40 سالہ فریدہ بی بی آٹھ بچوں کی ماں ہیں اور نارتھ کراچی کی ایک کچی آبادی میں ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہیں۔
پچھلے ہفتے ان کے سُسر 70 سالہ یوسف علی شدید گرمی کی وجہ سے دم توڑ گئے۔
’پہلے انہیں بخار چڑھا، ٹنکی میں پانی گرم تھا۔انہوں نے گرم پانی سے ہی نہا لیا اور اوپر جا کے سوگئے، پھر بچوں نے جا کے دیکھا تو وہ اپنی حالت میں ہی نہیں تھے۔‘
فریدہ نے بتایا کہ ان کے سُسر کو ہسپتال میں داخل کیا گیا مگر اگلے دن انہوں نے دم توڑ دیا۔
کراچی میں حکام کے مطابق پچھلے دنوں شدید گرمی کے باعث ساڑھے 12 سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور اب تک یہ سوال کیا جا رہا کہ چند دنوں میں اتنی بڑی تعداد میں انسانی اموات کیسے ہوگئیں؟
جہاں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ اور صحت کی نامناسب سہولیات کو اموات میں اضافے کی اہم وجوہات قرار دیا جا رہا ہے وہیں صحت کے حکام اور ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا ایک سبب کراچی کی بہت بڑی آبادی کا طرز رہائش بھی ہے۔
فریدہ کے شوہر سلیم بے روزگار ہیں اور وہ دوسروں کے گھروں پر کام کاج کر کے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔ جس بستی میں رہتی ہیں وہ چونکہ غیرقانونی طور پر آباد ہوئی ہے اس لیے وہاں نہ بجلی ہے نہ پانی۔ ایسے میں شدت کی گرمی نے قیامت ڈھا دی۔
’اموات کو روکنے کے لیے پرانی اور نئی کچی آبادیوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے‘
’بجلی بالکل بھی نہیں ہوتی ہے یہاں اور گرمی اتنی ہوتی ہے کہ یہ دیکھو ہم سارا دن بچوں کو ننگا رکھتے ہیں۔ باہر بھی لال بیگ گھوم رہے ہوتے ہیں، گٹروں کی بدبو آتی ہے۔ نہ باہر سکون ہے نہ گھر میں سکون ہے۔ ساری رات ایسے ٹہل ٹہل کے گزارتے ہیں کبھی روڈ پہ جاتے ہیں کہ یہاں سے ہوا لگے تو کبھی میدان میں جاتے ہیں کہ وہاں سے ہوا لگے۔‘
حکومت سندھ کے مطابق 21 سے 30 جون کے درمیان شدید گرمی سے متاثرہ 65 ہزار سے زیادہ لوگ کراچی کے ہسپتالوں میں لائے گئے جن میں سے 1250 سے زیادہ ہلاک ہوگئے۔
کراچی میں واقع جناح ہسپتال پاکستان کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے۔ جناح اسپتال کے شعبہ حادثات کی نگراں ڈاکٹر سیمیں جمالی نے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں میں گرمی سے متاثرہ پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 40 فیصد سے زیادہ لوگ مردہ حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے مگر بیشتر افراد میں ایک چیز یکساں تھی۔
پچھلے دنوں شدید گرمی کے باعث ساڑھے 12 سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے
’ان میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو بڑی عمر کے تھے جنہیں مختلف عارضے لاحق تھے اور یہ زیادہ تر کم آمدنی والے لوگ تھے جو چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے تھے، گنجان آباد تنگ علاقوں میں رہنے والے لوگ۔ یہ ایسے لوگ نہیں تھے کہ جو بڑی بڑی عمارتوں یا کھلے علاقوں میں رہتے ہوں۔‘
ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی کی نصف آبادی، لگ بھگ ایک کروڑ لوگ، بغیر منصوبہ بندی کے بننے والی تنگ گلیوں اور چھوٹے چھوٹے مکانوں پر مشتمل بستیوں میں رہتی ہے۔
کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کے آرکٹکچر اینڈ پلاننگ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر نعمان احمد کہتے ہیں کہ شہر میں کچی آبادیاں تو نئی بات نہیں مگر آبادی کے مسلسل دباؤ نے ان بستیوں میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا ہے۔
’شروع میں جب یہ آبادیاں قائم ہوئی تھیں تو ان میں ایک گراؤنڈ سٹوری مکانات تھے لیکن جیسے جیسے آبادی کا دباؤ بڑھا تو پھر انہی مکانات پر کئی کئی منزلہ عمارتیں بنیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ 45 سے 60 مربع گز کی جگہ پر کئی کئی منزلہ عمارتیں بن گئی ہیں جن میں ہر منزل پر ایک کمرہ اور اس کے ساتھ باتھ روم اور کچن ہوتا ہے۔
’اور اس میں اوسطاً آٹھ سے بارہ لوگ رہائش پذیر ہوتے ہیں اور ان عمارتوں کی تعمیر میں چونکہ کسی بھی قسم کے تعمیراتی معیار اور ضابطوں کا خیال نہیں رکھا جاتا لہذٰا اس کے جو اندرونی رہائشی حالات ہوتے ہیں وہ بہت ہی ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔ شدید گرمی میں جب نہ ہوا ہو نہ بجلی تو یہ مکانات موت کے جال بن جاتے ہیں۔‘
حکومت سندھ کے مطابق 21 سے 30 جون کے درمیان شدید گرمی سے متاثرہ 65 ہزار سے زیادہ لوگ کراچی کے ہسپتالوں میں لائے گئے
ڈاکٹر نعمان احمد نے کہا کہ شہر کی آبادی میں اضافہ زیادہ تر کم آمدنی والے طبقات میں ہو رہا ہے اس لیے موسم کی شدت یا دوسری قدرتی آفات سے ہونے والی اموات کو روکنے کے لیے پرانی اور نئی کچی آبادیوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’اور نئی آبادیاں جو بن رہی ہیں جو شہر کے مضافاتی علاقوں میں ہیں وہاں پر بھی اب یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بات کا اندازہ لگائیں کہ کم آمدنی والے طبقات کی رہائشی ضروریات کو ہم بہتر انداز میں کیسے پورا کر سکتے ہیں اور کیسے ان کے لیے ایسی سہولتیں پیدا کر سکتے ہیں جس سے ان کے رہنے کا ماحول سازگار ہو سکے۔‘
گرمی پر تو کسی کا زور نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا سینکڑوں افراد کی موت کے بعد حکومت نے یہ سوچنا شروع کیا ہے کہ کراچی کے غریب علاقوں کو بنیادی سہولتوں اور شہر میں نئی بستیوں کی تعمیر کو منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔