کراچی میں گرمی کی سنگین صورتحال ۔۔۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ حکومتی سطح پر دو معاملات کی کوتاہی رہی۔
1- عوام کو وقت سے پہلے غیر معمولی موسمی تبدیلی سے آگاہ کرنا جو محکمہ موسمیات کی ذمہ داری تھی۔
2- ان ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے ہسپتالوں وغیرہ میں طبی امداد کے مناسب انتطامات۔
تیسرا بھی شامل کرلیں کہ عوام کو بھی توبہ تلہ کرنی چاہیے
 

زبیر مرزا

محفلین
عزیزم زبیر مرزا, کے خیال میں گرمی میں اضافہ درختوں کمی کی وجہ سے ہے۔
سر شجرکاری کے ذریعے موسم پرمثبت اثرڈالا جاسکتاہے - کراچی میں جس تیزی سے درخت کم ہورہے اس کا مشاہدہ تو کوئی بھی عام آدمی کرسکتاہے
درخت لگانا ایک عملی کام ہے جبکہ سازشیں تلاش کرنا دانشوری لہذا ہم عام آدمی ہیں اور دانشوری ہمارے بس کی بات نہیں :) یہ بات قطعی طنزیہ طورپرنہیں کہہ رہا-
الف نظامی یہاں آپ کا تبصرہ بنتا ہے
 
’گرمی کی لہر کی وجہ جاننا ضروری ہے‘
نوین سنگھ کھڈکا بی بی سی نیوز، لندن
  • 26 جون 2015
150622182210_karachi_640x360_afp_nocredit.jpg

کراچی میں گرمی کی شدت سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے
پاکستانی اور بھارتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں گرمی کی حالیہ شدید لہر میں بلند درجۂ حرارت صرف ایک عنصر ہے اور باقی عوامل کا تعین ہونا باقی ہے۔
اِن ماہرین کے مطابق ہوا کا کم دباؤ، بہت زیادہ نمی اور ہوا کا خلافِ معمول بند ہونا وہ اہم عوامل تھے جن کے یکجا ہوجانے کی وجہ سے گرمی ناقابل برداشت ہوگئی تھی لیکن ایک ساتھ یہ عوامل مئی اور جون میں کیسے یکجا ہوئے، یہ جاننا ابھی باقی ہے۔
پاکستانی ماہرینِ موسمیات کے مطابق کراچی میں گذشتہ ہفتے گرمی کی لہر کے عروج پر زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت کی پیش گوئی 43 ڈگری سینٹی گریڈ کی تھی جو درست ثابت ہوئی لیکن باقی دوسرے عوامل کے مل جانے سے گرمی ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔
گذشتہ 30 برسوں کی گرمی کی اس شدید ترین لہر میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ بھارت میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2000 لوگ ہلاک ہوئے ہیں لیکن گرمی سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 3000 سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
پاکستان میں محکمۂ موسمیات یعنی نیشنل ویدر فورکاسٹنگ سینٹر کے ڈائریکٹر محمد حنیف کے مطابق اصل درجۂ حرارت اور اُس کی شدت کے فرق کو گرمی کا انڈیکس کہا جاتا ہے جس کی رو کراچی میں درجۂ حرارت انچاس ڈگری جیسا محسوس ہو رہا تھا۔
150623111507_pakistan_heatwave_640x360_getty_nocredit.jpg

بھارت میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2000 لوگ ہلاک ہوئے ہیں
محمد حنیف کے بقول انڈیکس کے زیادہ ہونے کی وجہ ہوا کا کم دباؤ اور فضا میں بہت زیادہ نمی تھی۔ جون کے مہینے میں انتہائی خلاف معمول ہوا کے اِس بہت کم دباؤ نے سمندر کی طرف سے چلنے والی ہوا کو بالکل بند کردیا جس سے گرمی ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔
بھارتی سائنسدان بھی خلاف معمول موسمیاتی حالات کا بغور مشاہدہ کررہے ہیں۔
انڈین محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ایل ایس راٹھور کا کہنا ہے کہ ساحلی علاقوں میں شام کے وقت سمندری ہوا چلنے سے انسانی جسم پر گرمی کے اثرات کم ہوجاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس سال ایسا نہیں ہوا بلکہ پورے خطے میں گرمی بڑھتی ہی رہی۔
ایک اور ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹیورولوجی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے شعبے کے سربراہ آر کرشنن کہتے ہیں کہ موسمی حالات کی محدود توجیہہ ہی کی جا سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ فضا میں ہوائی لہروں میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث گرمی کئی روز تک جاری رہی۔لیکن اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ موسمیاتی لہروں میں تبدیلی کی وجوہات معلوم نہیں ہیں جن کی وجہ سے گرمی برقرار ہے۔
کراچی میں گرمی کے تناظر میں محد حنیف کا کہنا تھا کہ بحیرۂ عرب میں بننے والا ہوا کا کم دباؤ جب نچلی فضا میں آیا تو اُس کے باعث 43 ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت49 تک محسوس کیا گیا جبکہ اس کے برعکس پاکستان کے بعض دوسرے علاقوں میں درجۂ حرارت 47 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا لیکن وہ 41 ڈگری تک محسوس ہو رہا تھا کیونکہ وہاں ہوا کا دباؤ زیادہ تھا اور نمی بھی کم تھی۔
150622181947_heatwave_in_karachi_640x360_afp_nocredit.jpg

محمد حنیف کے بقول اِس برس جو کراچی میں دیکھا گیا وہ اب جنوبی ایشیا کے کئی علاقوں میں کئی برسوں سے تواتر سے دیکھا جا رہا ہے لیکن اِس اچانک تبدیلی کی درست وجہ معلوم نہیں ہے نہ ہی علاقائی طور پر اِس حوالے سے کوئی مربوط کام شروع ہوا ہے۔
آر کرشنن بھی اِس بات سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ اِس پورے موسمیاتی عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا خاص اِس وقت ہی کیوں ہوا ہے۔
سائنسدانوں کے بقول عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں نے یقیناً گرمی کی لہر کو بڑھایا ہے اور یہ اسی طرح ہو رہا ہے جیسے شدید موسم کے دوسرے مظاہر مثلاً سیلاب، خشک سالی، جنگلات میں لگنے والی آگ، شدید برفباری وغیرہ۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کا بین الحکومتی پینل پہلے ہی یہ خبردار کرتا رہا ہے کہ اِن تبدیلیوں کے اثرات گرمی کی زیادہ شدت کی صورت میں جنوبی ایشیا میں زیادہ ہوں گے۔
اور اِس کی وجہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے کے مشیر برائے ایشیا قمر زمان چودھری کے بقول یہ ہے کہ یہ موسمیاتی مظہر سمندری طوفانوں اور سیلاب وغیرہ کے بہ نسبت آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اُن کے بقول خطے میں گرمی کی لہر کا معاملہ بھی یہی رہاہے۔
 
40 سالہ فریدہ بی بی آٹھ بچوں کی ماں ہیں اور نارتھ کراچی کی ایک کچی آبادی میں ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہیں۔
پچھلے ہفتے ان کے سُسر 70 سالہ یوسف علی شدید گرمی کی وجہ سے دم توڑ گئے۔
’پہلے انہیں بخار چڑھا، ٹنکی میں پانی گرم تھا۔انہوں نے گرم پانی سے ہی نہا لیا اور اوپر جا کے سوگئے، پھر بچوں نے جا کے دیکھا تو وہ اپنی حالت میں ہی نہیں تھے۔‘
فریدہ نے بتایا کہ ان کے سُسر کو ہسپتال میں داخل کیا گیا مگر اگلے دن انہوں نے دم توڑ دیا۔
کراچی میں حکام کے مطابق پچھلے دنوں شدید گرمی کے باعث ساڑھے 12 سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور اب تک یہ سوال کیا جا رہا کہ چند دنوں میں اتنی بڑی تعداد میں انسانی اموات کیسے ہوگئیں؟
جہاں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ اور صحت کی نامناسب سہولیات کو اموات میں اضافے کی اہم وجوہات قرار دیا جا رہا ہے وہیں صحت کے حکام اور ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا ایک سبب کراچی کی بہت بڑی آبادی کا طرز رہائش بھی ہے۔
فریدہ کے شوہر سلیم بے روزگار ہیں اور وہ دوسروں کے گھروں پر کام کاج کر کے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔ جس بستی میں رہتی ہیں وہ چونکہ غیرقانونی طور پر آباد ہوئی ہے اس لیے وہاں نہ بجلی ہے نہ پانی۔ ایسے میں شدت کی گرمی نے قیامت ڈھا دی۔
150703200631_karachi_housing_factor_640x360_bbc.jpg

’اموات کو روکنے کے لیے پرانی اور نئی کچی آبادیوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے‘
’بجلی بالکل بھی نہیں ہوتی ہے یہاں اور گرمی اتنی ہوتی ہے کہ یہ دیکھو ہم سارا دن بچوں کو ننگا رکھتے ہیں۔ باہر بھی لال بیگ گھوم رہے ہوتے ہیں، گٹروں کی بدبو آتی ہے۔ نہ باہر سکون ہے نہ گھر میں سکون ہے۔ ساری رات ایسے ٹہل ٹہل کے گزارتے ہیں کبھی روڈ پہ جاتے ہیں کہ یہاں سے ہوا لگے تو کبھی میدان میں جاتے ہیں کہ وہاں سے ہوا لگے۔‘
حکومت سندھ کے مطابق 21 سے 30 جون کے درمیان شدید گرمی سے متاثرہ 65 ہزار سے زیادہ لوگ کراچی کے ہسپتالوں میں لائے گئے جن میں سے 1250 سے زیادہ ہلاک ہوگئے۔
کراچی میں واقع جناح ہسپتال پاکستان کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے۔ جناح اسپتال کے شعبہ حادثات کی نگراں ڈاکٹر سیمیں جمالی نے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں میں گرمی سے متاثرہ پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 40 فیصد سے زیادہ لوگ مردہ حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے مگر بیشتر افراد میں ایک چیز یکساں تھی۔
150629134558_karachi_heatwave_deaths_640x360_ap_nocredit.jpg

پچھلے دنوں شدید گرمی کے باعث ساڑھے 12 سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے
’ان میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو بڑی عمر کے تھے جنہیں مختلف عارضے لاحق تھے اور یہ زیادہ تر کم آمدنی والے لوگ تھے جو چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے تھے، گنجان آباد تنگ علاقوں میں رہنے والے لوگ۔ یہ ایسے لوگ نہیں تھے کہ جو بڑی بڑی عمارتوں یا کھلے علاقوں میں رہتے ہوں۔‘
ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی کی نصف آبادی، لگ بھگ ایک کروڑ لوگ، بغیر منصوبہ بندی کے بننے والی تنگ گلیوں اور چھوٹے چھوٹے مکانوں پر مشتمل بستیوں میں رہتی ہے۔
کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کے آرکٹکچر اینڈ پلاننگ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر نعمان احمد کہتے ہیں کہ شہر میں کچی آبادیاں تو نئی بات نہیں مگر آبادی کے مسلسل دباؤ نے ان بستیوں میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا ہے۔
’شروع میں جب یہ آبادیاں قائم ہوئی تھیں تو ان میں ایک گراؤنڈ سٹوری مکانات تھے لیکن جیسے جیسے آبادی کا دباؤ بڑھا تو پھر انہی مکانات پر کئی کئی منزلہ عمارتیں بنیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ 45 سے 60 مربع گز کی جگہ پر کئی کئی منزلہ عمارتیں بن گئی ہیں جن میں ہر منزل پر ایک کمرہ اور اس کے ساتھ باتھ روم اور کچن ہوتا ہے۔
’اور اس میں اوسطاً آٹھ سے بارہ لوگ رہائش پذیر ہوتے ہیں اور ان عمارتوں کی تعمیر میں چونکہ کسی بھی قسم کے تعمیراتی معیار اور ضابطوں کا خیال نہیں رکھا جاتا لہذٰا اس کے جو اندرونی رہائشی حالات ہوتے ہیں وہ بہت ہی ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔ شدید گرمی میں جب نہ ہوا ہو نہ بجلی تو یہ مکانات موت کے جال بن جاتے ہیں۔‘
150624022335_sindh_heat_karachi_640x360_epa_nocredit.jpg

حکومت سندھ کے مطابق 21 سے 30 جون کے درمیان شدید گرمی سے متاثرہ 65 ہزار سے زیادہ لوگ کراچی کے ہسپتالوں میں لائے گئے
ڈاکٹر نعمان احمد نے کہا کہ شہر کی آبادی میں اضافہ زیادہ تر کم آمدنی والے طبقات میں ہو رہا ہے اس لیے موسم کی شدت یا دوسری قدرتی آفات سے ہونے والی اموات کو روکنے کے لیے پرانی اور نئی کچی آبادیوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’اور نئی آبادیاں جو بن رہی ہیں جو شہر کے مضافاتی علاقوں میں ہیں وہاں پر بھی اب یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بات کا اندازہ لگائیں کہ کم آمدنی والے طبقات کی رہائشی ضروریات کو ہم بہتر انداز میں کیسے پورا کر سکتے ہیں اور کیسے ان کے لیے ایسی سہولتیں پیدا کر سکتے ہیں جس سے ان کے رہنے کا ماحول سازگار ہو سکے۔‘
گرمی پر تو کسی کا زور نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا سینکڑوں افراد کی موت کے بعد حکومت نے یہ سوچنا شروع کیا ہے کہ کراچی کے غریب علاقوں کو بنیادی سہولتوں اور شہر میں نئی بستیوں کی تعمیر کو منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
 
مجھے اس تحریر میں موجود بعض نقطوں سے ایک عینی گواہ ہونے کی حثیت سے اعتراض ہے۔
اس کے علاوہ مجھے لگتا ہے کہ بعض باتیں یا تو جلدی میں تحریر ہو گئی ہیں کہ پوری توجہ اور "ہوم ورک" کی کمی نظر آتی ہے ۔ بس میں اس سے زیادہ بدگمان ہونا نہیں چاہتا ۔ ورنہ میں اس حادثے میں "عوام" ہی کو موردِ الزام ٹھرانے کے فلسفے سے متفق نہیں ہوں۔
 
آخری تدوین:
لئیق احمد بھائی، نارتھ کراچی کا نقشہ گوگل پر دیکھا جا سکتا ہے ربط یہ ہے
اولین بات تو یہ ہے کہ میری ناقص رائے میں نارتھ کراچی میں کوئی "کچی آبادی" موجودہی نہیں ۔ دوسری اہم بات یہ کہ چالیس اور ساٹھ گز کے مکانات یہاں نہ ہونے کے برابر ہیں ، پھر یہاں ایسی عمارتیں بھی نہیں ہیں جن کو اموات کی اولین وجہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔
 
Top