کراچی - شہر بے مہار -- بی بی سی بلاگ

گرائیں

محفلین
اگر محکمہ پولیس کی ویب سائٹ پر اعتبار کرلیا جائے تو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس افسروں اور جوانوں کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔

ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی کے اس شہر کو قابو میں رکھنے کے لئے تقریباً بارہ ہزار نیم فوجی رینجرز بھی تعینات ہیں۔صوبائی حکومت اپنی پولیس اور ان رینجرز پر سالانہ اٹھائیس ارب روپے کے قریب خرچ بھی کرتی ہے۔

شہر پر کنٹرول رکھنے کے لئے کراچی کو سو سے زائد تھانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔گویا ہر ڈیڑھ لاکھ افراد پر ایک تھانہ ہے۔جبکہ رینجرز نے ساٹھ سے زائد سرکاری عمارات اور میدانوں کو اپنے قیام کے لئے تحویل میں لے رکھا ہے۔

کراچی میں ہی کوسٹ گارڈز کا ہیڈ کوارٹر اور بحریہ کا آپریشنل مرکز بھی ہے۔بری فوج کی پانچویں کور بھی یہیں سے کنٹرول ہوتی ہے۔شہر کے ساٹھ فیصد رقبے کا انتظام چھ کنٹونمنٹ بورڈ کرتے ہیں۔اتنی اہم جگہ ہونے کے ناطے تمام اہم انٹیلی جینس ایجنسیوں کے اہلکاروں کیایک بڑی تعداد بھی کراچی میں تعینات ہے۔

کراچی پشاور کی طرح بھی نہیں ہے کہ اس کےساتھ لاقانونیت آمیز قبائیلی علاقہ لگا ہوا ہو اور مجرم واردات کے بعد پہاڑوں میں چلے جاتے ہوں۔کراچی کوئٹہ کی طرح کا سرحدی شہر بھی نہیں ہے جو منشیات ، اسلحے اور انسانوں کی سمگلنگ کے دوراہے پر واقع ہو۔

کراچی سوات کی طرح اونچے پہاڑوں میں گھری وادی بھی نہیں ہے جہاں امن و امان قائم کرنے کے لئے گن شپ ہیلی کاپٹر ، توپیں یا طیارے استعمال کرنے کی ضرورت ہو۔ایسا بھی نہیں ہےکہ کراچی سے متصل ٹھٹہ، بدین اور دادو کے اضلاع طالبان جیسے گروہوں کا گڑھ ہوں جہاں سے وہ منہ اندھیرے کراچی پر حملے کرنے کے بعد گھنے جنگل یا پہاڑوں میں اپنی کمین گاہوں یا غاروں میں چھپ جاتے ہوں۔

کراچی کو جنوبی سمت سے سمندر نے گھیر رکھا ہے۔اور اس سمندر کو تاحال کسی دھشت گرد نے شہر میں گھسنے کے لئے استعمال نہیں کیا ۔

یہ بھی نہیں کہ کراچی میں داخل ہونے کے معلوم درجن بھر راستوں کے علاوہ سینکڑوں ایسے دشوار گزار یا زیرِ زمین راستے ہوں جو کسی خفیہ سرکاری ادارے سے بھی پوشیدہ ہوں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اتنے بڑے شہر کا کوئی حصہ اس طرح کا نوگو ایریا ہو جہاں پولیس، رینجرز، فوج یا ایجنسیوں کا کوئی اہلکار کبھی بھی داخل نہ ہوسکتا ہو۔

اس سب کے باوجود کراچی میں روزانہ ملک کے کسی بھی علاقے کی نسبت سب سے زیادہ موبائیل فون، موٹر سائکلیں اور گاڑیاں چھنتی ہیں۔نسلی تشدد کی سب سے زیادہ وارداتیں ہوتی ہیں۔سب سے زیادہ ٹارگٹ کلنگز ہوتی ہیں۔پچھلے سات ماہ کے دوران سو سے زائد سیاسی کارکن ہدف بنا کر ہلاک کئے گئے ہیں اور ہلاک کئے جارہے ہیں۔سرکاری ریکارڈاور آزاد میڈیاکے مطابق مرنے والے سب معلوم ہیں مگر مارنے والے سب نامعلوم !!!!

کراچی شہر کے سب سے بڑے پولیس افسر وسیم احمد کے بقول

’ہمارے پاس ان نوجوانوں کی تمام تفصیلات ہیں جو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔مگر سیاسی مصلحتیں اور مجبوریاں ہمیں مشتبہ افراد پر ہاتھ ڈالنے سے روکتی ہیں۔‘

سی سی پی او وسیم احمد کا یہ بیان اس اعلی غزل کی طرح ہے جس کے بعد مشاعرہ ختم ہوجاتا ہے۔

ربط
 

arifkarim

معطل
کسی بھی مجرم کو پکڑ کر سزا دینے سے جرائم میں کمی نہیں آسکتی جب تک جرائم کی جڑ کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ یاد رکھئے کہ ایک مجرم صرف ایک مہرہ ہے، اصل ہاتھ اصل چہرہ ہے!
 

آبی ٹوکول

محفلین
کسی بھی مجرم کو پکڑ کر سزا دینے سے جرائم میں کمی نہیں آسکتی جب تک جرائم کی جڑ کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ یاد رکھئے کہ ایک مجرم صرف ایک مہرہ ہے، اصل ہاتھ اصل چہرہ ہے!
یہ جرائم کی جڑ کیا ہوتی ہے یہ کوئی خودکار قسم کی چیز ہے کیا؟؟؟؟؟؟؟؟ اور اس کو ختم کیسے کیا جاسکتا ہے ؟؟؟؟؟؟ جو اصل چہرہ ہے اس کی خاتمیت کی جو بھی شکل ہوگی اسے کیا کہا جائے گا؟؟؟؟؟
 
Top