، آہٹیں سسکتی ہوں
آنکھ میں اترتی ہے ، اشکبار کی وحشت
خامشی کے سرمائے دشتِ جاں میں چھوڑ آئے
اب نئے سفر پر ہے ، کاروبار کی وحشت
بے کلی فغاں کرنے میرے دل تک آپہنچی
اور میں نے مجبوراً ، اختیار کی وحشت
میں بھلا کہاں جاؤں، بستیوں پہ پہرہ زن
بام و در کی خاموشی، رہگزار کی وحشت
منفعت کا دکھ آخر کیوں جہان میں بانٹوں
میں نے خود اگائی تھی اعتبار کی وحشت
اے فشانِ کوہِ عشق بات کیا ہے آخر کیوں
عمر بھر سلگتی ہے ، انتظار کی وحشت
کچھ خبر تو ہو آخر کس لیے دھڑکتی ہے
اے ٍغزالِ دشتِ دل ، بار بار کی وحشت
اے زمینِ نومردہ کچھ توبول آنکھیں کھول
میں کہاں چھپاؤں گا شہریار کی وحشت
پات پات پر محمود ایک خوف رقصاں ہے
کتنے بن جلائے گی اک شرار کی وحشت
م۔م۔مغل
آپ احباب کی گراں قدر رائے اور نقد ونظر کا منتظر ہوں
الف عین ، وارث ، فاتح، فرخ صاحبان سمیت سبھی احباب
سے توجہ کا طالب ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت اعلٰی ، بہت خوب۔۔۔
بہت خوب جناب محمود بھائی آپ تو چھا گے ہیں لیکن میں یہاں دیر سے کیوں آیا ہوں
اگلی غزل کا انتظار رہے گا بہت شکریہ