محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ابھی لکھنے کو اور بہت کچھ رہ گیا ہے۔ مثلآ بدایوں میں شمع دہلی والوں کا بچوں کا رسالہ ’’کھلونا‘‘ اور میری اس کے ساتھ جذباتی وابستگی۔ ’’کھلونا‘‘ ہمارے گھر ہر مہینے آتا تھا۔ وہ ہمارے بچپن کا بہترین ساتھی تھا۔ اردو پڑھنا ہمیں نہیں آتی تھی، اردو سن کرہی خوش ہوا کرتے۔ جو کوئی بڑا مل جاتا، اسے پکڑ کر بیٹھ جاتے اور ’’کھلونا‘‘ کی کہانیاں ، لطیفے، سفرنامہ، نسطور کی کہانی، میاں فولادی کے کارنامے، رومی کی شرارتیں، اور گھسیٹا کی بھتنا شاہی، سنتے اور ہنس ہنس کر دوہرے ہوجاتے۔ ہندوستان میں ہندی زبان نے زور پکڑلیا ، اردو پڑھنے والے کم رہ گئے، اور کھلونا بھی شایع ہونا بند ہوگیا۔ ’’کھلونا‘‘ دہلی سے شایع ہونا بند تو ہوگیا لیکن میرے ذہن میں ہمیشہ پرنٹ ہوتا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب گھر بار سے ذرا فرصت ملی، اپنے بچے بڑے ہوگئے تو میرا بچپن میرے پاس واپس آگیا۔ دل نے کہا کہ پاکستان کے بچوں کے لیے بھی ایک اسی معیار کا خوبصورت رنگارنگ رسالہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ میں نے ’’سنترہ‘‘ پر کام کرنا شروع کردیا۔ اور دیکھتے دیکھتے اللہ کی مہربانی سے یہ تمام پاکستان کے بچوں کا ہردل عزیز رسالہ بن گیا۔ جب ان بچوں کے ماں باپ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ آپ کے ’’سنترہ‘‘ نے ہمارے بچوں میں اردو پڑھنے کا شوق بیدار کیا ہے تو دل میں سوچتی ہوں کہ ’’سنترہ‘‘ نہیں، اصل میں تو کھلونا کی یہ مہربانی ہے۔ نہ میں کھلونا کو ابھی تک یاد رکھتی، اور نہ ’’سنترہ‘‘ نکالنے کا خیال ہی ذہن میں آتا۔ ہر مہینے جب سنترہ کا نیا شمارہ میرے ہاتھ میں آتا ہے تو میں دوبارہ اپنے بچپن میں چلی جاتی ہوں۔ ہر کہانی کئی کئی مرتبہ پڑھتی ہوں اور دل ہی دل میں ’’کھلونا‘‘ کا شکریہ ادا کرتی ہوں ۔
از عامرہ عالم ( کراچی حلوہ اور بدایوں کے پیڑے)
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ زندہ باد عامرہ آپا۔آپ کی تحریر نے ہمیں بھی کھلونا کی یاد دلادی۔
از عامرہ عالم ( کراچی حلوہ اور بدایوں کے پیڑے)
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ زندہ باد عامرہ آپا۔آپ کی تحریر نے ہمیں بھی کھلونا کی یاد دلادی۔