کثرتِ رنج مرے جی کا ضرر کیوں نہ ہوئی
اس پہ یہ چشمِ فسوں ساز بھی تر کیوں نہ ہوئی
ہم سے ہر لمحہء موجود گریزاں ہی رہا
آہ! اے بے خبری، ہم کو خبر کیوں نہ ہوئی
لفظِ مہمل بھی ہو، شرمندہء معنی کسی روز
شرح یک بار ہوئی، بارِ دگر کیوں نہ ہوئی
وعدہء وصل سے ہونا تھا غمِ دل کا علاج
دردِ فرقت کی دوا زود اثر کیوں نہ ہوئی
خاک میں مل گئی رخسار سے ڈھلکی جو اگر
اشک کی بوند کبھی آبِ گہر کیوں نہ ہوئی
راگ چھیڑے گا خدا جانے یہ کیا تارِ نفس
وائے درماندگی! یہ عمر بسر کیوں نہ ہوئی
چاکِ ہستی پہ کئی دُکھ تھے تراشے المٰیؔ
ہم کو موصول کبھی دادِ ہنر کیوں نہ ہوئی