سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 24 نومبر، 2015
کراچی میں ایم کیو ایم کا ہلکا پھلکا مقابلہ
تحریر: سید انور محمود
سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقارمرزا نے پیپلز پارٹی کی گزشتہ سندھ حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے شہرت پائی۔ آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو دبائو میں لانے کےلیے اُنہیں وزارت داخلہ سونپی لیکن ذوالفقارمرزا نے کراچی کے حالات کو بہت زیادہ بگاڑ دیا۔انہوں نے ایم کیو ایم کی مبینہ عسکریت پسندی ختم کرنے کےلیے رحمان ڈکیت جیسے لوگ آگے بڑھائے، لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار عزیر بلوچ کو استعمال کیا۔ اسلحے کے ڈیڑھ لاکھ لائسنس جاری کئے۔ ذوالفقار مرزا نے لیاری پر جو کمال مہربانی کیا آج لیاری میں رہنے والے اُس کی بھرپور قیمت ادا کررہے ہیں۔ پیپلز امن کمیٹی یا لیاری گینگ وار سے پہلےکراچی کے مہاجروں اور بلوچوں میں کوئی تنازع نہیں تھا۔ لیاری عزیر بلوچ اور اس کے گروپ کے ہاتھوں میں چلا گیا اور پیپلز پارٹی آج تک اس علاقے میں سنبھل نہیں سکی۔ پیپلز پارٹی کو پیپلز امن کمیٹی یا لیاری گینگ وار نے اُسے اس کے مضبوط گڑھ لیاری سے نکال باہر کیا ۔
حالیہ بلدیاتی انتخات میں پہلا اور دوسرا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے جس میں پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نےاورسندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نےواضع اکثریت حاصل کی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات سے پیپلز پارٹی کا زوال شروع ہوا۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی سمٹ کر صوبہ سندھ کے دہی علاقوں تک محدود ہوگئی جبکہ شہری سندھ کی نمایندگی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کرتی ہے۔ آصف زرداری کی حالیہ غلط سیاست کا خمیازہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں بھگتنا پڑا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کے دوست ڈاکٹر ذوالفقارمرزا نےپیپلز پارٹی کے لاڑکانہ کے بعد مضبوط ترین گڑھ بدین میں واضع اکثریت حاصل کرکے بدین سے پیپلز پارٹی کا راج ختم کردیا ہے۔ دوسری طرف کراچی میں پیپلز پارٹی کو لیاری میں اپنی انتخابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عمران خان نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی کامیابی کا سن کر فوراً ٹیلی فون پر ذوالفقار مرزا کو اپنی جانب سے مبارکباد دی۔ دونوں کی جلدہی ملاقات ہوگی۔ عمران خان کو سندھ میں ذوالفقار مرزا جیسی شخصیت کی ضرورت ہے، کیونکہ دونوں ہی جارحیت پسند ہیں، زرداری اور ایم کیو ایم کے بد ترین مخالف ہیں اور دونوں کو ہی میڈیا میں زیادہ رہنے کا شوق ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا شاید آگے چل کر عمران خان کی دعوت پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلیں۔
پنجاب اور سندھ میں دوسرے نمبر پر آزاد امید وار جیتے ہیں ، یہ بے پیندے کے لوٹے ہوتے ہیں جو اکثریت کی طرف لڑھک جاتے ہیں۔ اُسکے بعدپنجاب میں تحریک انصاف تیسرے نمبر پر جبکہ سندھ میں صرف آٹھ سیٹوں پر اُسکے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ عمران خان نے ابھی تک ایک مرتبہ بھی دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ لیکن اُن کے تازہ تازہ دوست ذوالفقار مرزا اور سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے اُنکی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے نتائج کو کالعدم قرار دینے اور نئے انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ آیئے کراچی چلتے ہیں جہاں 5 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کا تیسرا بڑا معرکہ ہوگا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی اہمیت دیگر شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ میٹروپولیٹن شہر بھی ہے اور کاسمو پولیٹن بھی، یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات جیتنے کیلئے اپنے مشہور ومعروف رہنماوں کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، جس کی کسی جماعت سے کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی ہے اور وہ اپنی کامیابی کےلیے پر امید ہے۔ "آوُ بدلیں اپنا کراچی" کے نعرہ کے ساتھ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے آپس میں اتحاد کرکے 85فیصد نشستوں پر سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اس اتحاد کا کہنا ہے کراچی کو اُس کا کھویا ہو ا مقام واپس دلوائے گا اور شہر کو ایک بار پھر امن و محبت کا گہوارہ بنا یا جائے گا۔مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کے رہنما آفاق احمد جن کے بارئے میں جولائی 2011ء میں اُس وقت کےسینئر صوبائی وزیر ڈاکٹر ذوالفقارمرزانے کہا تھا کہ مہاجر قوم کا حقیقی لیڈر آفاق احمد ہے۔ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کے سند یافتہ مہاجروں کے حقیقی لیڈر آفاق احمد کو خوف لاحق ہےکہ کچھ قوتیں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحاد کو کراچی پر مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی بظاہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے۔عوامی نیشنل پارٹی بھی کراچی کے ہونے والے اگلے ناظم میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری یونس خان بونیری نے کہا ہے کہ پنجاب کے بلدیاتی الیکشن میں مسترد شدہ عناصر اب کراچی میں اپنی کامیابی کے لیے بے ساکھیاں تلاش کر رہے ہیں۔
دوسرئے مرحلے کے انتخابات ہوچکے ہیں جس میں پیپلز پارٹی کو بدین سے بدترین شکست ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی نے پنجاب سے دو اور سندھ سے ایک بھی نشت حاصل نہیں کی ہے، اپنے مرکز منصورہ میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ 31 اکتوبر کو پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جماعت اسلامی کےدو رہنمائوں لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کے بیٹوں نے دوسرے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑا۔ عمران خان ابھی تک 2013ء کے عام انتخابات سے باہر ہی نہیں آرہے جب تحریک انصاف نے شہر سے تقریباً8 لاکھ ووٹ لیےتھے۔ تحریک انصاف کے مقامی رہنما خود کو حاصل ہونےوالی حمایت کو بروئے کار نہیں لاسکے اور کلفٹن، ڈیفنس کے علاوہ کہیں اور اپنے ووٹرز تک نہیں پہنچے۔ عمران خان گزشتہ کئی سالوں سے الطاف حسین پر تنقید کررہے ہیں اور انہیں یقین تھاکہ الطاف حسین کی مقبولیت ختم ہوچکی ہے، تاہم ایم کیو ایم نے 19 نومبرکو حیدرآباد اور میرپور خاص کے انتخابات میں کلین سوئپ کیا۔ یقیناً اس پر عمران خان حیران ضرور ہوئے ہونگے، اس سے پہلے این اے 246کے نتائج نے انہیں حیران کردیا تھا۔ انتخابات کےدوسرے مرحلے کے بعد ایم کیوایم کے کارکنان اور رہنما تیسرئے مرحلے کےلیےتحریک انصاف کے مقابلے میں زیادہ پراعتماد ہیں۔
جماعت اسلامی کو پہلے اوردوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں شرمناک ناکامی کے بعداپنے آپ کو بلدیاتی انتخابات سے علیدہ کرلینا چاہیے تھا، 1970ء کے انتخابات سے لیکر آجتک سوائے جنرل ضیاءالحق اورجنرل پرویز مشرف کے جتوائے ہوئے انتخابات میں کامیابی کے جماعت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے، لیکن اس کے رہنما سب سے پہلے دھاندلی کی شکایت کرتے ہیں جیسے این اے 246کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی لیکن امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے دھاندلی دھاندلی کا شور مچایا ہوا تھا۔ کراچی کے حوالے سے عبدالستار افغانی 1979ءسے 1987ء تک آٹھ سال کراچی کے دو مرتبہ میر رہے، اُنکو میر بنوانے میں جنرل ضیاء الحق کی مہربانی تھی، ایم کیو ایم کا وجود نہیں تھا اور دوسری کوئی بڑی سیاسی جماعت نہیں تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے 2000ء میں بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات کرائے، ان انتخابات کا ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان شہر کے پہلے ناظم منتخب ہوئے۔
اب جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق کا فرمانا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کامیاب ہوگئی، ضرور ہو پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا مقصد انتخابات میں کامیابی کا حصول ہے تاکہ وہ ملک کو اپنے منشور اور نظریے کے مطابق چلائے۔ لیکن جناب ابھی تو تیسرئے مرحلے کےکراچی کے بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی ہے، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کے مطابق اُن کی جماعت نے اس کے علاوہ جمیعت علما اسلام فضل الرحمان اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی بعض نشستوں پر سیٹ ایڈجسمنٹ کی ہے۔ باظاہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں صرف ایک ہی مضبوط پارٹی ایم کیو ایم ہے جسکا ہلکا پھلکا مقابلہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد سے ہوگا۔ سیاست کا میدان بہت بے رحم ہوتا ہے، اس میں فتح ہوتی ہے یا شکست ہوتی ہے۔ اخلاقی فتح اور اخلاقی شکست کے فضول چونچلے اور کھوکھلے نعرے دوسروں کو کم اور اپنے آپ کو زیادہ دھوکہ دینے کیلئے ہی لگائے جا سکتے ہیں، اس لیے ہارنے والی جماعتوں سے یہ درخواست ہے کہ سیدھے سیدھے اپنی ہار کو تسلیم کریں اور خود کو اپنے آپ سے دھوکا کھانے سے بچایں۔
کراچی میں ایم کیو ایم کا ہلکا پھلکا مقابلہ
تحریر: سید انور محمود
سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقارمرزا نے پیپلز پارٹی کی گزشتہ سندھ حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے شہرت پائی۔ آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو دبائو میں لانے کےلیے اُنہیں وزارت داخلہ سونپی لیکن ذوالفقارمرزا نے کراچی کے حالات کو بہت زیادہ بگاڑ دیا۔انہوں نے ایم کیو ایم کی مبینہ عسکریت پسندی ختم کرنے کےلیے رحمان ڈکیت جیسے لوگ آگے بڑھائے، لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار عزیر بلوچ کو استعمال کیا۔ اسلحے کے ڈیڑھ لاکھ لائسنس جاری کئے۔ ذوالفقار مرزا نے لیاری پر جو کمال مہربانی کیا آج لیاری میں رہنے والے اُس کی بھرپور قیمت ادا کررہے ہیں۔ پیپلز امن کمیٹی یا لیاری گینگ وار سے پہلےکراچی کے مہاجروں اور بلوچوں میں کوئی تنازع نہیں تھا۔ لیاری عزیر بلوچ اور اس کے گروپ کے ہاتھوں میں چلا گیا اور پیپلز پارٹی آج تک اس علاقے میں سنبھل نہیں سکی۔ پیپلز پارٹی کو پیپلز امن کمیٹی یا لیاری گینگ وار نے اُسے اس کے مضبوط گڑھ لیاری سے نکال باہر کیا ۔
حالیہ بلدیاتی انتخات میں پہلا اور دوسرا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے جس میں پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نےاورسندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نےواضع اکثریت حاصل کی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات سے پیپلز پارٹی کا زوال شروع ہوا۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی سمٹ کر صوبہ سندھ کے دہی علاقوں تک محدود ہوگئی جبکہ شہری سندھ کی نمایندگی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کرتی ہے۔ آصف زرداری کی حالیہ غلط سیاست کا خمیازہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں بھگتنا پڑا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کے دوست ڈاکٹر ذوالفقارمرزا نےپیپلز پارٹی کے لاڑکانہ کے بعد مضبوط ترین گڑھ بدین میں واضع اکثریت حاصل کرکے بدین سے پیپلز پارٹی کا راج ختم کردیا ہے۔ دوسری طرف کراچی میں پیپلز پارٹی کو لیاری میں اپنی انتخابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عمران خان نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی کامیابی کا سن کر فوراً ٹیلی فون پر ذوالفقار مرزا کو اپنی جانب سے مبارکباد دی۔ دونوں کی جلدہی ملاقات ہوگی۔ عمران خان کو سندھ میں ذوالفقار مرزا جیسی شخصیت کی ضرورت ہے، کیونکہ دونوں ہی جارحیت پسند ہیں، زرداری اور ایم کیو ایم کے بد ترین مخالف ہیں اور دونوں کو ہی میڈیا میں زیادہ رہنے کا شوق ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا شاید آگے چل کر عمران خان کی دعوت پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلیں۔
پنجاب اور سندھ میں دوسرے نمبر پر آزاد امید وار جیتے ہیں ، یہ بے پیندے کے لوٹے ہوتے ہیں جو اکثریت کی طرف لڑھک جاتے ہیں۔ اُسکے بعدپنجاب میں تحریک انصاف تیسرے نمبر پر جبکہ سندھ میں صرف آٹھ سیٹوں پر اُسکے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ عمران خان نے ابھی تک ایک مرتبہ بھی دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ لیکن اُن کے تازہ تازہ دوست ذوالفقار مرزا اور سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے اُنکی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے نتائج کو کالعدم قرار دینے اور نئے انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ آیئے کراچی چلتے ہیں جہاں 5 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کا تیسرا بڑا معرکہ ہوگا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی اہمیت دیگر شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ میٹروپولیٹن شہر بھی ہے اور کاسمو پولیٹن بھی، یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات جیتنے کیلئے اپنے مشہور ومعروف رہنماوں کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، جس کی کسی جماعت سے کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی ہے اور وہ اپنی کامیابی کےلیے پر امید ہے۔ "آوُ بدلیں اپنا کراچی" کے نعرہ کے ساتھ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے آپس میں اتحاد کرکے 85فیصد نشستوں پر سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اس اتحاد کا کہنا ہے کراچی کو اُس کا کھویا ہو ا مقام واپس دلوائے گا اور شہر کو ایک بار پھر امن و محبت کا گہوارہ بنا یا جائے گا۔مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کے رہنما آفاق احمد جن کے بارئے میں جولائی 2011ء میں اُس وقت کےسینئر صوبائی وزیر ڈاکٹر ذوالفقارمرزانے کہا تھا کہ مہاجر قوم کا حقیقی لیڈر آفاق احمد ہے۔ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کے سند یافتہ مہاجروں کے حقیقی لیڈر آفاق احمد کو خوف لاحق ہےکہ کچھ قوتیں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحاد کو کراچی پر مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی بظاہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے۔عوامی نیشنل پارٹی بھی کراچی کے ہونے والے اگلے ناظم میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری یونس خان بونیری نے کہا ہے کہ پنجاب کے بلدیاتی الیکشن میں مسترد شدہ عناصر اب کراچی میں اپنی کامیابی کے لیے بے ساکھیاں تلاش کر رہے ہیں۔
دوسرئے مرحلے کے انتخابات ہوچکے ہیں جس میں پیپلز پارٹی کو بدین سے بدترین شکست ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی نے پنجاب سے دو اور سندھ سے ایک بھی نشت حاصل نہیں کی ہے، اپنے مرکز منصورہ میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ 31 اکتوبر کو پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جماعت اسلامی کےدو رہنمائوں لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کے بیٹوں نے دوسرے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑا۔ عمران خان ابھی تک 2013ء کے عام انتخابات سے باہر ہی نہیں آرہے جب تحریک انصاف نے شہر سے تقریباً8 لاکھ ووٹ لیےتھے۔ تحریک انصاف کے مقامی رہنما خود کو حاصل ہونےوالی حمایت کو بروئے کار نہیں لاسکے اور کلفٹن، ڈیفنس کے علاوہ کہیں اور اپنے ووٹرز تک نہیں پہنچے۔ عمران خان گزشتہ کئی سالوں سے الطاف حسین پر تنقید کررہے ہیں اور انہیں یقین تھاکہ الطاف حسین کی مقبولیت ختم ہوچکی ہے، تاہم ایم کیو ایم نے 19 نومبرکو حیدرآباد اور میرپور خاص کے انتخابات میں کلین سوئپ کیا۔ یقیناً اس پر عمران خان حیران ضرور ہوئے ہونگے، اس سے پہلے این اے 246کے نتائج نے انہیں حیران کردیا تھا۔ انتخابات کےدوسرے مرحلے کے بعد ایم کیوایم کے کارکنان اور رہنما تیسرئے مرحلے کےلیےتحریک انصاف کے مقابلے میں زیادہ پراعتماد ہیں۔
جماعت اسلامی کو پہلے اوردوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں شرمناک ناکامی کے بعداپنے آپ کو بلدیاتی انتخابات سے علیدہ کرلینا چاہیے تھا، 1970ء کے انتخابات سے لیکر آجتک سوائے جنرل ضیاءالحق اورجنرل پرویز مشرف کے جتوائے ہوئے انتخابات میں کامیابی کے جماعت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے، لیکن اس کے رہنما سب سے پہلے دھاندلی کی شکایت کرتے ہیں جیسے این اے 246کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی لیکن امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے دھاندلی دھاندلی کا شور مچایا ہوا تھا۔ کراچی کے حوالے سے عبدالستار افغانی 1979ءسے 1987ء تک آٹھ سال کراچی کے دو مرتبہ میر رہے، اُنکو میر بنوانے میں جنرل ضیاء الحق کی مہربانی تھی، ایم کیو ایم کا وجود نہیں تھا اور دوسری کوئی بڑی سیاسی جماعت نہیں تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے 2000ء میں بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات کرائے، ان انتخابات کا ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان شہر کے پہلے ناظم منتخب ہوئے۔
اب جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق کا فرمانا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کامیاب ہوگئی، ضرور ہو پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا مقصد انتخابات میں کامیابی کا حصول ہے تاکہ وہ ملک کو اپنے منشور اور نظریے کے مطابق چلائے۔ لیکن جناب ابھی تو تیسرئے مرحلے کےکراچی کے بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی ہے، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کے مطابق اُن کی جماعت نے اس کے علاوہ جمیعت علما اسلام فضل الرحمان اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی بعض نشستوں پر سیٹ ایڈجسمنٹ کی ہے۔ باظاہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں صرف ایک ہی مضبوط پارٹی ایم کیو ایم ہے جسکا ہلکا پھلکا مقابلہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد سے ہوگا۔ سیاست کا میدان بہت بے رحم ہوتا ہے، اس میں فتح ہوتی ہے یا شکست ہوتی ہے۔ اخلاقی فتح اور اخلاقی شکست کے فضول چونچلے اور کھوکھلے نعرے دوسروں کو کم اور اپنے آپ کو زیادہ دھوکہ دینے کیلئے ہی لگائے جا سکتے ہیں، اس لیے ہارنے والی جماعتوں سے یہ درخواست ہے کہ سیدھے سیدھے اپنی ہار کو تسلیم کریں اور خود کو اپنے آپ سے دھوکا کھانے سے بچایں۔