فرحان دانش
محفلین
پختون فکری جرگہ کے چیئرمین امیرحمزہ مروت زندگی کے بہاروں کی نصف صدی کب کی مکمل کرچکے ہیں لیکن جذبے ان کے اب بھی جوان ہیں۔صاحب مطالعہ شخصیت ہیں اور بھرپور سیاسی زندگی گزاری۔خان عبدالولی خان کے قریبی ساتھی رہے، ان کی جماعت کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے ۔ یہ جماعت بدل گئی تو انہوں نے بدلنے سے انکار کیا اور 1995ء میں اسے خیر باد کہہ دیا البتہ جب تک یہاں رہے خان عبدالولی خان کے بااعتماد افراد کی صف میں رہے اور وہ سندھ سے متعلق اہم معاملات ان کے ذریعے نمٹاتے رہے۔ پچھلے دنوں میرے دفتر تشریف لائے ۔ سندھ کے ماضی اور حال پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔تاریخ کے صفحات الٹتے ہوئے انہوں نے بعض ایسے واقعات سنائے کہ جو عجیب و غریب ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی تھے۔
امیرحمزہ مروت نے بتایا کہ” سنہ چھیاسی (86ء) کے فسادات کے بعد خان عبدالولی خان اور خود الطاف حسین یہ جتن کررہے تھے کہ پختونوں اور اردو بولنے والوں کے مابین تناؤ کا خاتمہ ہو۔ جب الطاف حسین جیل میں تھے تو خان عبدالولی خان کوشش کررہے تھے کہ وہ جیل جاکر ان سے ملاقات کریں لیکن حکومت سندھ اجازت نہیں دے رہی تھی۔ ان دنوں حاکم علی زرداری اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر اور عالم شاہ صوبائی صدر تھے ۔ چونکہ خان صاحب کو بھی شک ہوا تھا کہ حاکم علی زرداری آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے مزید بھڑکانا چاہتے ہیں، اس لئے وہ ایم کیوایم کے رہنماؤں کے ساتھ رابطہ میرے (امیرحمزہ مروت) ذریعے کررہے تھے ۔ اس دوران زرداری صاحب نجی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ ”دو چور ہماری سرزمین پر آکر لڑرہے ہیں ، ان کولڑنے دو“۔ ولی خان کو الطاف حسین سے ملاقات کے لئے جیل جانے کی اجازت تو نہ ملی لیکن وہ ایک جلسے کے لئے کراچی آئے۔ اسی جلسے میں تقریر کے دوران حاکم علی زرداری نے ایم کیوایم کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ پختونوں کے بہت غمخوار ہیں۔ انہوں نے اشتعال دلانے کے لئے اردو بولنے والوں کو نازیبا القابات سے بھی پکارا لیکن جب ولی خان تقریر کے لئے آئے تو انہوں نے یکسر دوسری لائن لے لی۔ پہلے انہوں نے اردو میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مہاجر کے ساتھ پختون کا کوئی جھگڑا نہیں ۔ جو کام مہاجر کرتا ہے وہ پختون نہیں کرسکتا اور جو پختون کررہے ہیں وہ مہاجر نہیں کرتا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ ضرورت ہیں اور یوں ان کی لڑائی کا کوئی جواز نہیں۔ پھر انہوں نے پشتو میں تقریر کرتے ہوئے پختونوں کو مخاطب کیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ یہاں جنگ اور قبضے کے لئے نہیں بلکہ مزدوری کے لئے آئے ہو۔ اس لئے سب کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کی کوشش کرو۔ ولی خان کی اس تقریر نے فضا بہتر بنائی ۔ پھر ایم کیوایم کی طرف سے بھی رابطے شروع ہوئے اور اے این پی کی طرف سے میں الطاف حسین سے ملتا رہا۔ جب راستہ ہموار ہوا تو پھر افضل خان لالہ اور غلام احمد بلور نے بھی ملاقاتیں کی اور یوں خان عبدالولی خان نائن زیرو تشریف لے گئے ۔ یہاں پر جب خان عبدالولی خان سے اخبارنویسوں نے سوال کیا کہ کیا وہ مہاجروں کو پانچویں قومیت تسلیم کرتے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ انہیں مہاجروں کی الگ قومیت ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ، جس پر نہ صرف الطاف حسین نے ولی خان کا شکریہ ادا کیابلکہ اے این پی اور ایم کیوایم کی دوستی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوگیا“۔
میں نے اپنی صحافت کا آغاز کیا تو اے این پی اور ایم کیوایم شیروشکر تھے۔ ایم کیوایم کے قائدین کو پہلی بار بالمشافہ میں نے پشاور میں اے این پی کے جلسوں، کانفرنسوں میں دیکھا یا پھر غلام احمدبلور جیسے لوگوں کے گھر پر ان سے ملاقات ہوجاتی تھی۔اب جبکہ اے این پی اور ایم کیوایم باہم متصادم ہوگئے تو میں سوچتا رہا کہ آخر پچھلے چند ماہ کے دوران ایسا کیا ہوگیا کہ اے این پی اور ایم کیوایم ایک بار پھر کراچی میں مورچہ زن ہوگئے ۔ یہ سوال مجھے بہت پریشان کررہا تھا لیکن امیرحمزہ مروت صاحب کی ملاقات نے میری مشکل آسان کردی۔ میں سمجھ گیا کہ کیوں زرداری صاحب اور ان کے ذولفقار مرزا جیسے چہیتوں کے مقتدر بننے کے بعد اے این پی اور ایم کیوایم لڑائی میں مصروف ہوکر پختونوں اور اردو بولنے والے معصوموں کے قتل عام کی راہ ہموار کرنے لگی ہے۔ مروت صاحب نے تو مشکل آسان کردی تھی لیکن معمہ مکمل طور پر اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں سرگرم، اندر کی ایک خبر نے حل کردیا۔ان ذرائع کے مطابق چند روز قبل ایوان صدر میں مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ میٹنگ ہورہی تھی۔ گفتگو اردو اور پنجابی میں ہورہی تھی۔ کراچی کا تفصیل سے ذکر ہوا تو صدر آصف علی زرداری محفل میں شریک ایک سندھی وزیر کومخاطب کرکے تفاخرانہ انداز میں کہنے لگے کہ ”میری سیاست کو مانتے ہوکہ نہیں،کس طرح میں نے پختونوں اور مہاجروں کو الجھا رکھا ہے“۔ کہتے ہیں کہ ہوشیار پرندہ پھنستا نہیں اور جب پھنستا ہے تو پھر بیک وقت اس کے دونوں ٹانگیں جال میں پھنسا کرتی ہیں ۔ زرداری صاحب گاہے بگاہے پنجابی میں تقریر کرلیتے ہیں اور فخر سے کہتے رہتے ہیں کہ وہ پنجابی سیکھ گئے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ محفل میں شریک کوئی پنجابی بھی سندھی سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ محفل میں شریک ایک فرد جو سندھی سمجھ رہا تھا ،نے یہ بات باہر نکال دی اور ان دنوں اسلام آباد کے حلقوں میں زیربحث رہتی ہے ۔
اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید تو سیاست میں دماغ کا استعمال بہت کم کرتے ہیں لیکن نہ جانے ایم کیوایم کے پڑھے لکھے اور ذہین قائدین کو کیا ہوگیا ہے جو اس کھیل کو سمجھ نہیں رہے ہیں اور بھڑک بازو ں کی چالوں میں آکر استعمال ہورہے ہیں ۔ وہ بھڑک باز جو کراچی میں کسی قاتل اور بندوق بردار کا راستہ تو نہیں روک سکتے لیکن نہتے رپورٹر اور کیمرہ مین پر اپنی بدمعاشی کا رعب جماتے ہیں ۔ جن کی بہادری کا یہ عالم ہے کہ آج تک اپنی قائد کے قاتلوں کا نام زبان پر نہیں لاسکتے لیکن جیونیوز کے نہتے رپورٹر اور کیمرہ مین کے گلے سے آفس کارڈ چھین کر بہادر ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔ اپنی حکومت میں پولیس اور فوج کے بغیر گھر سے باہر نکل نہیں سکتے۔ صحافی اور اینکرز تو بغیر سیکورٹی کے کراچی سے وزیرستان تک گھوم پھررہے ہیں لیکن یہ بہادر تو ذرا ایک دن پولیس کی فوج کے بغیر کراچی میں گھوم کر دکھادیں۔دوسروں کو لڑواکر اپنے مقاصد حاصل کرنے سے ایک انسان سازشی کا خطاب تو پا سکتا ہے لیکن بہادروں کی صف میں شمار نہیں ہوسکتا۔ بہادر کبھی کمزور پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ پولیس اور مسلح افراد کے لاؤ لشکر کے ساتھ ایک نہتے رپورٹر اور کیمرہ مین کو دھمکیاں دینا بہادری نہیں۔ کسی نے بہادر بننا ہے تو کراچی کے ہر سندھی، ہر مہاجر اور ہر پختون کی زندگی اجیرن کرنے والے بدمعاشوں اور قاتلوں کو روک کر دکھادے۔ سندھ کے معصوم عوام کو ڈاکوؤں سے نجات دلادے اور ہمہ وقت روتی ہوئی بلوچ ماؤں کے آنسو پونجھ کر دکھادے۔
تحریر …سلیم صافی
بشکریہ روزنامہ جنگ
امیرحمزہ مروت نے بتایا کہ” سنہ چھیاسی (86ء) کے فسادات کے بعد خان عبدالولی خان اور خود الطاف حسین یہ جتن کررہے تھے کہ پختونوں اور اردو بولنے والوں کے مابین تناؤ کا خاتمہ ہو۔ جب الطاف حسین جیل میں تھے تو خان عبدالولی خان کوشش کررہے تھے کہ وہ جیل جاکر ان سے ملاقات کریں لیکن حکومت سندھ اجازت نہیں دے رہی تھی۔ ان دنوں حاکم علی زرداری اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر اور عالم شاہ صوبائی صدر تھے ۔ چونکہ خان صاحب کو بھی شک ہوا تھا کہ حاکم علی زرداری آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے مزید بھڑکانا چاہتے ہیں، اس لئے وہ ایم کیوایم کے رہنماؤں کے ساتھ رابطہ میرے (امیرحمزہ مروت) ذریعے کررہے تھے ۔ اس دوران زرداری صاحب نجی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ ”دو چور ہماری سرزمین پر آکر لڑرہے ہیں ، ان کولڑنے دو“۔ ولی خان کو الطاف حسین سے ملاقات کے لئے جیل جانے کی اجازت تو نہ ملی لیکن وہ ایک جلسے کے لئے کراچی آئے۔ اسی جلسے میں تقریر کے دوران حاکم علی زرداری نے ایم کیوایم کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ پختونوں کے بہت غمخوار ہیں۔ انہوں نے اشتعال دلانے کے لئے اردو بولنے والوں کو نازیبا القابات سے بھی پکارا لیکن جب ولی خان تقریر کے لئے آئے تو انہوں نے یکسر دوسری لائن لے لی۔ پہلے انہوں نے اردو میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مہاجر کے ساتھ پختون کا کوئی جھگڑا نہیں ۔ جو کام مہاجر کرتا ہے وہ پختون نہیں کرسکتا اور جو پختون کررہے ہیں وہ مہاجر نہیں کرتا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ ضرورت ہیں اور یوں ان کی لڑائی کا کوئی جواز نہیں۔ پھر انہوں نے پشتو میں تقریر کرتے ہوئے پختونوں کو مخاطب کیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ یہاں جنگ اور قبضے کے لئے نہیں بلکہ مزدوری کے لئے آئے ہو۔ اس لئے سب کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کی کوشش کرو۔ ولی خان کی اس تقریر نے فضا بہتر بنائی ۔ پھر ایم کیوایم کی طرف سے بھی رابطے شروع ہوئے اور اے این پی کی طرف سے میں الطاف حسین سے ملتا رہا۔ جب راستہ ہموار ہوا تو پھر افضل خان لالہ اور غلام احمد بلور نے بھی ملاقاتیں کی اور یوں خان عبدالولی خان نائن زیرو تشریف لے گئے ۔ یہاں پر جب خان عبدالولی خان سے اخبارنویسوں نے سوال کیا کہ کیا وہ مہاجروں کو پانچویں قومیت تسلیم کرتے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ انہیں مہاجروں کی الگ قومیت ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ، جس پر نہ صرف الطاف حسین نے ولی خان کا شکریہ ادا کیابلکہ اے این پی اور ایم کیوایم کی دوستی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوگیا“۔
میں نے اپنی صحافت کا آغاز کیا تو اے این پی اور ایم کیوایم شیروشکر تھے۔ ایم کیوایم کے قائدین کو پہلی بار بالمشافہ میں نے پشاور میں اے این پی کے جلسوں، کانفرنسوں میں دیکھا یا پھر غلام احمدبلور جیسے لوگوں کے گھر پر ان سے ملاقات ہوجاتی تھی۔اب جبکہ اے این پی اور ایم کیوایم باہم متصادم ہوگئے تو میں سوچتا رہا کہ آخر پچھلے چند ماہ کے دوران ایسا کیا ہوگیا کہ اے این پی اور ایم کیوایم ایک بار پھر کراچی میں مورچہ زن ہوگئے ۔ یہ سوال مجھے بہت پریشان کررہا تھا لیکن امیرحمزہ مروت صاحب کی ملاقات نے میری مشکل آسان کردی۔ میں سمجھ گیا کہ کیوں زرداری صاحب اور ان کے ذولفقار مرزا جیسے چہیتوں کے مقتدر بننے کے بعد اے این پی اور ایم کیوایم لڑائی میں مصروف ہوکر پختونوں اور اردو بولنے والے معصوموں کے قتل عام کی راہ ہموار کرنے لگی ہے۔ مروت صاحب نے تو مشکل آسان کردی تھی لیکن معمہ مکمل طور پر اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں سرگرم، اندر کی ایک خبر نے حل کردیا۔ان ذرائع کے مطابق چند روز قبل ایوان صدر میں مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ میٹنگ ہورہی تھی۔ گفتگو اردو اور پنجابی میں ہورہی تھی۔ کراچی کا تفصیل سے ذکر ہوا تو صدر آصف علی زرداری محفل میں شریک ایک سندھی وزیر کومخاطب کرکے تفاخرانہ انداز میں کہنے لگے کہ ”میری سیاست کو مانتے ہوکہ نہیں،کس طرح میں نے پختونوں اور مہاجروں کو الجھا رکھا ہے“۔ کہتے ہیں کہ ہوشیار پرندہ پھنستا نہیں اور جب پھنستا ہے تو پھر بیک وقت اس کے دونوں ٹانگیں جال میں پھنسا کرتی ہیں ۔ زرداری صاحب گاہے بگاہے پنجابی میں تقریر کرلیتے ہیں اور فخر سے کہتے رہتے ہیں کہ وہ پنجابی سیکھ گئے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ محفل میں شریک کوئی پنجابی بھی سندھی سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ محفل میں شریک ایک فرد جو سندھی سمجھ رہا تھا ،نے یہ بات باہر نکال دی اور ان دنوں اسلام آباد کے حلقوں میں زیربحث رہتی ہے ۔
اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید تو سیاست میں دماغ کا استعمال بہت کم کرتے ہیں لیکن نہ جانے ایم کیوایم کے پڑھے لکھے اور ذہین قائدین کو کیا ہوگیا ہے جو اس کھیل کو سمجھ نہیں رہے ہیں اور بھڑک بازو ں کی چالوں میں آکر استعمال ہورہے ہیں ۔ وہ بھڑک باز جو کراچی میں کسی قاتل اور بندوق بردار کا راستہ تو نہیں روک سکتے لیکن نہتے رپورٹر اور کیمرہ مین پر اپنی بدمعاشی کا رعب جماتے ہیں ۔ جن کی بہادری کا یہ عالم ہے کہ آج تک اپنی قائد کے قاتلوں کا نام زبان پر نہیں لاسکتے لیکن جیونیوز کے نہتے رپورٹر اور کیمرہ مین کے گلے سے آفس کارڈ چھین کر بہادر ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔ اپنی حکومت میں پولیس اور فوج کے بغیر گھر سے باہر نکل نہیں سکتے۔ صحافی اور اینکرز تو بغیر سیکورٹی کے کراچی سے وزیرستان تک گھوم پھررہے ہیں لیکن یہ بہادر تو ذرا ایک دن پولیس کی فوج کے بغیر کراچی میں گھوم کر دکھادیں۔دوسروں کو لڑواکر اپنے مقاصد حاصل کرنے سے ایک انسان سازشی کا خطاب تو پا سکتا ہے لیکن بہادروں کی صف میں شمار نہیں ہوسکتا۔ بہادر کبھی کمزور پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ پولیس اور مسلح افراد کے لاؤ لشکر کے ساتھ ایک نہتے رپورٹر اور کیمرہ مین کو دھمکیاں دینا بہادری نہیں۔ کسی نے بہادر بننا ہے تو کراچی کے ہر سندھی، ہر مہاجر اور ہر پختون کی زندگی اجیرن کرنے والے بدمعاشوں اور قاتلوں کو روک کر دکھادے۔ سندھ کے معصوم عوام کو ڈاکوؤں سے نجات دلادے اور ہمہ وقت روتی ہوئی بلوچ ماؤں کے آنسو پونجھ کر دکھادے۔
تحریر …سلیم صافی
بشکریہ روزنامہ جنگ