کراچی: عیسیٰ نگری کے قریب دھماکا، چودھری اسلم سمیت 4 اہلکار شہید

سید زبیر

محفلین
اور پھر بھی طالبان سے مذاکرات کے حامی کہتے ہیں کہ 'علما ان کو "سمجھائیں" ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سے علما اور کون سے طالبان؟ کیونکہ کچھ لوگوں کے خیال میں اصل طالبان معصوم اور صرف ذرا سا ناراض مزاج رکھتے ہیں۔ باقی سب تو ان کی فیک کاپیاں ہیں جو اصلی معصوم طالبان کے نام کی آڑ لیکر ان کا ریکارڈ خراب کر رہے ہیں۔
لیکن اصل اور معصوم طالبان برملا لاتعلقی کا اعلان کیوں نہیں کرتے ۔ ہر سانحہ کی فورا ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں ۔جیسے کوئی اپنے پراڈکٹ کی تشہیر کر رہا ہو کہ خرید لو ہم سے خود کش حملہ آور یا ٹارگٹ کلنگ کی سپاری ہیمں دو ۔ ہم کام کرکے دکھاتے ہیں ۔وقت نے ساتھ دیا تو جلد ہی ان وزیرستان کے قبائل کے بارے میں اقتباس پیش کروں گا ۔ بے شک قصاص ہی میں بقا ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
لیکن اصل اور معصوم طالبان برملا لاتعلقی کا اعلان کیوں نہیں کرتے ۔ ہر سانحہ کی فورا ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں ۔جیسے کوئی اپنے پراڈکٹ کی تشہیر کر رہا ہو کہ خرید لو ہم سے خود کش حملہ آور یا ٹارگٹ کلنگ کی سپاری ہیمں دو ۔ ہم کام کرکے دکھاتے ہیں ۔وقت نے ساتھ دیا تو جلد ہی ان وزیرستان کے قبائل کے بارے میں اقتباس پیش کروں گا ۔ بے شک قصاص ہی میں بقا ہے
متفق۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت اور درست راستہ دیکھنے اور درست رائے اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
اقتباس کا انتظار رہے گا زبیر انکل۔
 
براہ مہربانی کچھ وضاحت کریں گے ۔۔۔ ؟
پہلے کس کے خلاف تھا ۔ ۔۔۔ ۔؟
اب کس کے خلاف ہوگا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
میرے خیال سے اب متحدہ کے خلاف آپریشن نہیں ہوگا۔ اس شہادت سے ان کو ضرور ریلیف ملے گا۔ یہ میری رائے ہے، آپ کی اس بارے میں کیا سوچ ہے؟ منتظر رہوں گا۔
 

عمراعظم

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون
نہ جانے کیوں دہشت گردوں کو یقین ہے کہ وہ گرفتار اُس وقت ہوں گے جب انہیں مخالفوں سے تحفظ دینا ہو ۔ کم از کم پاکستان میں دہشت گردوں کو پھانسی نہیں ہو سکتی ، جس طرح پہلے تینتیس طالبان رہا کردئیے گئے ۔ اب بھی مذاکرات سے پہلےگرفتار طالبان یا دیگر دہشت گرد یا رہا کردئیے جائینگے یا جیلیں توڑ کر رہا کرالیے جائینگے ۔کسی بھی طرف سے یہ مطالبہ سامنے نہیں آتا کہ جلد از جلد ایسے مجرموں کو جنہیں عدالت سے سزائے موت ہوچکی ہے انہیں سر عام پھانسی دیں ۔ ایمرجنسی نافذ کر کے دہشت گردوں کو جنگی مجرموں کی طرح سمری ملٹری کورٹ کے تحت جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔اگر ڈرون حملوں کے لیے احتجاج کیا جاسکتا ہے تو دہشتگردوں کو سزائے موت دینے کے لیے کیوں دھرنے نہیں دئیے جاسکتے ۔ چند سو آدمیوں کو سزائے موت دینے سے یقینآ ملک اور قوم کو تحفظ حاصل ہوگا ۔
امریکی نواز طالبان سے با قاعدہ جنگ کرنا ہوگی ۔افسوس تو یہہے کہ طالبان سے جنگ ھی ہم امریکی مشاورت ،اور ہدایات کے مطابق کرتے ہیں جب وہ کہتے ہیں انہیں رہا کردو ہم رہا کر دیتے ہیں۔
یعنی اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
یہ جانتے ہوئے کہ جتنا ہماری معیشیت اور خودمختاری کو امریکہ اور اس کے پٹھووں نے پاکستان کو پہنچایا ہے ہم نے امریکی دشمنوں سے جنگ میں جتنا نقصان اٹھایا ہے اگر ہم پاکستان دشمنوں سے جنگ کرتے تو یقینآ آج امن ہوتا ۔
سو فیصد متفق۔
 

نایاب

لائبریرین
میرے خیال سے اب متحدہ کے خلاف آپریشن نہیں ہوگا۔ اس شہادت سے ان کو ضرور ریلیف ملے گا۔ یہ میری رائے ہے، آپ کی اس بارے میں کیا سوچ ہے؟ منتظر رہوں گا۔
گویا آپ اس حملے کو متحدہ کے کھاتے ڈال رہے ہیں ۔۔۔۔؟
حملے کے ذمہ دار اس کی ذمہ داری قبول کر چکے ۔ طالبان کی راہ کا اک سخت و نڈر کانٹا دور ہوگیا ۔۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ
چوہدری صاحب کی شہادت سے کراچی میں سرگرم ہر سیاسی پارٹی سے منسلک دہشت گرد اب کچھ سکون کے ساتھ اپنے دھندے انجام دیں گے ۔
ان پارٹیوں میں ہمہ اقسام مذہبی لسانی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں ۔ چوہدری صاحب بلا تفریق مذہب و سیاست و زبان ہر قسم کے دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے میں مہارت رکھتے تھے ۔
حق تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور دہشت گردوں کو نیست و نابود فرمائے آمین
 
گویا آپ اس حملے کو متحدہ کے کھاتے ڈال رہے ہیں ۔۔۔ ۔؟
حملے کے ذمہ دار اس کی ذمہ داری قبول کر چکے ۔ طالبان کی راہ کا اک سخت و نڈر کانٹا دور ہوگیا ۔۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ
چوہدری صاحب کی شہادت سے کراچی میں سرگرم ہر سیاسی پارٹی سے منسلک دہشت گرد اب کچھ سکون کے ساتھ اپنے دھندے انجام دیں گے ۔
ان پارٹیوں میں ہمہ اقسام مذہبی لسانی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں ۔ چوہدری صاحب بلا تفریق مذہب و سیاست و زبان ہر قسم کے دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے میں مہارت رکھتے تھے ۔
حق تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور دہشت گردوں کو نیست و نابود فرمائے آمین
متحدہ کے کھاتے میں تو میں نے نہیں ڈالا، اگر طالبان ذمہ داری قبول کر چکے ہیں ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن اس حملے میں خودکش سے زیادہ پلانٹڈ بم کا احتمال ہے۔
کیا جس نے بھی ہے فائدہ تو انھیں لوگوں کو پہنچے گا جو کراچی آپریشن پہ چیختے اور ان کے ہمدرد چنگھاڑتے پھر رہے ہیں۔
 

کاشفی

محفلین
1525663_10151988703170528_1209641895_n.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
میں بھی وہی کہہ رہا ہوں بھائی۔۔ Means a lot مجھے بھی بتائیں ناں۔۔انفارمیشن میں اضافہ فرمائیں۔۔پلیز۔:)
عام طور پر فوجی رینک میں پولیس سے بڑے سمجھے جاتے ہیں اور وہ عام طور پر پولیس والوں کے جنازوں پر بھی نہیں آتے۔ لیکن یہاں باوردی فوجی افسر کی موجودگی بتا رہی ہے کہ شہید فوج کے لئے کتنے اہم تھے
 

کاشفی

محفلین
عام طور پر فوجی رینک میں پولیس سے بڑے سمجھے جاتے ہیں اور وہ عام طور پر پولیس والوں کے جنازوں پر بھی نہیں آتے۔ لیکن یہاں باوردی فوجی افسر کی موجودگی بتا رہی ہے کہ شہید فوج کے لئے کتنے اہم تھے
جی سمجھ گیا۔۔بالکل اہم تھے۔
 

کاشفی

محفلین
چوہدری اسلم کی شہادت کا ذمہ دار ایم کیو ایم اور کراچی والوں کو قرار دینے والے غیرمند کے ضد قسم کے لوگوں دیکھو تمہارا طالبان کیا کہتا ہے۔۔۔غیرت ہے تو شرم سے ڈبو چلو بھر پانی میں دہشت گردوں اور دہشت گردوں کے حامیوں۔۔
اللہ رب العزت تم طالبانی سوچ والے دہشت گردوں سے پوری دنیا کو محفوظ کرے۔۔آمین
طالبان اور طالبانی سوچ کے لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔۔اور اللہ رب العزت ان کو ذلیل و رسوا فرما اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔۔آمین۔۔
انہیں برقع پہن کر بھی بھاگنے کا موقع نہ ملے۔۔ان کی گرفت کر میرے مولا یا رب العالمین۔۔آمین۔۔

چوہدری اسلم قتل کیس اندراج اعزازہے،امیر مقام پر حملہ ہم نے کیا،ٹی ٹی پی

TTPShahid_1-13-2014_133937_l.jpg

پشاور… کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے چوہدری اسلم کے قتل کی ایف آئی آر میں طالبان قیادت کی نامزدگی کو اپنا اعزاز قراردیا ہے ۔ کالعدم جماعت کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے سی آئی ڈی کراچی کے افسر چوہدری اسلم کے قتل کی ایف آئی آر میں ملا فضل اللہ اور شاہد اللہ شاہد کا نام شامل ہونا ایک بڑا اعزاز ہے ، کالعدم تحریک طالبان نے اعلامیے میں دیگر پولیس افسران صفوت غیور ، اجمیر شاہ ، ملک سعد، بلال حیدر اور ثنا اللہ نیازی کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری بھی قبو ل کی ہے۔دریں اثناء کالعدم تحریک طالبان نے شانگلہ میں مسلم لیگ ن کے رہنماء امیر مقام پر حملہ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہدنے مسلم لیگ ن کے رہنماء امیر مقام پر حملہ کی ذمہ داری قبول کر تے ہوئے کہاہے کہ حملہ بارودی سرنگ کے ذریعے کیا گیاتاہم اس میں امیر مقام محفوظ رہے۔ شاہد اللہ شاہد نے مزید کہا کہ امیر مقام کو دوبارہ بھی نشانہ بنایاجائے گا۔اتوار کو شانگلہ میں ہونے والے حملے میں چھ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
 

سید زبیر

محفلین
متفق۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت اور درست راستہ دیکھنے اور درست رائے اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
اقتباس کا انتظار رہے گا زبیر انکل۔

بنوں اور افغان سرحد مطبوعہ 1876سے ایک اقتباس
تحریر : برطانوی سول سرونٹ ایس ایس تھوربرن

بنوچی بمقابلہ وزیر:

وزیرہرموسم سرما میں بنوں آتے اور اس دوران میدان کے بنوچی اور پہاڑ کے وزیرکے درمیان جب کبھی جھگڑا ہوتا تو وزیر سب سے سخت وحشی ثابت ہوتے جس کی وجہ سے وہ بنو ں میں خوف اور نفرت کے نام سے جاننے لگے۔ وزیر اپنی لالچی نظریں بنوچیوں کے زمینوں اور ان کی فصلوں پر جمائے ہوئے تھا اورنتیجتاََ زمین کی خواہش اپنی دل میں جگا بیٹھا۔ پس وہ اپنی خواہش کو حاصل کرنے کے لیے ایک خاردار راستے پرچل نکلا، اس نے اپنی دسترس میں علاقہ ٹل کا انتخاب کیا اور جب بنوچی اپنی فصل کی حفاظت کے لیے آتا تو اس کو ایک گولی کی آواز سے خبردار کردیتا۔ بنوچیوں کی تاریخ میں سب سے دلگیر وقت یہ تھا جب تمام ذاتی عداوتیں خاموش تھیں، جیسے بھیڑیوں کے درمیان شیر گھس آیا ہو، ایک کے بعدایک ملک کو لوٹا جارہا تھا۔

اس صورت حال پر دو عظیم غونڈیوں نے اتحاد کیا اور آپس کے تفرقات کو ایک طرف ڈالا اور اس قومی المیہ پر ایک اعلیٰ کونسل کی مجلس بلائی گئی۔یہ وقت تھا جنگ کا اور بھر پور طریقے سے لڑنے کا ، لیکن یہ جارح اپنی جڑیں مضبوط کر چکے تھے بعض لوگ جنگ کرنے کی بات اٹھا رہے تھے لیکن ان دو غونڈیوں کے چیف اپنی طاقت جانتے تھے جو پوری وادی میں بیس ہزار جوان بھی اکٹھے نہیں کرسکتے تھے۔ ایک طرف ان کے پڑوسی ’داوڑ ‘انہیں مدد دینے سے گھبراتے تھے کیونکہ ان کی چھوٹی سی وادی بنوں کے بجائے وزیری پہاڑوں کے بہت قریب تھی اور دوسری جانب مروت ، جو وزیر سے کم مخالف نہیں تھے ۔اس کے مقابلے میں وزیرتنہا ہی چالیس ہزار جنگجو بلا سکتے تھے ۔ لیکن حسب معمول جنگ کی کونسل امن کے نفاذ پر اختتام پذیر ہوئی لیکن ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وزیر قبیلے سے نہیں لڑیں گے مگر انفرادی طور پر ان کو بندوق اور چاقو سے تنگ کریں گے اور ان کی آبادی اور کاشت کو مشکل بنادیں گے۔ لیکن وہ وزیری مزاج کے بارے میں بہت کم جانتے تھے اور سب سے پہلے ہی دشمنانہ عمل پر ایک خونخوار اور خوفناک جُھنڈ امڈ آیا ، پہلے صرف ایک کھیت ہی گیاتھا اب ایک گھربھی اجڑ گیا اور اس طرح کی کوششیں دونوں اطراف سے جاری تھیں ، وزیر کی پیش قدمی اور بنوچیوں کی مزاحمت، وزیر بدلے پہ بدلے لے رہے تھے اور بنوچی نا امیدی میں دست بردار ہوررہے تھے ۔ اور آخر کار ایک حد پر آکرسب کچھ رک گیا۔ دونوں اطراف پہ لوگ تھک گئے تھے۔بہت کم وزیر وں نے کاشت اور کھیتی باڑی کا سوچا جبکہ زیادہ تر اس بات پر مصر تھے کہ کچھ رقم مصالحت کے لیے مقرر کردی جائے جو کہ اگرچہ کم ہو مگر نہ ہونے سے تو بہتر ہے۔ وزیرجارحوں نے بنوچیوں کے طرز کی قبضہ شدہ زمین پر قلعے تعمیر کیے اور بہت جلددریائے کُرم کے بائیں طرف پر عمدہ قطعہ کے مالک بن گئے۔ بنوچیوں کے ساتھ انہوں نے کبھی میل ملاپ نہیں کیا نہ شادیوں میں ، نہ مذ ہبی رسومات میں اور نہ عام زندگی کے دوسرے شعبوں میں۔ بنوچی ان سے کیسے زیادہ مغرور ہوسکتے ہیں جن کی نسل کوہ سفید کے برف کی طرح خالص تھی جبکہ ان کی نسل مختلف رنگ کے خون کا آمیزہ تھا۔ مغرور، محب وطن اور آپس میں متحد، اپنے طور طریقوں سے سادہ مزاج اور بھولے لیکن انجان لوگوں کے لیے مہمان نواز اور اپنے مہمان کے لیے قوت اور کرپشن میں راست گو ، احمد زئی وزیر ان لوگوں سے بے تعلق رہتے ہیں جن پر انہوں نے ظلم کیا، ان کے سکھ در اندازوں کے خلاف غیر متحد کوششیں، ان کی آپس میں دھوکے بازیاں اور ان کی آ پس کی لڑائیاں جن کی وجہ سے قدرت کی طرف سے عطا کی گئی یہ وادی دوزخ میں بدل گئی۔

میں وزیروں کے اس خاکہ کو اس بات کے بیان کیے بغیر کیے مکمل نہیں کر سکتا کہ وزیری قبیلے کے احمد زئی شاخ نے تو ٹل کو مشرقی جانب سے قبضہ میں لیا اور شمال کے پہاڑوں میں بھی۔ پس ان کے ہم وطن بھی ان کے پیچھے پیچھے مغربی پہاڑوں سے نیچے آئے اور’دریائے ٹوچی‘ کے کنارے براجمان ہوئے، کاشت کے لیے ایک فرضی سا ٹکڑا لیا اور قریب کے ’میری‘ گاؤں کے بنوچی مالکوں سے محفوظ ہونے کے لیے چند قلعے تعمیر کیے۔

قاری کو بنوں کے چار طبقوں سے اب روشناس کرادیا گیا ہے جو کہ بنوں کی آبادی بنا تے ہیں جن میں دوغلے اور شیطان بنوچی کاشتکار شامل ہیں جن پرمَلکوں کی شیطانی حکومت قائم ہے اور گروہوں میں تقسیم کی وجہ سے ان کے حقوق پامال ہوئے، لالچی سید اور مذہبی درویش جو کہ ان توہم پرست لوگوں کا خون چوس رہے ہیں، کمینے ہندو سوداگر جو اس غرض سے کم درجے کی زندگی گزار رہے ہیں کہ اپنے مسلمان حاکموں کو دھوکہ دے سکیں اور لوگوں کے کاموں میں ٹانگ اَڑانے والے وزیری آدھے چرواہے، آدھے زراعت پیشہ ، قانون سے کلی طور پرنا آشنا لیکن پھر بھی صفات اور خوبیوں سے کنگال نہیں۔

اس تصویر کو مکمل کرنے کے لیے ان کو انکے اونچی دیواروں والے قلعوں میں تصور کرنے کی ضرورت ہے، وزیر باہر، بنوچی اور سید اپنے ہندو ایجنٹ کے ہمراہ بنوں کے خاص مرکز میں، سب ایک دوسرے کو ہوشیاری سے بد نیتی سے دیکھتے ہیں اور یہ اپنے مفادات کے لحاظ سے طبقوں میں تقسیم ہیں جن کی وجہ سے باہر سے آنے والے خطرات ان کو دکھائی نہیں دیتے، وہ خطرہ جو کہ سکھوں کی فوج کی شکل میں آرہا ہے جس کی کمان ایک برطانوی افسر کے ہاتھ میں ہے۔
 
Top