متلاشی
محفلین
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران بر ہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے حالات سے آگاہی کے باوجود سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے مستقل آئی جی سندھ کی تقرری کیوں نہیں کی ۔ سماعت کے موقع پرقائم مقام آئی جی سندھ غلام شبیر شیخ نے عدالت میں 2011 ء سے اب تک گرفتار ہونے والے ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کی فہرست بھی پیش کی ۔ رپورٹ کے مطابق 2011 سے اب تک 224 ٹارگٹ کلر گرفتار کئے ۔جن میں سے 81 ٹارگٹ کلر کا تعلق متحدہ قومی مومنٹ، 38 کا تعلق سنی تحریک اور 13 کا تعلق عوامی نیشل پارٹی سے ہے جبکہ 9 ٹارگٹ کلر کا تعلق تحریک انصاف اورمہاجر قومی مومنٹ سے تعلق رکھنے والے ٹاریٹ کلرز کی تعداد4 ہے۔قائم مقام آئی جی سندھ کی رپورٹ کے مطابق گرفتار ہونے والے ٹارگٹ کلر اور بھتہ خوروں میں کالعدم تحریک طالبان کے 27 ، لیاری گینگ وار کے 17 ، پیپلز امن کمیٹی کے 6اور کالعدم سپاہ محمد کے 4 شامل ہیں اسکے علاوہ کالعدم لشکر جھنگوی کے 2 اور کالعدم جنداللہ کے 5 ٹارگٹ کلر کو گرفتار کیا گیا۔ عدالت نے لیاری سمیت دیگر نوگو ایریاز کے خاتمے میں ناکامی اور لیاری میں ارشد پپو کے قتل اور لاش کی بے حرمتی پر پولیس کو آج ہی رپورٹ جمع کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ سماعت کے دوران ڈی آئی جی شاہد حیات نے بتایا کہ لیاری سمیت کراچی کے کچھ علاقوں میں پولیس داخل نہیں ہو سکتی۔ 2011ء میں لیاری آپریشن کے دوران ایک ہفتے تک پولیس علاقے میں داخل نہیں ہو سکی۔شاہد حیات کا کہنا تھا کہ لیاری میں گذشتہ دنوں مارے جانے والے ارشد پپو کو بھی ایک سیاسی جماعت کی حمایت حاصل تھی۔ انکا کہنا تھا کہ عباس ٹاؤن دھماکے میں ملوث ملزمان کو بھی پولیس نے گرفتار کیا ہےلیکن کنواری کالونی میں ہمیں تھریٹ ہے ہم وہاں داخل نہیں ہو سکتے۔
ربط