محسن وقار علی
محفلین
پاکستان میں انسانوں کے مابین ہی خونریزیاں کم ہوتی ہیں کہ کتوں کو بھی آپس میں لڑوا کر اپنا جی خوش کیا جاتا ہے، اس لڑائی میں کتے بری طرح زخمی ہوجاتے ہیں، اور اکثر ہارنے والا جو جانبر ہی نہیں ہوپاتا۔ —. فائل فوٹو
اسپین کے ماہرینِ تحقیق نے یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ کتے صرف عادت کے باعث نہیں بلکہ ڈپریشن کی وجہ سے بھونکتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ والے اب اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ انھوں نے انسانوں پر ریسرچ ختم کرکے جانوروں پر شروع کردی ہے۔ کتے ویسے بھی ان کے محبوب ہیں۔ ان کے ہاں والدین، بہن ، بھائیوں سمیت کسی رشتے دار کی اتنی عزت نہیں جتنی کہ کتوں کی ہے ۔ پھر بھلا وہ کتوں کے ڈپریشن کا خیال نہیں رکھیں گے تو اور کون رکھے گا؟
پاکستان میں انسانوں کے لیے ذہنی امراض کے اتنے اسپتال نہیں ہیں جتنا کہ مغربی ممالک میں کتوں کے لیے ۔ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ نوّے فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح ڈپریشن کا شکار ہوچکی ہے۔ دھیما بولنا بزدلی کی علامت سمجھا جانے لگا ہے ۔ دھیمی آوازوں پر کوئی کان نہیں دھرتا اور دھمکی آمیز آوازیں میڈیا سے لے کر گھروں کے کمروں تک بھری پڑی ہیں۔
جب سے ہم نے یہ خبر پڑھی ہے ہر بھونکتے کتے کو دیکھ کر ٹھہر جاتے ہیں۔ اس کے چہرے اور باڈی لینگویج کا جائزہ لیتے ہیں اور بھونکنے کی آواز کا تجزیہ کرکے سوچتے ہیں کہ اس کتے کو کتنا ڈپریشن ہے ؟ اس نئے معمول نے خود ہمیں ڈپریشن میں مبتلا کردیا ہے مگر اسی بہانے پڑوسیوں سے گفتگو کا نیا موضوع ہاتھ آگیا ہے ۔
ہمارے بائیں ہاتھ پر ایک ’چینی‘ رہتا ہے۔ چینیوں کے لیے بایاں بازو ہی ٹھیک ہے۔ ان کے ہاں میاں، بیوی اور بچہ ایک، ایک ہی ہوتا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم دور سے پہچان نہیں پاتے کہ ڈرائیو وے پر شوہر کھڑا ہے کہ بیوی۔ اکثر بیوی کے مغالطے میں ہم شوہر سے گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ کتوں کے ڈپریشن پر چینی کا تبصرہ تھا ’چینی کتوں کے ڈپریشن کے بارے میں اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ چین میں بھونکنے کی آزادی نہیں۔ وہاں تو انسان بھی کم کم بولتے ہیں، صرف کام کرتے ہیں۔ وہاں جو کتا بھونکنے کے لیے منہ کھولتا ہے ہم اسے کاٹ کر اپنے منہ میں ڈال لیتے ہیں ۔ ‘
ہمارے دائیں بازو پر افریقی فیملی رہتی ہے جن کی رنگت دیکھ کر ہمارا ڈپریشن دور ہوجاتا ہے۔ ان کے ساتھ تصویر کھنچوا کر ہم اکثر اپنی رنگت پر فخر کرتے ہیں۔ ان افریقی میاں بیوی کو پہچاننے کے لیے ہمیں انہیں پیچھے سے دیکھنا پڑتا ہے۔ ان کے ہاں شوہروں کے پیٹ اور بیوی کی ’ہپس‘ بھاری ہوتی ہے۔ افریقی بیگم کا کہنا تھا کہ تیز آواز میں بات کرنے میں میرے شوہر کا مقابلہ دنیا کا کوئی کتا نہیں کرسکتا۔ وہ تو رات کو رومانٹک جملے بھی اتنے زور سے بولتا ہے کہ برابر والے کمرے میں سوئے ہوئے میرے اگلے پچھلے سارے شوہروں کے بچے ایک ساتھ جاگ جاتے ہیں۔
ہمارے سامنے والے گھر میں ایک گوری فیملی رہتی ہے۔ خاتونِ خانہ ، ان کی جوان بیٹی اور ایک کتا اس گھر میں مستقل نظر آتے ہیں۔ ماں بیٹی میں کم کپڑے پہننے کا اتنا سخت مقابلہ رہتا ہے کہ اہل محلہ کی آنکھوں میں ان کا ہی گھر بسا رہتا ہے۔ ان کے گھر جن مردوں کی آمدورفت رہتی ہے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ماں اور بیٹی کے بوائے فرینڈز ہیں۔ ماں ششماہی اور بیٹی سہ ماہی بنیادوں پر بوائے فرینڈ بدلتی ہیں۔ ان کا کتا ، اس قدر کتا ہے کہ ہمیں چھ سال سے دیکھنے کے باوجود اب بھی دیکھنے کا روادار نہیں۔ ہم اپنے پیر یا آنکھیں اپنی پراپرٹی سے ایک گز بھی باہر نکالیں تو وہ آواز نکالنا شروع کردیتا ہے۔ اسپین کے محققین کو اس کتے پر خاص طور پر تحقیق کرنی چاہیئے کہ وہ ڈپریشن سے بھونکتا ہے یا نسلی امتیاز کے جذبے سے۔ اسے ہم جیسے براؤن چمڑی والوں سے کیوں بغض ہے؟ لگتا ہے یہ مغربی میڈیا کی خبریں سمجھتا ہے جبھی ہر وقت ہماری خبر لینے پر تلا رہتا ہے۔
ہمارے گھر کے پیچھے ایک سکھ فیملی رہتی ہے۔ ان کے مرد بال برابر بھی مختلف نہیں ہوتے ۔ چہرہ داڑھی اور سر پگڑی سے ڈھانپے رکھتے ہیں۔ یہ ان کی عورتوں کا ہنر ہوتا ہے کہ اپنے اپنے مرد کو پہچان لیتی ہیں ورنہ دور کی کھڑکی سے تو یہ ہمیں ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔ البتہ ان کی عورتوں کا چہرہ اور ڈیل ڈول ہمیں پوری طرح حفظ ہے۔ ہم بیک یارڈ میں کھڑے ہوں تو ہماری بیگم فورا بہانے سے کچن میں بلالیتی ہیں۔ ’ذرا پودینہ تو توڑ کر لادیجئے ‘۔ بیگم کی شک کی وجہ یہ ہے کہ ہم بیک یارڈ ہی میں عینک اور چڈی پہن کر کیوں نکلتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب زنانہ پنجابی آوازیں آرہی ہوں۔ ہم نے لاکھ بار سمجھایا کہ ہمیں بیک یارڈ کی صفائی کےلیے عینک اور چڈی پہننی پڑتی ہے مگر وہ نہیں مانتی اور اکثر اس کے بعد ہمارے گھر سے ڈپریشن زدہ مؤنث کتوں کی بھونکنے اور کاٹ کھانے کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔
سکھ فیملی کے گھر کوئی کتا نہیں مگر گھر کے رکھوالے زیادہ تیز ہیں۔ ہمیں بیک یارڈ میں دیکھتے ہی ان کے مردانہ گلوں سے ڈپریشن کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، اس کے بعد ان کے آنگن اور ہمارے دل میں یکساں سناٹا چھا جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا پاکستان میں سیاسی اشرافیہ کے اکثر کتے بھونکتے بھی ہیں اور کاٹتے بھی ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کو، کبھی ہاتھ لگی قومی تجوری کو اور کچھ نہ ہو تو عوام کو۔ اب تو عوام اور کتوں کی حالت ایک جیسی ہوتی جارہی ہے۔ رہنے کو جگہ نہیں، بجلی، پانی، آٹا، چینی نہیں۔ لوگ گھروں کو چھوڑ کر راتوں کو فٹ پاتھ اور سڑکوں پر سو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی محقق نہیں جو اس بات پر تحقیق کرے کہ انسان کو کتا کیوں بنایا جارہا ہے؟ بیرونی دنیا میں ہماری عزت کتے سے بھی بدتر کیوں ہوتی جارہی ہے؟ پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات دیکھتے ہی ہم تارکِ وطن کو ڈپریشن کیوں ہو جاتا ہے؟ ہے کسی کے پاس اس کا جواب ؟
تحریر:مرزا یٰسین بیگ
بہ شکریہ ڈان اردو