شاہد شاہنواز
لائبریرین
پیشے کے اعتبار سے میں ایک کمپیوٹر آپریٹر ہوں۔
دوسرے شہروں کا معلوم نہیں لیکن کراچی میں آج کل میٹرک کر کے طلباء خود ہی کسی کالج میں ایڈمیشن نہیں لے سکتے بلکہ اسے ایک ادارے SECCAP کے تحت کر دیا گیا ہے۔ یہ ادارہ ہی طلباء سے ایک فارم بھروا کر ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس طالب علم کا داخلہ کس کالج میں ہوگا۔ فارم آن لائن ہیں اور زہادہ تر لوگ فارم بھرنا نہیں جانتے۔ بہت سے طلبا خود یہ کام کر بھی لیتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو ہماری ضرورت پڑ جایا کرتی ہے۔ SECCAP کے ان فارمز کے سلسلے میں بہت سے طلباء و طالبات سے بات چیت کا موقع ملا۔ اس عمل کو ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ آن لائن فارم کیسے بھریں، ان کی ضروریات (REQUIREMENTS) کیسے پوری کریں وغیرہ۔ میں نہیں جانتا کہ اس عمل کو آن لائن کرنے سے طلباء کو کیا فائدہ یا نقصان ہوا ہے، تاہم کچھ عجیب سی باتوں کا علم ہوا جو میں کراچی کے پڑھے ہوئے طلباء و طالبات کے بارے میں آج آپ سے شیر کروں گا۔۔۔
1) میٹرک کرکے آنے والے بہت سے طلباء (طالبات کم، طلباء زیادہ) ۔۔ یہ نہیں جانتے کہ جس بورڈ سے وہ میٹرک کرکے آئے ہیں، اس کا نام بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی ہے۔ وہ اسے سندھ بورڈ کہتے ہیں۔ جبکہ سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ایک الگ بورڈ ہے اور اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ ٹیکنیکل ایجوکیشن دیتا ہے۔
2) طلباء کو یہ علم نہیں کہ انہوں نے میٹرک کا امتحان جو دیا تھا وہ سالانہ تھا یا سپلیمنٹری ۔ 2014ء میں دیا تھا یا 2013ء لکھنا چاہئے ۔۔
3) وہ یہ نہیں جانتے کہ میٹرک جو انہوں نے کیا تھا وہ جنرل گروپ سے تھا یعنی آرٹس یا پھر سائنس سے؟
4) انہیں یہ معلوم نہیں کہ سائنس گروپ میں انہوں نے کس مضمون میں کتنے نمبر لیے تھے۔ یہ دیکھنے کے لیے انہیں اسناد کا معائنہ کرنا پڑتا ہے۔ خیر یہ کوئی زیادہ پریشانی والی بات نہیں۔ تاہم میں ابھی ابھی میٹرک کرکے نکلا ہوں تو مجھ جیسے شخص کے لیے یہ شرم کی بات ضرور ہے۔ میں ذاتی طور پر اسے غلط سمجھتا ہوں، آپ اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔
5) طلباء کو معلوم نہیں، اور بہت سے والدین بھی یہ نہیں جانتے کہ جہاں وہ رہتے ہیں وہ کراچی کا کون سا ڈسٹرکٹ اور کون سا ٹاؤن ہے۔ یہ ہم انٹرنیٹ پر جا کر دیکھتے اور پھر طے کرتے ہیں۔ ہمیں وکی پیڈیا (آن لائن ویب سائٹ )بتاتی ہے کہ گلشن اقبال کراچی کے کس ضلعے میں ہے اور یہ کہ کوئی شخص اگر ایف بی ایریا میں رہتا ہے تو اس کے ٹاؤن کی جگہ گلبرگ لکھنا چاہئے یا کچھ اور؟
6) مجھے یاد نہیں کہ میں نے کسی طالب علم کا میٹرک رول نمبر پوچھا ہو اور اس نے فوری طور پر مجھے بتا دیا ہو کہ اس کا یہ رول نمبر تھا۔ یہ بھی وہ اپنے ایڈمٹ کارڈ سے دیکھتےتھے۔
درج بالا تمام معلومات محض میرے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہیں۔ جب آپ تحقیق کرتے ہیں تو اس کا اصول بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر آپ ایک شہر کے بارے میں بتانا چاہیں کہ اس کے لوگ کیسے ہیں تو سب ہی لوگوں کا انٹرویو لینا ایک احمقانہ بات ہوگی۔ آپ کو چاہئے کہ کچھ لوگ اپنی مرضی سے منتخب کریں اور ان سے بات چیت کرکے اپنے تاثرات بیان کریں۔ تو درج بالا تمام افراد میرے پاس ذاتی طور پر آئے تھے اور انہیں دیکھ کر میں سخت کوفت اور تشویش کا شکار ہوں کہ ہمارے طلباء کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے؟ وہ کیا پڑھ رہے ہیں اور آگے جا کر کیا بنیں گے؟ کون سا ادارہ ہوگا جو ایسے افراد کو نوکری پر رکھے گا۔ کس حال میں ان کی زندگیاں گزریں گی اور کس قسم کا مستقبل ان کا انتظار کر رہا ہے؟
واضح رہے کہ یہ منفی مشاہدات محض میٹرک کرکے آنے والے طلباء کے ہیں۔ زیادہ تر طالبات کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ آج کل ایک اور ادارے NTS کے ذریعے وہ طلباء جنہوں نے انٹر سائنس پاس کر لیا ہے اور اب ایم بی بی ایس کے لیے JSMU یعنی جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی یا پھر Dowمیڈیکل یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا چاہتے ہیں، ان کے فارمز بھرے جارہے ہیں۔ این ٹی ایس کا فارم الگ ہے، جے ایس ایم یو کا الگ اور Dow کا الگ ۔ یوں تین فارم بھر کر دو یونیورسٹیز میں داخلے کا امیدوار بننا ہوتا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ اب جو انٹر سائنس کرکے طالبات ہمارے پاس آ رہی ہیں، ان کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ زیادہ تر باتیں انہیں زبانی یاد ہوتی ہیں اور یہی ایک طالب علم یا طالبہ کا معیار ہونا چاہئے ۔۔۔ کم از کم میرا یہی خیال ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ آپ کو اس سے کتنا اتفاق یا اختلاف ہے ۔۔۔ جو آپ کو معلوم ہو یا جو آپ کی رائے ہو، ضرور لکھئے ۔۔
دوسرے شہروں کا معلوم نہیں لیکن کراچی میں آج کل میٹرک کر کے طلباء خود ہی کسی کالج میں ایڈمیشن نہیں لے سکتے بلکہ اسے ایک ادارے SECCAP کے تحت کر دیا گیا ہے۔ یہ ادارہ ہی طلباء سے ایک فارم بھروا کر ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس طالب علم کا داخلہ کس کالج میں ہوگا۔ فارم آن لائن ہیں اور زہادہ تر لوگ فارم بھرنا نہیں جانتے۔ بہت سے طلبا خود یہ کام کر بھی لیتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو ہماری ضرورت پڑ جایا کرتی ہے۔ SECCAP کے ان فارمز کے سلسلے میں بہت سے طلباء و طالبات سے بات چیت کا موقع ملا۔ اس عمل کو ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ آن لائن فارم کیسے بھریں، ان کی ضروریات (REQUIREMENTS) کیسے پوری کریں وغیرہ۔ میں نہیں جانتا کہ اس عمل کو آن لائن کرنے سے طلباء کو کیا فائدہ یا نقصان ہوا ہے، تاہم کچھ عجیب سی باتوں کا علم ہوا جو میں کراچی کے پڑھے ہوئے طلباء و طالبات کے بارے میں آج آپ سے شیر کروں گا۔۔۔
1) میٹرک کرکے آنے والے بہت سے طلباء (طالبات کم، طلباء زیادہ) ۔۔ یہ نہیں جانتے کہ جس بورڈ سے وہ میٹرک کرکے آئے ہیں، اس کا نام بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی ہے۔ وہ اسے سندھ بورڈ کہتے ہیں۔ جبکہ سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ایک الگ بورڈ ہے اور اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ ٹیکنیکل ایجوکیشن دیتا ہے۔
2) طلباء کو یہ علم نہیں کہ انہوں نے میٹرک کا امتحان جو دیا تھا وہ سالانہ تھا یا سپلیمنٹری ۔ 2014ء میں دیا تھا یا 2013ء لکھنا چاہئے ۔۔
3) وہ یہ نہیں جانتے کہ میٹرک جو انہوں نے کیا تھا وہ جنرل گروپ سے تھا یعنی آرٹس یا پھر سائنس سے؟
4) انہیں یہ معلوم نہیں کہ سائنس گروپ میں انہوں نے کس مضمون میں کتنے نمبر لیے تھے۔ یہ دیکھنے کے لیے انہیں اسناد کا معائنہ کرنا پڑتا ہے۔ خیر یہ کوئی زیادہ پریشانی والی بات نہیں۔ تاہم میں ابھی ابھی میٹرک کرکے نکلا ہوں تو مجھ جیسے شخص کے لیے یہ شرم کی بات ضرور ہے۔ میں ذاتی طور پر اسے غلط سمجھتا ہوں، آپ اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔
5) طلباء کو معلوم نہیں، اور بہت سے والدین بھی یہ نہیں جانتے کہ جہاں وہ رہتے ہیں وہ کراچی کا کون سا ڈسٹرکٹ اور کون سا ٹاؤن ہے۔ یہ ہم انٹرنیٹ پر جا کر دیکھتے اور پھر طے کرتے ہیں۔ ہمیں وکی پیڈیا (آن لائن ویب سائٹ )بتاتی ہے کہ گلشن اقبال کراچی کے کس ضلعے میں ہے اور یہ کہ کوئی شخص اگر ایف بی ایریا میں رہتا ہے تو اس کے ٹاؤن کی جگہ گلبرگ لکھنا چاہئے یا کچھ اور؟
6) مجھے یاد نہیں کہ میں نے کسی طالب علم کا میٹرک رول نمبر پوچھا ہو اور اس نے فوری طور پر مجھے بتا دیا ہو کہ اس کا یہ رول نمبر تھا۔ یہ بھی وہ اپنے ایڈمٹ کارڈ سے دیکھتےتھے۔
درج بالا تمام معلومات محض میرے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہیں۔ جب آپ تحقیق کرتے ہیں تو اس کا اصول بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر آپ ایک شہر کے بارے میں بتانا چاہیں کہ اس کے لوگ کیسے ہیں تو سب ہی لوگوں کا انٹرویو لینا ایک احمقانہ بات ہوگی۔ آپ کو چاہئے کہ کچھ لوگ اپنی مرضی سے منتخب کریں اور ان سے بات چیت کرکے اپنے تاثرات بیان کریں۔ تو درج بالا تمام افراد میرے پاس ذاتی طور پر آئے تھے اور انہیں دیکھ کر میں سخت کوفت اور تشویش کا شکار ہوں کہ ہمارے طلباء کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے؟ وہ کیا پڑھ رہے ہیں اور آگے جا کر کیا بنیں گے؟ کون سا ادارہ ہوگا جو ایسے افراد کو نوکری پر رکھے گا۔ کس حال میں ان کی زندگیاں گزریں گی اور کس قسم کا مستقبل ان کا انتظار کر رہا ہے؟
واضح رہے کہ یہ منفی مشاہدات محض میٹرک کرکے آنے والے طلباء کے ہیں۔ زیادہ تر طالبات کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ آج کل ایک اور ادارے NTS کے ذریعے وہ طلباء جنہوں نے انٹر سائنس پاس کر لیا ہے اور اب ایم بی بی ایس کے لیے JSMU یعنی جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی یا پھر Dowمیڈیکل یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا چاہتے ہیں، ان کے فارمز بھرے جارہے ہیں۔ این ٹی ایس کا فارم الگ ہے، جے ایس ایم یو کا الگ اور Dow کا الگ ۔ یوں تین فارم بھر کر دو یونیورسٹیز میں داخلے کا امیدوار بننا ہوتا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ اب جو انٹر سائنس کرکے طالبات ہمارے پاس آ رہی ہیں، ان کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ زیادہ تر باتیں انہیں زبانی یاد ہوتی ہیں اور یہی ایک طالب علم یا طالبہ کا معیار ہونا چاہئے ۔۔۔ کم از کم میرا یہی خیال ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ آپ کو اس سے کتنا اتفاق یا اختلاف ہے ۔۔۔ جو آپ کو معلوم ہو یا جو آپ کی رائے ہو، ضرور لکھئے ۔۔