کتے کی ایک ٹانگ

ابن جمال

محفلین
کتے کی ایک ٹانگ
از:نصرت ظہیر
چند روز پہلے ایک انگریزی اخبار کے پہلے صفحہ پر ایک کتے کی تصویر دیکھ کر کچھ حیرانی سی ہوئی۔حیرانی اس لئے ہوئی کہ عام طور پر پہلا صفحہ سیاسی رہنمائوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ان کی جگہ اخبار نے کتے کی تصویر چھاپی تھی تو کچھ بات ضرور تھی۔ میں نے غور سے خبر پڑھی ۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسے کتے کی تصویر تھی، جو کسی حادثے میں اپنی پچھلی ٹانگ تڑوا بیٹھا تھااور کتے کے مالک نے جی توڑ کوشش کی تھی کہ کسی طرح آپریشن سے کتے کی ٹانگ ٹھیک کرادے، لیکن سب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ ٹانگ اس طرح ٹوٹی تھی کہ اسے جوڑنا ان کے بقول ناممکن تھا،لیکن کتے کے مالک نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے دوپہیوں کی ایک گاڑی نما بیساکھی تیار کرائی، جسے کتے کی پچھلی ٹانگوں سے باندھ دیا گیا اور اب کتا بہ آسانی چل پھر سکتا تھا۔
کتوں کے معاملے میں میرا عام رویہ وہی ہے، جو مشتاق یوسفی کے بقول عام مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ یعنی مسلمان صرف ان ہی جانوروں سے محبت کرتا ہے، جنہیں بعد میں ذبح کر کے کھا سکے۔چنانچہ کتے کی تصویر سے متعلق خبر پڑھ کر مجھ پر اس کا بس اتناہی اثر ہوا، جتنا ایک اوسط مسلمان پر ہو سکتا ہے، یعنی میں نے دل ہی دل میں کتے کے مالک کے جذبہ انسانیت کی سر سری سی تعریف کی کہ اس دور میں بھی اس نے ایک جانور کے انسانی حقوق کا پورا خیال رکھا تھا، ورنہ لوگ تو انسانوں کے بھی انسانی حقوق کی پروا نہیں کرتے۔اس کے بعد میں صفحہ الٹ کر آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ دوروز پہلے ٹیلی ویژن پر دیکھے ہوئے ایک منظر کی یاد آگئی اور میں ایک بار پھرسر سے پائوں تک لرز گیا۔
اس رات بیوی نے بہت عمدہ مچھلی پکائی تھی۔ سخت سردی میںدفتر سے آیا تھا۔ تھکا ہوا تھا ۔ بھوک بھی لگی تھی۔میز پرمچھلی دیکھتے ہی طبیعت کھِل گئی۔ابھی تھوڑا سا ہی کھانا کھایا تھا کہ ٹی وی پر تمل ناڈو میں ایک زخمی پولیس سب انسپکٹر کی موت کی خبر دکھائی جانے لگی۔ کچھ بدمعاش اسے زخمی کرنے کے بعد ہنسیا سے اس کی ایک ٹانگ کاٹ گئے تھے۔زخمی سب انسپکٹر سڑک کے بیچوں بیچ پڑا تڑپ رہا تھا۔سامنے سے ایک کار آتی دکھائی دی تو اس نے زخمی ٹانگ اٹھا کر اشارے سے اسے رکوانے کی کوشش کی، مگر کار والے نے کوئی توجہ نہیں دی اور کار کو بچا کر نکال لے گیا۔ بے چارہ سب انسپکٹر کٹی ہوئی ٹانگ کو سڑک پر پٹکتا رہ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہاں سے دو ریاستی وزیروں کی کاروں کا قافلہ گزرا۔ اسے دیکھ کر بھی سب انسپکٹرنے غالباً اپنی زخمی ٹانگ لہرائی(جسے چینل والے ناظرین کی طبع نازک کا خیال رکھتے ہوئے دھندلا کرکے دکھا رہے تھے) مگر کاروں کا قافلہ رکے بغیر نکل گیا،جس میں پولیس کی کاریں بھی شامل تھیں۔بعد میں جو کچھ ہوا آپ نے خبروں میں پڑھ ہی لیا ہوگا کہ کچھ دور جاکر وزیروں کی سیکورٹی کے لوگوں کو اپنی غلطی کا تھوڑا سا خیال آیا، مگر انہوں نے وائر لیس پر اطلاع نشر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ چنانچہ جب تک پولیس کی گاڑی بچائو کے لئے پہنچتی، تب تک اتنی دیر ہوگئی تھی کہ زخمی سب انسپکٹر تڑپ تڑپ کر دم توڑ چکا تھا۔منھ میںمچھلی کا لقمہ بدمزہ ہو گیا۔ جیسے تیسے اسے حلق سے اتارا اور ٹی وی آف کرکے پانی پیاتب جا کرکچھ گھٹن سی کم ہوئی۔
اس رات کا خیال آنے کے بعدمیں نے اخبار ایک طرف رکھ کر آنکھیں بند کیں تو کتے کی بیساکھی اور پولیس والے کی زخمی ٹانگ آپس میں متصادم تھیں۔ دماغ میں بس دو ہی باتیں تھیں، کتے کے ساتھ انسانیت اور انسان کے ساتھ حیوانیت!اور دونوں کا فاعل اشرف المخلوق۔
چلئے انسانیت کو چھوڑتے ہیں۔ کتے کی بات کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کتے اور انسان کا بڑا پرانا ساتھ ہے۔ جہاں انسان ہے، وہاں کتا ضرور پایا جاتا ہے اور جہاں کتا ہو وہاں انسان کا پایا جانا لازمی تو نہیں، پھر بھی کتے کا مقبول ترین پڑوسی انسان ہی ہے۔ دونوں لاکھوں برس سے ساتھ ساتھ رہتے آرہے ہیں۔ اس عرصے میں دونوں نے ایک دوسرے سے کیا کچھ سیکھا ہے، کتا کس حد تک انسان پر گیا ہے اور انسان میں کس قدرکتا پایا جاتا ہے، یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے۔ چارلس ڈاروِن نے انسانوں پر بڑی تحقیق کی ہے، بلکہ پوری عمر ہی اس تھیوری کو ثابت کرنے میں صرف کر دی کہ انسان اس زمین پرزندگی کی ابتدائی شکلوں سے موجودہ شکل تک کیسے پہنچا،لیکن کتے پر بزرگوار نے کوئی خامہ فرسائی نہیں کی۔ حالانکہ بندر کے مقابلے میں کتا اس کے لئے پوری طرح ڈیزرو(deserve)کرتا تھا کہ موصوف جب مختلف حیاتیاتی نمونوں کی بات کر رہے ہیں تو کچھ توجہ انسان کے اس قدیم ترین دوست پر بھی ڈال لیتے۔ بندر پر تو ان کی نظر التفات رہی، کیونکہ وہ ان جانوروں میں سے ہے جو شکل اور عقل میںبڑی حد تک انسان سے مطابقت و مماثلت رکھتے ہیںاور اسی لئے انسان سے دور جنگل میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں!لیکن کتے کو افسوس کو ئی ڈاروِن نہ ملا، جواُسے یہ بتا سکتا کہ وہ کس کی بدلی ہوئی شکل ہے۔
[البتہ ایک بات ڈاروِن کی تھیوری سے بڑی حد تک صاف ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ انسان ابتدائے آفرینش سے تغیر پذیر رہا ہے، جب کہ کتا شروع سے اب تک کتا ہے۔ اس کی نسلیں اور ان نسلوں کی شکلیں ضرور عجیب و غریب ہیں، لیکن بھونکتے سب ایک ہی زبان میں ہیں۔کم از کم مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے کیوںکہ ایسے کتے تو میں نے دیکھے ہیں جو الگ الگ زبانوں کو سمجھ لیتے ہیں،یعنی کتے کا مالک اگر انگریز ی میں بات کرتا ہے تو کتا انگریزی سیکھ لیتا ہے۔ تمل یا کنڑ یا بنگالی بولتا ہے تو ان زبانوں میںبھی شد بد پیدا کرلیتا ہے، بلکہ میاں عبدالقدوس کا یقین کیجئے تو انہیں ایک ایسے جیّد کتے سے بھی شرفِ ملاقات حاصل ہے، جس کی پرورش و پرداخت لکھنؤمیں ہوئی تھی اورجس کا مالک اتفاق سے اردو کا ایک ایسا پہنچا ہوا ادیب تھا کہ کوئی ذرا بھی غلط اردو بول دے یا کسی لفظ کے تلفظ میں اتنی سی بھی بے احتیاطی اس سے سرزد ہو جائے تو سیدھا گالیوںپر اتر آتا تھا۔ یہ سنک کتے میں بھی آگئی تھی۔ا دیب کے دوست آکر ڈرائنگ روم میں ادب کی صورتحال پر بحث کرتے تو وہ بھی کونے میںمالک کے پیچھے دَم اور دُم سادھے چپ چاپ بیٹھا ان کی باتیں دھیان سے سنتا رہتا،لیکن جہاں کسی کے منھ سے غلط اردو نکلی، فوراً حرکت میں آجاتا اور سیدھا اس کے منھ پر جا کر بھونکنے لگتا۔ مالک کی ادبی گفتگو سن سن کر شعر فہم بھی اس قدر ہوگیا تھا کہ جب کوئی عمدہ شعر پڑھتا توخود بھی ہلکے سے بھونک کر دادسے نواز دیتا اور''واہ واہ'' ''بہت خوب بہت خوب'' کے شور میں کسی کو اندازہ بھی نہ ہوپاتا کہ شور میں ایک کتے کی آواز بھی شامل ہے،بلکہ کئی بار تو یوں لگتا جیسے شاعر واہ واہ کرتے وقت کتے کی نقل کر رہے ہیںاور ہر دو میں امتیاز مشکل ہو جاتا۔ البتہ مکرر ارشاد پرکتّۂ موصوف کی طبیعت کچھ مکدر ہوجاتی اوروہ کافی زور سے بھونکنے لگتا، یہاں تک کہ خود مالک کو ہی چپ کرانا پڑتا۔ بعد میںان شعری نشستوں نے اسے(کتے کو) اچھا خاصا عروض شناس بھی بنا دیا اور جہاں کوئی شاعر بے وزن یا بے بحر شعر پڑھتا، اس پر مالک سے پہلے چڑھ دوڑتا۔ اسی بنا پر نثری نظموں سے موصوف کو کچھ ایسی کدورت ہو گئی کہ ایک بار ایک نثری شاعر کا پاجامہ منھ میں دبالیا اور اس کے (صرف پاجامے کے) دو ٹکڑے کر کے اس طرح ڈرائنگ روم میں گھومنے لگا گویا منھ سے پاجامے کے دوٹکڑے نہیں،بلکہ دو نثری نظمیں لہرائے پھر رہا ہو۔ میاں عبدالقدوس بتاتے ہیں کہ بعد میں اس کتے کا بہت برا انجام ہوا۔ رفتہ رفتہ شہر میں اردو بولنے والوںکی تعداد گھٹتی گئی اورپھر اس قدر گھٹ گئی کہ صحیح تو کیا غلط اردو بولنے والے بھی نہ رہے۔ کتے کا بھونکنا بھی رفتہ رفتہ کم ہو گیا اور پھر ایک دن وہ ایسا خاموش ہوا کہ میونسپلٹی والے اسے اٹھا کر لے گئے۔
]
بہر حال مجھے صرف یہ عرض کرنا تھا کہ کتا دنیا کی کوئی بھی زبان سیکھ لیتا ہے، لیکن بولتا ہے وہ صرف اپنی زبان میں۔ آج تک دنیا میں کوئی ایسا کتا نہیں دیکھا گیا، جو انگریزی، فارسی ، عربی، اردو ، تمل یا تیلگو بولتا ہو۔ان کی شکلیں الگ الگ ہو سکتی ہیں، مثلاً کسی کے کان اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ کتا کم کان زیادہ لگتا ہے۔ کسی کی ناک اس قدر پھیلی ہوئی ہوتی ہے کہ اس میں سے ناک نکال دیں توبہت کم کتا باقی بچتا ہے اور پھر وہ بھونکے گا بھی نہیں۔اسی طرح بعض کتے قد کاٹھی میں اتنے مختصر ہوتے ہیں کہ مرد کی جیب میں بہ آسانی رکھے جاسکتے ہیں، یعنی وہ کتے جو بہت ہی کم کتے ہوتے ہیں۔ اس اختلاف ِ رنگ و بو کے باوجود ان کی زبان ایک ہوتی ہے ۔ ان میں لسانی تعصب قطعی نہیں پایا جاتا۔ دنیا کے تمام کتے ایک ہی زبان میں جھگڑتے ہیں، مگرزبان پر نہیں۔
اور اب میرا خیال ہے، ایک ہفتے کے لئے اتنا کتا بہت ہے!
 

ساجد

محفلین
کتے کی ایک ٹانگ
از:نصرت ظہیر

بہر حال مجھے صرف یہ عرض کرنا تھا کہ کتا دنیا کی کوئی بھی زبان سیکھ لیتا ہے، لیکن بولتا ہے وہ صرف اپنی زبان میں۔ آج تک دنیا میں کوئی ایسا کتا نہیں دیکھا گیا، جو انگریزی، فارسی ، عربی، اردو ، تمل یا تیلگو بولتا ہو۔ان کی شکلیں الگ الگ ہو سکتی ہیں، مثلاً کسی کے کان اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ کتا کم کان زیادہ لگتا ہے۔ کسی کی ناک اس قدر پھیلی ہوئی ہوتی ہے کہ اس میں سے ناک نکال دیں توبہت کم کتا باقی بچتا ہے اور پھر وہ بھونکے گا بھی نہیں۔اسی طرح بعض کتے قد کاٹھی میں اتنے مختصر ہوتے ہیں کہ مرد کی جیب میں بہ آسانی رکھے جاسکتے ہیں، یعنی وہ کتے جو بہت ہی کم کتے ہوتے ہیں۔ اس اختلاف ِ رنگ و بو کے باوجود ان کی زبان ایک ہوتی ہے ۔ ان میں لسانی تعصب قطعی نہیں پایا جاتا۔ دنیا کے تمام کتے ایک ہی زبان میں جھگڑتے ہیں، مگرزبان پر نہیں۔[/COLOR]اور اب میرا خیال ہے، ایک ہفتے کے لئے اتنا کتا بہت ہے!
بس جی آج کے لئیے اتنی "کتے خوانی" بہت ہے۔:laughing:
 
Top