آجکل کی بنی اسرائیل تو اپنے ناخنوں سے کچھ خاص کام نہیں لے سکتی۔ کیا پچھلے 4000 سال میں اسقدر انقلابی جینیاتی تبدیلیاں رونما ہو گئی ہیں؟
کچھ باتیں یقینا تحقیق طلب ہیں اور کوئی عالم دین ہی اس کا جواب دے سکتا ہے۔۔۔
میں وحی قرآنی کا منکر نہیں، ان آیات کے غیرفطری، حقیقت سے کوسوں دور نکالے جانے والے مطالب اور تصورات کا منکر ہوں۔ ہم اپنے بچوں کو جو جنات کی تصویر پیش کرتے ہیں اسمیں کس قدر سچائی ہے کیا اسپر غیرجانبدارانہ اور آزادانہ تحقیق کی ہے کسی عالم دین نے؟ اگر ہم 1400 سال بعد بھی اس جدید ٹیکنالوجی کے دور سے گزرنے کیساتھ بھی ان جنات جیسی غیر مرئی مخلوقات کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو پھر خرابی ہمارے تصورات میں ہے نہ کہ جنات کے وجود میں۔
جیسے ہمارے ہاں پسماندہ علاقوں میں یہ تصور عام ہے کہ ہر عجیب و غریب ذہنی بیماری کو جنات کی شکل دے کر مشہور کر دیا جاتا ہے کہ جنات کی کاروائی ہے یا کالا علم کر دیا گیا ہے وغیرہ۔ اگر یہی بیماری کسی غیر اسلامی ملک میں کسی انسان کو ہو تو وہ اسے ذہنی امراض کے معالج کے پاس لیجاتے ہیں جو کافی حد تک اسکا جدید علاج کر سکتے ہیں۔ بغیر کسی بیماری کی تشخیص کئے ہر ناقابل بیان ذہنی مرض کو جنات کا کارنامہ کہنا جہالت کی نشانی ہے۔
آپ کے تاثرات ، جو آپ نے پیش کیے ہیں، ان سے محسوس کچھ ایسا ہوتا ہے کہ آپ وحی کے منکر نہ بھی ہوں تو اپنے طرز گفتگو کے حساب سے غیر محتاط ضرور ہیں۔ اب جو بات آپ نے لکھی ہے، وہ بہت حد تک معقول بھی ہے اور سمجھ میں بھی آتی ہے، تاہم اس میں بھی اختلافی باتیں بہت سی ہیں۔۔۔ آپ کا یہ کہنا کہ کوئی عالم دین غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیق جنات کے بارے میں کرے، انتہائی ناقابل عمل سی بات ہے۔۔۔ جہاں تک مادی چیزوں کا تعلق ہے تو اس پر سائنس بھی تحقیق کرسکتی ہے اور مجھ جیسا عام شخص بھی باآسانی بہت سی چیزوں کے بارے میں تحقیق کرکے کوئی نہ کوئی نتیجہ نکال سکتا ہے۔۔۔ لیکن جنات، فرشتے اور نظر نہ آنے والی مخلوقات پر تحقیق کی بھی جائے اور اس کانتیجہ بھی برآمد ہو تو اسے ماننے کے لیے ہر ایک شخص کو وہ تحقیق پہلے خود کرکے دیکھنا ہوگی۔۔۔ آپ کہتے ہیں خرابی ہمارے تصورات میں ہے کہ ہم جنات جیسی مخلوقات کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔۔۔ یہ تصور کی نہیں، علم کی بات ہے اور یہ علم آپ کو سائنس نہیں دے سکتی۔۔ سائنس مادے سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ ۔غیر مرئی مخلوقات پر تحقیق کے لیے ایک دوسری قسم کے علم کی ضرورت ہے۔۔ ویسے تو سائنس کا مطلب بھی علم ہی ہے، لیکن اس پر مادیت پرستی کی چھاپ غالب ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
لہٰذا ہم علم حاصل کرکے تنقید محض نہیں کرتے، بلکہ جو کچھ خدا اور اس کی کتاب کہتی ہے، اس پر یقین کرلیتے ہیں۔ہاں، یہ سمجھنا کہ خدا کی کتاب میں جو الفاظ بیان ہوئے ہیں، ان کا مطلب کیا ہے، اس کے لیے ہمیں علمائے دین کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔۔۔ وہ ہمیں یہی سمجھاتے ہیں کہ فرشتے، جنات اور غیبی مخلوقات جتنی بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں، وہ تحقیق کے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔۔۔ اگر کبھی آئیں تو ہم بھی دیکھ کر یقین کر لیں گے۔ ہم تو ہیں ہی جاہل مطلق اور تحقیق سے آنکھیں چرانے والے قدامت پرست لوگ۔۔۔لیکن پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ نے اب تک کون سی ترقی کی ہے؟ کون سا ایسا غیر مرئی مخلوق کو جانچنے اور پرکھنے کا آلہ ایجاد کر لیا جسے ہم استعمال کرکے ان مخلوقات کا پتہ لگانے سے انکار کر رہے ہیں؟
ہر نئی چیز پہلے ناقابل قبول ہوا کرتی ہے، جیسے کچھ جاہلوں نے یہ ماننے سے ہی انکار کردیا تھا کہ چاند پر کوئی قدم رکھ سکتا ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے یہ کفر ہے۔ لیکن جو حقیقت ہے وہ تو ماننی ہی پڑتی ہے۔۔ جب سورج نکلتا ہے تو سب کو علم ہوجاتا ہے کہ صبح ہوچکی ہے۔۔۔
رہی بات مرگی اور دوسرے امراض جو ظاہرا جنات کا اثر معلوم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جاہل لوگ گمراہ ہو کر مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں تو یہ تو ان لوگوں کی جہالت ہے۔۔۔ اب آپ اس کی وجہ سے یہ کہنا شروع کردیں کہ کوئی جن ہے ہی نہیں یا جن عالم دین نہیں ہوسکتا یا پھر اس کی عمر آٹھ سو سال نہیں ہوسکتی تو اس میں قصور تو آپ کا ہے۔۔۔ جو شخص آپ کو یہ جن کا قصہ سنا رہا ہے، اس سے ثبوت مانگیں گے تو کوئی آلہ تو ہے نہیں جس کی مدد سے آپ سچ اور جھوٹ کا پتہ چلا سکیں۔۔۔ پھر آپ کیا کریں گے؟ میرا خیال ہے آپ کوئی ایسا آلہ ایجاد کر نے کے بارے میں سوچیں گے جس سے یہ پتہ چلایاجاسکے، جب آپ ایسا کرلیں گے پھر ہم بھی سوچیں گے آپ کتنے با عمل مسلمان ہیں اور ہم کتنے بے عمل اور جاہل ہیں کہ ہر بات کا یقین کر لیتے ہیں۔ حالانکہ میں نے صرف Neutral رہنے کی بات کی تھی، جہاں تک مجھے یاد ہے۔۔۔ خواہ مخواہ ہر بات کو مان لینا بھی درست نہیں ہے لیکن خوامخواہ انکار بھی کیوں کیا جائے؟ انکار کی بھی کوئی ٹھوس وجہ ہونا ضروری ہے۔۔۔