ایک طرف غربت کی انتہا ہے کہ خواتین چند دنوں کا راشن لینے کے لئے اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتیں۔ تو دوسری طرف یہ بھی المیہ ہے کہ ایسے ارب پتی لوگ جن کی سالانہ لاکھوں کی زکٰوۃ بنتی ہے، وہ اس زکٰوۃ کو نمود و نمائش کے اس غیر منظم اور بے ڈھنگے انداز میں تقسیم کرنے پر تُل جاتے ہیں کہ غرباء کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے ۔ تھوڑے سے لوگوں کو کچھ راشن مل جاتا ہے اور بقیہ لوگ نامراد واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اور اس دھکم پیل میں ایسے حادثات بھی جنم لیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بڑا حادثہ چند سال قبل کراچی پہلے بھی میں پیش آچکا ہے۔
اگر ایسے امیر لوگوں کو صدقات خیرات تقسیم کرنے کا ہنر نہیں آتا تو انہیں چاہئے کہ وہ منظم رفاہی اداروں کی معرفت تقسیم کیا کریں۔ کراچی میں بہت سے ادارے سارا سال غرباء میں راشن اور کھانا تقسیم کرتے ہیں۔ پورے شہر میں جا بجا لنگر کھلے ہوئے ہیں۔ جہاں دو وقت نہایت عمدہ کھانا، انتہائی باعزت طریقہ سے غرباء کو کھلایا جاتا ہے اور کہیں بھی اور کبھی بھی کوئی اس قسم کا ہنگامہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ کاش یہ نام نہاد مخیر حضرات غریبوں کو ان کا حق دیتے ہوئے اس طرح نمود و نمائش کا اہتمام نہ کریں اور تھوڑی سی تکلیف کرکے غریبوں کی بستیوں میں وہاں کے مقامی سماجی کارکن کی معرفت ہی تقسیم اناج کا طریقہ اپنا لیں تو ایسے حادثات کبھی نہ ہوں۔