کراچی اور اسپرانتو۔ جواب مضمون
محمد خلیل الرحمٰن
سب سے پہلے تو ہم محسن حجازی صاحب کو اتنا اچھا مضمون لکھنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف ایک سنجیدہ مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس کا ایک حل پیش کیا ہے بلکہ اس کے فوائد بھی گنوائے ہیں۔ یہاں پر ہمیں انگریزی کا ایک محاورہ یاد آرہا ہے۔ اے نپ ان دی بڈ۔ مضمون پڑھنے کے بعد ہم نے بھی اپنی افلاطونی سوچ کو آواز دی اور اس سنجیدہ ترین مسئلے پر کچھ گہر نکال لانے کی کوشش تیز کردی۔
کراچی کا مسئلہ خالصتاً لسانی ہے ، اس سلسلے میں ہم فاضل مصنف سےمکمل اتفاق کرتے ہیں لہٰذا اس مسئلے کے حل کے لیے زبان کی تبدیلی پر غور کیا جانا چاہیے۔ ہندوستان کے اربابِ حل و عقد نے پہلے ہی اس مسئلے کےحل کے لیے کوششیں شروع کردی تھیں ، اور پہلے مرحلے کے طور پر اردو زبان کا رسم الخط تبدیل کرکے فارسی سے دیوناگری کردیا تھا۔ آج اتنے سال گزرنے کے بعد اس کا مثبت نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ہندی زبان صرف بی بی سی اور نیشنل جیوگرافک چینلز تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جبکہ بالی وڈ کی تمام فلمیں آج اردو میں بن رہی ہیں۔
سب سے پہلے تو اردو کی تعریف میں رطب اللسان ہوا جائے یعنی اس کی تعریف کی جائے۔
اردوئے معلیٰ کی شروعات کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا ذرا مشکل ہے۔ اس سلسلے میں ولی دکنی کا شعر ملاحظہ فرمائیے۔
ہمناں تمن کوں دل دیا، تمناں ہمن کوں دکھ دیا
ہم دل دیا ، تم دکھ دیا ، ہم کیا کیا ، تم کیا کیا
بس یوں سمجھ لیجے کہ جب ولی دکنی مندرجہ بالا شعر کہہ رہے تھے تو اردو وجود میں آچکی تھی۔ اس شعر کو کسی اور زبان کا شعر ہرگز نہ سمجھا جائے۔ اس مایوس کن صورتحال سے واقعتاً مایوس ہوکر جناب جان گلکرسٹ نے اسپرانتو کی طرز پر ایک ایسی زبان کی کوشش شروع کی جسے ان کے بھائی بند یعنی برطانوی سماج کے وہ ممبران جو ان کے نوآبادیاتی نظام کو چلانے کے لیے ہندوستان میں موجود تھے ، بآسانی سمجھ سکیں۔ لہٰذا فورٹ ولیم کالج میں اردو کا اجراء کیا گیا۔
باری(علیگ) اپنی معرکتہ الآراء تصنیف ’’ کمپنی کی حکومت’’ کے ضمیمہ نمبر ایک ’’ اخبار اور کتابیں‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’ فورٹ ولیم کالج ہی میں اردو نثر کو سلاست اور روانی نصیب ہوئی ۔ مقفیٰ طرزِ تحریر کو ترک کر دیا گیا۔ اردو نے خواہ شمالی ہندوستان میں جنم لیا ہو یا وہ دکن میں پیدا ہوئی اس کی ابتداء فارسی اور دیسی زبانوں کی آمیزش سے ہوئی۔ ‘‘
پھر کیا تھا۔ لکھنئو، دلی اور دکن اور پنجاب اس نئی زبان کےگڑھ بن کر سامنے آئے ۔
ہم نے بھی اسپرانتو، انگریزی اور چینی سمیت تمام آپشنز پر غور شروع کیا اور ان تمام آپشنز کی ایک فہرست بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ذیل میں ان تمام متبادل کا ایک مختصر تعارف پیشِ خدمت ہے۔
گلابی یا پنجابی اردو:۔
اس متبادل پر فی الفور کام شروع ہوچکا ہے ۔ رکشہ، ٹیکسی اور بسوں کے پچھواڑے اس زبان کے ان گنت شعر پیش کیے جاچکے ہیں۔ اس زبان کے مشہور شعراء میں سرِ فہرست جناب خالد مسعود
خان صاحب فرماتے ہیں۔
ہیر کے بوہے اگے ویکھ کے عاشقوں کا گھڑمس
رانجھا تخت ہزارے ٹر گیا پھڑ کے پہلی بس
ماپے اس کے جن کڈھوانے لائے تھے
کڑی کو کڈھ کر لے گیا پیر کمینہ سا
بیوی نے دبکایا تو وہ گھابر کر
غلط ٹرین پہ چڑھ گئے چڑھ کر ستے رہے
مولوی چھڈگیا اللہ واسطے لماں ای مال
تن بیوائیں، اکی بچے، پچھلے سال
دوسرے قابلِ ذکر شاعروں میں انور مسعود اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید شامل ہیں۔
اس کے علاوہ آپ نے منی بس اور ویگن کے کلینر حضرات کو اکثر سڑک پر ایک یکا و تنہا اور بے پردا خاتون کو دیکھ کر یہ آوازہ لگاتے ہوئے سنا ہوگاکہ ’’ روک کے استاد! ایک لیڈیز ہے۔‘‘ یا پھر ’’ڈبل ہے استاد‘‘ کے بعد سگنل کی سرخ بتی دیکھ کر یہ کہتے ہوئے تو ضرور سنا ہوگا کہ’’ روک کے استاد سنگل ہے۔‘‘
ادھر کچھ دنوں سے ہمارے ہاں اللہ کے بندے ، بندے کے پتر بننے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس بندہ پر تقصیر نے اب تک اللہ کے بندوں کا تذکرہ سنا تھا ۔ یا پھر بندہ بیراگی کے متعلق سنا تھا۔ اب بندہ بمعنی انسان سننے کو ملتا ہے۔ ہاں بیٹا ! بندے کا پتر بن نہ بن، اللہ کا بندہ تو بن۔ واقعئی
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
بہت سال پہلے کی بات ہے ، شفاف تحریک کے بانی جناب اکرام اللہ انور نے اردوکی کوتاہ دامنی کے پیشِ نظر اسے دس لاکھ نئے الفاظ گھڑ کر دینے کا اعلان کیا تھا۔ اگر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگئے ہوتے اور انشاء جی ان کی بھد نہ اڑاتے تو آج اردو کی ’ٹور‘ ہی کچھ اور ہوتی، اور یہ لسانی مسئلہ بہت پہلے ہی حل ہوچکا ہوتا۔
حیدرآبادی اردو:۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب آتش اور ہم دونوں جوان تھے ا اور ہم ایک عدد منحنی جسم کے مالک ہوا کرتے تھے۔ ایک دن ہم اپنے ایک حیدرآبادی دوست کے ہمراہ ان کے آفس میں موجود تھے کہ انھوں نے ہمیں ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ کہنے لگے۔’’خلیل صاحب! آپ اسمِ بامسمیٰ ہیں۔‘‘
ہم نےحیران ہوکر پوچھا’’ وہ کیسے؟‘‘ جواب دیا’’ آپ نام کے بھی خلیل ہیں اور ویسے بھی خلیل ہیں۔‘‘ ( اہلِ حیدرآباد قاف کو بھی خ گردانتے ہیں)
واجدہ تبسم اپنی کتاب ’’ اترن‘‘ کے پیش لفظ قوسِ خیال میں لکھتی ہیں۔
’’ حیدرآبادی زبان وہ واحد زبان ہے ۔۔۔ جس میں مخاطبت کی حد تک تذکیر و تانیث کی بھی کوئی حد نہیں۔کسی بھی حویلی ، محل میں آپ چلے جائیے۔۔ مخاطب نواب صاحب ہوں یا بیگم پاشا۔۔ اندازِ تخاطب دونوں کے لیے ایک ہی ہوگا:
آپ اتّے صبو صبو کاں جارئے۔۔۔۔
اندازِ گفتگو کی ایک حیرت انگیز یکسانیت ملاحظہ کیجیے:
شادی کی محفل ہے۔ نوابن پاشا کنیزوں اور خواصوں پر چلا رہی ہیں:
اجاڑ مٹی پڑ کو جاؤ۔۔ دلہن کب سے نہا کو بیٹھی۔۔ کوئی مہندی بھی بھگائے کی نئیں۔۔
اب ایک منظر دیکھیے جہاں میت پڑی ہوئی ہے، وہی انداز:
اجاڑ مٹی پڑ کو جاؤ، غسّالن آئی کی نئیں۔۔ ہور وہ عطر پھولاں منگائے کی نئیں۔۔
شادی کی خوشی کی محفل ہو یا موت کی غمی کی ۔۔ بات شروع ہوگی۔۔ ’ اجاڑ مٹی پڑ کو جاؤ‘ سے۔۔
اردو کی صحیح زبان،، جو عام طور سے ہندوستان بھر میں رائج ہے اور بولی جاتی ہے، جہاں ایک مرد چائے پینے کے لیے وہی کہے گا جو ایک عورت کہے گی، یعنی۔۔۔
’میں نے چائے پی لی‘
اب سنئے حیدرآبادی زبان میں اسی ایک بات کو کتنے طریقوں سے کہا جاسکتا ہے:
(مرد کی زبان سے)
۱۔ میں چائے پی لیا۔۔
۲۔ میں نے چائے پی لیا۔۔
۳۔ میں چائے پیا۔۔۔
۴۔ ہم چائے پی لیے۔۔
۵۔ میں چائے پی کو بیٹھا۔۔
اور عورت یوں کہے گی:
۱۔ میں چائے پی لی۔۔
۲۔ میں چائے پی لے کو بیٹھی۔۔
۳۔ میں چائے پی۔۔
۴۔ میں نے چائے پی لی۔۔
( یہ در اصل عام رائج اردو ہوگئی ، لیکن حیدرآباد میں گفتگو اگر عورت کر رہی ہے تو کھانے کو بھی یوں ہی کہے گی کہ ۔۔’ میں نے کھانا کھالی‘۔۔’میں نے خط لکھ لی‘۔۔ ’میں نے دروازہ کھول دی‘۔)
اگر عثمانیہ یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس فرسٹ کا تمغہ لینے والا۔۔ ایم اےپاس مرد بھی کسی لڑکی یا عورت سے بات کرے گا تو اس کا لہجہ اور انداز ایسا ہوگا جیسے مخاطب کوئی مرد ہے۔حالانکہ گفتگو عورت سے ہورہی ہے۔
’کل آپ وعدہ کرکے بھی نئیں آئے، میں آپ کا کِتّا رستہ دیکھا‘۔
’ آپ چوڑی دار پیجامے میں بہوت اچھے لگ رئے۔‘
’ آپ اگر چوٹی نئیں ڈال کر بال کھلے بھی رکھے توبھی اچھے لگیں گے۔‘
اب لڑکیوں کا اندازِ گفتگو( امراء کی بیٹیاں) ملاحظہ کیجیے۔۔
’’ مما میں آج کالج نئیں جاؤں گا۔۔
’’ بابا جان! ۔۔ میں عیدی میں آپ سے ہلو سونے کے کڑے لیوں گا۔۔
’’ اگے چمن! بہری ہے کیا؟ میں کب سے بول ریا ہوں، میرے کو پانی نہانے کا ہے۔
یہاں بیگماتی زبان اور باندیاتی زبان میں کبھی تو زمین آسمان کا فرق ملے گا، اور کبھی دونوں ایک ہی صف میں کھڑی نظر آئیں گی۔
حویلی کی مالکن بی پاشا اپنی نوکرانی کو پکار رہی ہیں۔
’’ اگے چھنال! کدھر مرکو گئی۔ بہری ہوگئی کیا۔ کاناں پٹ ہوگئیں کیا؟۔۔
نوکرانی اپنی ساتھ نوکرانی ( کنیز) کو اس کے عشق کی واردات پر تنبیہ کررہی ہے۔
’’ اگے چھنال! ۔۔ اس کے پیچھے مت دوڑ۔۔ حلال حرام میں نئیں تو ماں بن کو بیٹھ جائیں گی۔‘‘
پھر کسی حویلی میں آپ اس طرح کی زبان بھی بی پاشا سے سن لیں گے جو کوئی باندی بھی نہیں کہے گی۔
’’ صدقے گئی میں حضور کے۔ ۔ اچھا ہوا تو اللہ کرا۔۔۔ برا ہوا تو بندہ کرا۔۔ اجی آپ کائے کو ان کے بیچ میں پڑتیں۔ شادی کرتے، کرو، ۔۔ بولو نئیں کرتے مرو۔۔ اپنے کو کیا۔۔‘‘
وہی بی پاشا جب کوسنے پر آئیں گی تو خواصوں اور باندیوں کو یوں نوازیں گی:۔
’’ ایو کاں مرگئی گے۔ ۔ اپنا کفن سیتی بیٹی ہوئیں گی،۔۔ جواب کیوں نئیں دیتی۔ حلخ میں پلیگ کا پھوڑا پھوٹا کیا؟‘‘
کیا حیدرآبادی زبان کی یہ باریکیاں کسی اور نے تلاش کی ہیں؟‘‘
( اترن۔ افسانے از واجدہ تبسم)
اس طویل اقتباس پر استادِ محترم کا تبصرہ بھی قابلِ توجہ ہے۔ فرماتے ہیں۔
’’حیدرآبادی زبان کے ذکر میں کچھ اغلاط ہیں۔ عام طور پر ’نے‘ استعمال ہی نہیں کیا جاتا یہاں۔ میں کھانا کھایا (یا کھائی)، یا میں چائے پیا (یا پی) ہی کہا جاتا ہے، ’میں نے چائے پی‘ جو معدودے چند بولتے پائے گئے ہیں وہ بزعم خود شستہ اردو بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر جگہ ’نے‘ کا اضافہ کر دیتے ہیں۔‘‘
ہماری ناقص رائے میں،باقی تمام متبادل کی بہ نسبت حیدرآبادی زبان کا نفاذ سب سے زیادہ آسان ہوگا اسلیے کہ محترمہ واجدہ تبسم کے افسانوں کے مجموعے نہ صرف بے تحاشاا مقبول ہیں بلکہ زباں زد عام ہیں۔ ان کی یہ کتابیں باقی تمام کتابوں کے قابلِ ضبطی قرار دیے جانے کے بعد ٹیکسٹ بکس کا کام بآسانی دے سکیں گی۔ اس تجویز کا صرف ایک منفی پہلو جو ہمیں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے نفاذ سے فحش گوئی اور مخربِ اخلاق حرکتیں عام ہوجائیں گی۔ اور یہ کوئی اتنا اہم معاملہ بھی نہیں
یہ ان کا کام ہے اہلِ سیاست جانیں
ہاں البتہ اہلِ سیاست صرف دھوں دھار تقریروں، چینلز پر بیانات ، بحثوں اور دھرنوں کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکیں گے ، ادھر ٹی وی چینلزکے موڈریٹرز اور مولویوں کی بن آئے گی جو ان کی تحریروں کے اقتباسات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی حرکتوں کو خوب مزے لے لے کر بیان کریں گے۔ یہ وہی باتیں ہیں جن کے متعلق ، بقول یوسفی صاحب، لاہور کے ایک صاحبِ طرز ، نفاست پسند، درویش منش خطاط کہتے ہیں کہ ’’ شعر میں جس بات پر ہزاروں آدمی مشاعروں میں اچھل اچھل کر داد دیتے ہیں، وہی بات اگر نثر میں کہہ دی جائے تو پولیس تو بعد کی بات ہے ، گھر والے ہی سر پھاڑ ڈالیں۔‘‘
لکھنئو کی زبان:۔
لکھنئو جسے اہلِ لکھنئو اردو میں پیار سے اکثر نکھلئو کہا کرتے ہیں اور مولانا عبد الحلیم شرر ’’ مشرقی تمدن کا آخری نمونہ‘‘ کہتے ہیں ،مرقع، مقفیٰ اور مسجع اردو کا گڑھ رہا ہے۔عبدالحلیم شرر اپنی کتاب میں یوں رقم طراز ہیں۔
’’ عورتوں کی زبان مردوں کے مقابل ہر ملک اور ہر قوم میں زیادہ شستہ اور دلکش ہوتی ہے، مگر لکھنئو میں یہ خاص بات تھی کہ محلات اور محترم خاندان کی معزز بیگموں کی زبان میں علاوہ نسائی دلفریبیوں کے ادبی اور شاعرانہ نزاکتیں پیدا ہوگئی تھیں۔ باتیں کرتیں تو معلوم ہوتا کہ منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں۔ اور غور کیجے تو صحتِ الفاظ پیاری بندشیں اور طرزِ ادا کی نزاکتیں بتاتیں کہ زبان کی خوبیاں اس سرزمین میں کس اعلیٰ کمال کو پہنچ گئی ہیں۔ ‘‘
مزید لکھتے ہیں’’ لکھنئو کے ادنیٰ ادنیٰ لڑکے، بازاری عورتیں ، جاہل دکاندار ، ادنیٰ طبقوں کے اہلِ حرفہ تک ایسی برجستہ پھبتیاں کہہ جاتے ہیں کہ باہر والوں کو حیرت ہوجاتی ہے۔‘‘
لکھنئوی زبان اختیار کرنے میں ایک قباحت جو ہمیں نظر آتی ہے وہ اس زبان کا پر تکلف انداز ہے۔ سلام کرنے کے لیے آداب، تسلیم،بندگی، تسلیمات کے الفاظ اور جھک جھک کر آدھے گھنٹے تک سلام کیے جانا اور پھر تعظیم کے لیے ، حضور، جناب، جنابِ والا،قبلہ، سرکار،حضرت، اعلیٰ حضرت وغیرہ کے الفاظ کچھ مشکل ضرور پیداکریں گے۔ ذرا چشمِ تصور سےنظارہ کیجے کہ بس اسٹاپ پر دو اشخاص ویگن کا گیٹ پکڑے ہوئے ’’ پہلے آپ، پہلے آپ’’ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، اتنے میں کلینز’’ ڈبل ہے استاد، جانے دو‘‘ کی صدا لگاتا ہے اور ویگن چشمِ زدن میں ہوا ہوجاتی ہے۔
دلی کی کرخنداری بان:۔
دلی کی خوبصورت سادہ زبان ، جو سہلِ ممتنع کی مثال کے طور پر بھی پیش کی جاسکتی ہے، جو غالب مومن اورجرأت کی زبان ہےجو اس سادگی اور بے شرمی کے ساتھ درونِ خانہ کی بات کہہ جاتے ہیں کہ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں:۔
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
جو مولوی نذیر احمد، مرزا فرحت اللہ بیگ، شاہد احمد دہلوی اور ملا واحدی کی زبان ہے، جس کے بارے میں ملا واحدی کہتے ہیں۔
’’ میرے زمانے کی دلی میں جیسی خالص اردو وہ لوگ بولتے تھے ، جو پڑھے لکھے نہیں تھے، ویسی خالص اردو پڑھے لکھے نہیں بول سکتے تھے۔ دوسری زبانیں جاننے والے کی زبان پر دوسری زبان کا ایک آدھ لفظ آ ہی جاتا ہے۔‘‘ ( دلی جو ایک شہر تھا۔ ملا واحدی)
قباحت یہ ہے کہ دلی کی زبان اختیار کی تو وہاں کی کرخنداری زبان خود بخود راہ پاجائے گی۔دلی کی کرخنداری زبان اختیار کرنے اور اسے کراچی میں رائج کرنے کی راہ میں کئی دشواریاں حائل ہیں۔ پہلی جن میں جناب خشونت سنگھ کا ناول ’’ دلی’’ ہے، جس کے اندر تو اللہ جانے کیا انگریزی لکھا ہے لیکن اس کا سرورق ہی لوگوں کے اخلاق خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری اور بڑی وجہ خود دلی کی کرخنداری زبان ہے جو کراچی میں رائج ہوگئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ بقول شاعر
زبانِ میر سمجھے اور کلامِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
ذرا تصور تو کیجیے کہ ایک حضرت دوسرے سے فرمارہے ہوں’’ ابے لمڈے ! آریا ہے نہ جاریا ہے۔ کھڑے کھڑے پچھتا ریا ہے‘‘
دوسرے کہتے ہوں۔’’ اجی سنا نہیں! وِن کیاں لمڈا ہوا ہے۔‘‘
پہلے حیرت سے ہوچھیں’’ وِن کیاں یا وِن کی جورو کیاں؟‘‘
میمنی، گجراتی زبان:
یوں تو اس زبان کے بولنے والے بھی بسندِ ِ یوسفی ’ اہلِ زبان‘ کہلائیں گے جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:۔
’’ یوں تو میں بھی اہلِ زبان ہوں، بشرطیکہ زبان سے مراد مارواڑی زبان ہو۔‘‘ ( زر گزشت از مشتاق احمد یوسفی)
جن لوگوں نے میمن اور گجراتی عورتوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ہے ، امید ہے وہ اس تجویز کو سن کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔
پشتو، جر من، ڈچ زبان:۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
پشتو کا سب سے پہلا جملہ جو ہم نے سیکھا تھا وہ یہ تھا’’ پخپلا غورزئی و بے منگتے وئی کہ تا غرزی ( خود گرگیا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے گرایا ہے)
کوئی عرب عربی زبان میں گالیاں دے رہا ہو تب بھی لوگ اسکی تعریف کرتے ہیں کہ کیا خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کررہا ہے اسی طرح کوئی جرمن، ڈچ یا پشتوزبان میں محبوب کی تعریف کررہا ہو تب بھی یہ سمجھا جائے گا کہ وہ گالیاں بک رہا ہے۔ ان زبانوں کو رائج کرنے میں یہی وجہ کافی سمجھی جاسکتی ہے۔
فارسی، فرانسیسی، سرائیکی ، ترکی، ہندکو:۔
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودی اگر بودی زبانِ خوش دہانِ من
یہ وہ خوبصورت اور میٹھی زبانیں ہیں جن کی حلاوت، شیرینی اور مٹھاس ہر سننے والا محسوس کرتا ہے، چاہے وہ اس زبان کو سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو۔ ہم تو بولنے والے کے لب و لہجہ اور شیریں انداز و حلاوت میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ بے اختیار بولنے والے کا منہ چومنا چاہتے ہیں، بشرطیکہ بولنے والا صنفِ نازک سے تعلق رکھتا ہو۔ اور یہی وہ وجہ ہے جو ان زبانوں کے رائج کرنے میں مانع ہوسکتی ہے۔
ہم نے مندجہ بالا بحث میں تمام قابلِ ذکر زبانوں کی اچھائیاں اور نفاذ کی صورت میں ان کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کا احاطہ کیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ امید ہے اس کام کو سراہا جائے گا اور عمرانیات کے اگلے پرچے میں اسے شاملِ نصاب کیا جائے گا۔