آہ! ایک بار پھر۔
بارہ مئی کو میں کراچی میں تھا اور ایم کیو ایم کی درندگی کو خود فیس کرچکا تھا جبکہ میرا دوست شجاع مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر درندوں کی گولی کی نذر ہوکر ہماری نظروں سے ہمیشہ کے لیے دور ہوگیا۔ آج میں کراچی میں نہیں لیکن اس تکلیف کا اندازہ ہے۔ ایک تکلیف تو یوں ہوتی ہے کہ معصوموں پر ستم ہورہا ہے دوسری تکلیف یوں کہ اگلے ہی دن قاتل پریس کانفرنس کرتے ہیں اور الزام کسی اور پر ڈال دیتے ہیں۔ کوئ میڈیا کوئ انصاف پسند کوئ زندہ دل ایسا نہیں جو اس ستم پر کھل کر اظہار کرسکے۔ سب ایم کیو ایم سے ڈرتے ہیں۔ اخبارات کے کالم نویس اور میڈیا کے تجزیہ نگار جن کی لمبی لمبی زبانیں ہر غیر اہم موضوع پر تقریریں کرتی پھرتی ہیں وہ بھی ڈرتے ہیں۔ بزدل
ایک ہماری محفل ہے یہاں بھی بہت سے لوگوں کو یہ ستم نظر نہیں آتا۔ کہاں ہیں مہوش؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم عوامی طاقت ہے؟ عوامی طاقت؟ اگر عوامی طاقت اسی کو کہتے ہیں تو یا اللہ تو ایسی عوامی طاقت کو زمین میں دفن کردے۔