کراچی کا یہودی قبرستان!

arifkarim

معطل
کراچی کا یہودی قبرستان
431742-JavedChaudhryNew-1452707816-616-640x480.JPG

میں پچھلے سال جنوری کے مہینے میں پولینڈ کے شہر کراکوف میں تھا، یہ دوسری جنگ عظیم تک یہودیوں کا شہر کہلاتا تھا، شہر میں یہودیوں کے سیناگوگ بھی تھے، اسکول بھی، قبرستان بھی اور بازار بھی۔پولینڈ 17ستمبر1939 کو سوویت یونین کے قبضے میں چلا گیا، ہٹلر نے 1941 میں پولینڈ فتح کیا تو وارسا کے ساتھ ساتھ کراکوف کے یہودیوں پر بھی برا وقت آگیا، یہ لوگ گیس چیمبر میں ڈال کر مار دیے گئے یا پھر برقی بھٹیوں میں زندہ جلا دیے گئے اور جو بچ گئے وہ نظر بندی کیمپوں کی نذر ہو گئے، کراکوف شہر کا یہودی علاقہ ان مظالم کی ایک ضخیم کتاب ہے، وارسا اور کراکوف آہنی پردے کے پیچھے چھپ گئے۔
1991 میں جب سوویت یونین ٹوٹا تو پولینڈ آزاد ہو گیا، پولینڈ نے 1994 میں اپنا ملک سیاحوں کے لیے کھول دیا، یہ اعلان دنیا بھر کے ان یہودیوں کے لیے خوش خبری ثابت ہوا جن کے والدین دوسری جنگ عظیم کے دوران پولینڈ سے فرار ہو گئے تھے، یہ لوگ دھڑا دھڑ وارسا اور کراکوف آنے لگے، آج اسرائیل، امریکا، ماسکو اور یورپ سے روزانہ درجنوں فلائیٹس اس شہر میں آتی ہیں اور کراکوف سے بچھڑے یہودی شہر کی گلیوں میں دیوانہ وار پھرتے ہیں، کراکوف شہر کا ایک حصہ ’’جیوش کوارٹرز‘‘ کہلاتا ہے، اس حصے میں یہودیوں کے ریستوران، بارز اور کلب ہیں، یہاں چوبیس گھنٹے پولیس اور فوج کا پہرہ رہتا ہے، میں روزانہ حلال گوشت کی تلاش میں اس علاقے میں چلا جاتا تھا، یہودی اسلامی طریقے سے ذبح کرتے ہیں، یہ گوشت ’’کوشر‘‘ کہلاتا ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے حلال ہوتا ہے، کراکوف کے جیوش کوارٹرز کے زیادہ تر ریستورانوں میں ’’کوشر‘‘ ملتا ہے چنانچہ مسلمان اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔
میں ایک دن اس علاقے کے ایک ریستوران میں کھانا کھا رہا تھا، اچانک میرے کانوں سے ایک مانوس سی آواز ٹکرائی اور میں چونک کر دائیں بائیں دیکھنے لگا، مجھ سے چند میز چھوڑ کر کھانے کی ایک ٹیبل پر درمیانی عمر کے چارگورے بیٹھے تھے، ان کے سامنے موبائل فون پڑا تھا اور فون پر حبیب ولی محمد کی غزل چل رہی تھی، وہ چاروں غزل سن رہے تھے اور سردھن رہے تھے، میں یہ منظر دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھا، ان کی میز پر گیا، ان سے معذرت کی، اپنا تعارف کرایا اور ان سے پوچھا ’’کیا آپ کو یہ الفاظ سمجھ آ رہے ہیں‘‘ ان چاروں نے ہاں میں سر ہلاکر اردو میں جواب دیا ’’بالکل، پوری طرح‘‘ میری حیرت میں اضافہ ہو گیا۔
میں نے ان سے پوچھا ’’آپ لوگ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں‘‘ ان میں نسبتاً بزرگ نے ویٹر سے پانچویں کرسی منگوائی، مجھے ساتھ بٹھایا اور اس کے بعد بولا ’’ہم چاروں بھائی ہیں اور تل ابیب میں رہتے ہیں‘‘ میرا اگلا سوال تھا ’’آپ نے اردو کہاں سے سیکھی‘‘ بزرگ کے جواب نے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال دی، اس نے بتایا ’’ہم نے اردو کراچی میں سیکھی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کراچی سے آپ کا کیا تعلق ہے‘‘ اس کا جواب تھا ’’ میں اور میرا چھوٹا بھائی دونوں کراچی میں پیدا ہوئے ہیں اور ہم نے اسکول تک تعلیم بھی لیاری میں حاصل کی تھی‘‘ میری حیرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، بزرگ کا کہنا تھا ’’ یہودی لوگ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر سے جان بچانے کے لیے دنیا جہاں میں بکھر گئے ۔
ان میں سے 30 ہزار یہودی پولینڈ سے دھکے کھاتے ہوئے کراچی پہنچ گئے، ہندوستان میں اس وقت انگریزوں کی حکومت تھی، یہ ہٹلر کے مخالف تھے چنانچہ انھیں کراچی میں فوراً پناہ مل گئی، ان پناہ گزینوں میں ہمارے دادا، دادی اور والد بھی شامل تھے، والد کی عمر اس وقت سات سال تھی، ہمارے والد کراچی میں جوان ہوئے، انھوں نے کراچی کے سیناگوگ میں ایک یہودی پناہ گزین لڑکی سے شادی کی، ہم ایک بہن اور دو بھائی پیدا ہوئے، میں اور میرے اس بھائی نے کراچی میں پرائمری تعلیم حاصل کی‘‘ وہ رکا اور انگلی سے سامنے بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کیا، اس شخص نے فوراً احترام سے گردن جھکا لی، وہ دوبارہ بولا ’’ہماری والدہ 1975میں انتقال کر گئی، والد نے دوسری شادی کر لی۔
جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا، کراچی کے حالات خراب ہونے لگے، یہودی نازی فوج کے ڈسے ہوئے تھے، یہ ڈر گئے اور فوراً یورپ اور اسرائیل کی طرف نقل مکانی کرنے لگے، ہمارے والد نے بھی ہمیں ساتھ لیا اور ہم تل ابیب چلے گئے، تل ابیب میں ہمارے مزید دو بھائی پیدا ہوئے، ہم اب اسرائیل میں رہتے ہیں لیکن کراچی ہمارے اندر رہتا ہے، ہمارے والد کا 1992میں انتقال ہو گیا، وہ حبیب ولی محمد کی غزلیں پسند کرتے تھے، ہم چاروں بھائیوں کو جب بھی والد یاد آتے ہیں تو ہم ان کی پسند کی غزل ’’کب میرا نشیمن اہل چمن‘‘ سن لیتے ہیں‘‘ وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا، اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک تھی۔
میں نے اس سے پوچھا ’’کراچی کے ساتھ کوئی تعلق، کوئی رابطہ موجود ہے‘‘ اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے اور بولا ’’ہاں ماں، دادا اور دادی کا تعلق ہے، یہ تینوں کراچی میں دفن ہیں، ہمیں یہ تینوں قبریں روز یاد آتی ہیں، آپ اس یاد کو رابطہ سمجھ لیں‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ اس کے بعد کبھی کراچی گئے؟‘‘ اس نے انکار میں سر ہلایا اور جواب دیا ’’اسرائیل اور پاکستان میں سفارتی تعلقات نہیں ہیں، ہم کراچی کیسے جا سکتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا کراچی میں آج بھی یہودی موجود ہیں‘‘ اس کا جواب تھا ’’نہیں، زیادہ تر لوگ یورپ، ایران ، امریکا، اسرائیل اور بھارت شفٹ ہو چکے ہیں، جو باقی بچ گئے ہیں، وہ اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہیں، یہ اب کراچی میں عیسائی یا مسلمان بن کر زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے سیناگوگ پر قبضہ ہو چکا ہے،وہاں پلازہ بن چکا ہے، گھر بھی لوگوں نے آپس میں بانٹ لیے ہیں لہٰذا کراچی میں اب ہمارے بزرگوں کی قبروں کے سوا کچھ نہیں بچا‘‘۔ میں نے چاروں بھائیوں سے ہاتھ ملایا، ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی میز پر آ گیا۔
میں کراکوف سے واپس آ گیا لیکن یہودیوں کی قبریں میرے دماغ میں پھنسی رہیں، میں 2015 میں جب بھی کراچی گیا، میں نے یہودیوں کا قبرستان تلاش کیا مگر یہ نہ ملا، مجھے پچھلے ہفتے ایک دن کے لیے کراچی جانے کا اتفاق ہوا، عرفان جاوید نے کراچی کی تاریخ کے تین ماہرین کا بندوبست کر رکھا تھا، ہم نے ان حضرات کی مہربانی سے ہفتے کے دن بالآخر یہودیوں کا قبرستان تلاش کر لیا، یہودیوں کی قبریں دو مقامات پر ہیں، پہلا مقام لیاری کا میمن کچھی قبرستان ہے، اس قبرستان کے اندر ایک یہودی کونہ ہے، اس کونے میں یہودیوں کی درجن بھر متروک قبریں ہیں، یہ قبریں اپنا وجود کھو چکی ہیں۔
چند ایک قبروں کے نشان اور کتبے باقی ہیں لیکن یہ بھی سال چھ ماہ میں مٹی کا حصہ بن جائیں گے، یہودیوں کا اصل اور بڑا قبرستان میوہ شاہ کے قبرستان میں ہے، میوہ شاہ کراچی کا سب سے بڑا قبرستان ہے، یہ قبرستان لیاری ندی کے دوسرے کنارے پر واقع ہے اور یہ انیسویں صدی میں بنایا گیا، میوہ شاہ کے قبرستان کے عین درمیان میں ایک احاطہ ہے، احاطے پر سبز رنگ کا گیٹ لگا ہے، گیٹ کے ستون پر درمیانے سائز کا ’’اسٹار آف ڈیوڈ‘‘ کھدا ہے، یہ یہودیوں کی خاص نشانی ہے، آپ احاطے میں داخل ہوں تو آپ کو اندر غربت کے مارے چار بوسیدہ گھر ملتے ہیں، یہ اس قبرستان کے نگرانوں کے گھر ہیں۔
یہ لیاری کا ایک بلوچ خاندان ہے، یہ لوگ تین نسلوں سے اس قبرستان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، گھروں سے آگے جھاڑ جھنکار ہے اور اس جھاڑ میں مختلف سائز کی سو سے زائد قبریں ہیں، تمام قبروں پر کتبے ہیں، کتبوں پر مردوں کا تعارف بھی درج ہے، تاریخ پیدائش بھی اور انتقال کی تاریخ بھی۔ قبریں فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں، ہر قبر آپ کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے اور آپ بے اختیار جھک کر اس کا کتبہ پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، زیادہ تر قبروں پر 1850 سے لے کر 1950 تک کی تاریخیں درج ہیں، یہ ثابت کرتا ہے کراچی میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے بھی یہودی موجود تھے اور شاید پولینڈ کے یہودی ان یہودیوں کی وجہ سے کراچی آئے اور یہاں رہائش پذیر ہو گئے، ان قبروں میں مختلف شعبوں سے وابستہ یہودی مدفون ہیں۔
ان میں فوجی بھی ہیں، بیورو کریٹس بھی، تاجر بھی اور استاد بھی، قبرستان کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا مقبرہ بھی ہے، یہ ایک چکور عمارت ہے، دروازہ زمانے کی دست برد کا شکار ہے، چھت بلند اور پرشکوہ ہے، میں نے بڑی مشکل سے دروازہ کھولا، اندر بول و براز کا انبار لگا تھا، بدبو کی وجہ سے زیادہ دیر تک کھڑا ہونا مشکل تھا، کمرے میں سفید سنگ مر مر کی دو انتہائی خوبصورت قبریں تھیں، مرکزی قبر پر 1920 کا ہندسہ درج تھا، مقبرے کی چھت، دیواریں، کھڑکیاں اور فرش چیخ چیخ کر بتا رہے تھے، مقبرے کا مقیم اپنے وقت کا کوئی اہم ترین شخص تھا، دوسری قبر اس شخص کی بیگم کی تھی۔
مقبرہ شاندار تھا لیکن اس کے ساتھ سلوک قابل عبرت تھا، ایک قبر پر تکیہ بھی رکھا تھا اور وہاں یقینا کوئی صاحب رات کے وقت آرام کرتے ہوں گے، قبرستان کے نگرانوں نے بتایا ’’گورے آج بھی دعا کے لیے قبروں پر آتے ہیں،، نگران نے ایک پرانی قبر کی نشاندہی بھی کی، یہ 64 سال کی کسی خاتون کی قبر تھی، خاتون 1960میں فوت ہوئی، کتبہ بچوں نے لگوایا، نگران کا کہنا تھا، پچھلے سال اسلام آباد سے کوئی خاتون اس قبر پر آئی، دعا کی اور ہمیں دس ہزار روپے دے کر کہا، مہربانی کر کے قبر کے اوپر سے جھاڑ جھنکار صاف کر دیں‘‘ میں نے پوچھا ’’خاتون پاکستانی تھی‘‘ اس نے بتایا ’’رنگ گورا تھا لیکن اردو بول رہی تھی اور خاصی خوف زدہ تھی‘‘ میں یہ سن کر اداس ہو گیا۔
کراچی کا یہودی قبرستان ایک منفرد جگہ ہے، یہ پاکستان میں یہودیوں کی واحد یادگار ہے، میری سندھ حکومت اور مذہبی امور کے وفاقی وزیر سے درخواست ہے، آپ یہودی قبرستان پر تھوڑی سی توجہ دیں، قبریں بحال کریں، کتبے صاف کروائیں، قبرستان کا تصویری البم شایع کروائیں اور اس قبرستان کو سیاحوں کے لیے کھول دیں، آپ اس سلسلے میں یورپی یونین، پولینڈ، جرمنی اور برطانیہ کے سفارت خانوں کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔
آپ قبرستان کی ’’ویب سائٹ‘‘ بھی لانچ کریں تا کہ وہ یہودی جو سفارتی اور سماجی رکاوٹوں کی وجہ سے اپنے بزرگوں کی قبروں پر نہیں آ سکتے وہ کم از کم انٹرنیٹ کے ذریعے ہی یہ قبریں دیکھ لیں، حکومت قبروں کی دیکھ بھال کے لیے پے منٹ کا آن لائن سسٹم بھی بنا دے تا کہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کی قبروں پر پھول ڈلوا سکیں، ہم تھوڑی سی توجہ سے کراچی کے ان سابق شہریوں کو خوشی دے سکتے ہیں جو 1980 کی دہائی میں مسلمانوں کے خوف سے اپنے بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے، ہم معمولی سی توجہ سے ان لوگوں کو یہ پیغام دے سکتے ہیں’’ ہم مسلمان صرف زندہ لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں، قبروں سے نہیں‘‘۔
کیا سندھ کے سائیں سرکار اور اوقاف کے وفاقی وزیر کے پاس اتنی سی توجہ بھی موجود نہیں؟ کیا یہ کراچی کے سابق شہریوں پر اتنی مہربانی بھی نہیں کر سکتے۔
لنک

فاتح رانا محمد امین کاشفی محمد خلیل الرحمٰن ایچ اے خان
 

arifkarim

معطل
اس ضمن میں ڈان کی ایک رپورٹ:
کراچی کی یہودی مسجد
madiha-square-670.jpg
کل کی یہودی مسجد، آج کا مدیحہ اسکوائر
gravestones-670.jpg
قبرستان کا ایک منظر -- فوٹو -- اختر بلوچ
قیامِِ پاکستان کے بعد ہم نے کراچی میں تاج برطانیہ کے دور میں شہر کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے افراد کے ناموں سے منسوب تمام عمارتوں اور سڑکوں کے نام تبدیل کر دیے۔ یہ کوشش تا حال جاری ہے۔
یہ ہی سب کچھ ہم نے یہود و ہنود کے ساتھ بھی کیا۔ یہود و ہنود کی حد تک تو ہم کسی سطح تک کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن تاج برطانیہ کے حوالے سے ہم کہیں کہیں ناکام بھی رہے۔
یہود سے ہماری نفرت دیرینہ ہے۔ اس کا احساس ان کو بھی تھا اس لیے وہ آہستہ آہستہ یہاں سے بیرونِ ملک خصوصاََ اسرائیل منتقل ہو گئے۔
یہودیوں کی کراچی میں موجودگی کے حوالے سے محمودہ رضویہ اپنی کتاب ملکہ مشرق کے صفحہ نمبر 146 پر لکھتی ہیں کہ یہودی لارنس کوارٹر میں آباد ہیں۔ ملازم پیشہ اور عرفِ عام میں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ذبیحہ اپنا الگ کرتے ہیں۔ ایک ہیکل اور سیمٹری ہے۔ ان کی آبادی بہت کم ہے۔ تعلیم یافتہ اور خاصے خوشحال ہیں۔
ایٹکن کی مولفہ سندھ گزیٹیر مطبوعہ 1907 میں یہودیوں کی کراچی آبادی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ 1901 کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد صرف 428 ہے۔ یہ سب تقریباََ کراچی میں آباد ہیں۔ اکثر کا تعلق بنی اسرائیل برادری سے ہے۔
محمد عثمان دموہی اپنی کتاب ’کراچی تاریخ کے آئینے‘ میں کے صفحہ نمبر 652 پر لکھتے ہیں کہ کراچی میں یہودیوں کا صرف ایک قبرستان تھا جو پرانا حاجی کیمپ کے جنوب مشرق میں واقع تھا۔ یہ بنی اسرائیل قبرستان کہلاتا تھا۔ اس حوالے سے محمودہ رضویہ لکھتی ہیں؛
"پرانی جوئین سمیٹری عثمان آباد سے ملحق ہے اور حاجی کیمپ کے جنوب مشرق میں بنی اسرائیل (یہودیوں)کا قبرستان ہے۔"
محمودہ رضویہ نے کراچی میں یہودیوں کی دو عبادت گاہوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کو تلاش کرنے سے قبل ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو یہودی کراچی سے اسرائیل منتقل ہوئے وہ کس حال میں ہیں اور کراچی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
سولجر بازار کا ڈینئل
اس بارے میں معروف قلم کار اور صحافی محمد حنیف جنھوں نے خوش قسمتی سے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس وقت بین القوامی نشریاتی ادارے بی بی سی سے وابستہ ہیں ۔ ان کا ایک مختصر سفرنامہ بی بی سی سے نشر ہوا تھا۔ جسے بعد ازاں نام ور ادیب اجمل کمال نے اپنے سہ ماہی جریدے آج کے شمارے نمبر 35 مطبوعہ 2001 میں شائع کیا تھا۔
محمد حنیف اسرائیل کے دورے کے دوران ایک تقریب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آخر میں کسی منتظم کو خیال آیا کہ میں نے تقریر نہیں کی۔ مجھے ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر کھڑا کردیا گیا۔ میں نے کہا کہ میرا تعلق ہندوستان سے نہیں کراچی سے ہے۔ میں تو یوں ہی کام سے آیا تھا۔ لیکن آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ میری بات سن کر پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے پکی رنگت اور فربہ جسم کے ایک چالیس پینتالیس سالہ آدمی نے زور سے سسکی لی۔ میں اسٹیج سے اترا تو اس نے آکر میرا ہاتھ پکڑا، ایک کونے میں لے کر گیا اور گلے لگایا۔ یہ سولجر بازار کراچی کا ڈینئل تھا۔
"میں نے 68 کے بعد سے کوئی کراچی والا نہیں دیکھا"
اس نے سسکیوں کے درمیان مجھے بتایا؛
"میں وہاں انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا تھا، ہماری اپنی مسجد تھی۔ سن 67 کی جنگ کے دوران ایوب خان نے اس کی حفاظت کے لیے پولیس بھی بھیجی تھی۔"
پھر اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا، "ہمیں وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ہمیں کبھی کسی نے گالی نہیں دی۔ ہم نے بس دیکھا کہ سب یہودی لوگ اسرائیل جا رہے ہیں تو ہم بھی آگئے ہیں۔ آپ سولجر بازار کے ظفر خان کو جانتے ہو؟"
ڈینئل ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ ایک ہندوستانی یہودی لڑکی سے شادی کر رکھی ہے۔ دو بچے بھی ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ کراچی ضرور دیکھ لے۔
"سنا ہے آج کل پھر کوئی فوج وغیرہ کی حکومت ہے وہاں، وہی چلا سکتے ہیں اپنے ملک کو بس۔"
باتوں باتوں میں ڈینئل نے بتایا اس کا اسرائیل, خاص طور پر رام اللہ میں دل نہیں لگتا۔
میں نے پوچھا کیوں؟
آپ کو پتا ہے کہ ہم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی طبیعت میں بڑا فرق ہے۔ یہ لوگ ہمیں کبھی پسند نہیں کر سکتے۔ ہماری بھی ان کے ساتھ نہیں بنتی۔ ہمارے یہاں پر صرف تین چار خاندان ہیں۔ میری بیوی بھی ہندوستانی ہے لیکن وہ اپنے لوگوں والی بات نہیں ہے۔ میں نے کہا یہ سب تو آپ کے یہودی بھائی ہیں۔ کہنے لگے 'ہاں ہاں لیکن ہیں تو ہندوستانی!'
bene-israel-trust.jpg
بنی اسرائیل ٹرسٹ​
ذکر ہو رہا تھا کراچی میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کا۔ ان میں سب سے مشہور (Magain Shalome Synagogue (Bani Israel Trust کی عمارت تھی جسے آج بھی کراچی کے پرانے لوگ اسرائیلی یا یہودی مسجد کے نام سے پہچانتے ہیں۔ یہ رنچھوڑ لائن کے مرکزی چوک پر واقع ہے۔ جہاں اب اس کی جگہہ مدیحہ اسکوائر کی کثیر المنزلہ عمارت موجود ہے۔

کل کی یہودی مسجد، آج کا مدیحہ اسکوائر -- فوٹو -- اختر بلوچ --.
ہمارے دوست قاضی خضر حبیب نے اس سلسلے میں ہماری خاصی مدد کی۔ ان کے مطابق بنی اسرائیل ٹرسٹ کی آخری ٹرسٹی ریشل جوزف نامی خاتون تھیں جنہوں نے اس عمارت کا پاور آف اٹارنی احمد الہٰی ولد مہر الہٰی کے نام کر دیا تھا۔ ان میں ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ عبادت گاہ کی جگہ ایک کاروباری عمارت تعمیر کی جائے گی۔ عمارت کی نچلی منزل پر دکانیں جب کہ پہلی منزل پر عبادت گاہ تعمیر کی جائے گی۔
نچلی منزل پر دُکانیں تو بن گئیں اور پہلی منزل پر عبادت گاہ بھی۔ مگر اب عبادت گاہ کی جگہ رہائشی فلیٹ ہیں۔ ریشل جوزف اور مختلف افراد کے درمیان ٹرسٹ کی ملکیت کے حوالے سے مقدمہ بازی بھی ہوئی جس میں ریشل اور ان کے اٹارنی کو کامیابی حاصل ہوئی۔
ریشل کی کراچی موجودگی کے بارے میں ہم نے اپنے ایک وکیل دوست جناب یونس شاد کے زریعے ان کے وکیل سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ کافی عرصہ پہلے لندن منتقل ہوگئیں تھیں۔
6 مئی2007 کو روزنا مہ ڈان میں شائع ریما عباسی اپنے ایک مضمون میں ریشل سے گفتگو کا حوالہ دیتی ہیں. یہ گفتگو یہودی قبرستان کے حوالے سے ہے۔ جس کی وہ آخری کسٹودین تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ 2007 تک کراچی میں موجود تھیں۔ جس کے بعد وہ یہاں سے چلی گئیں۔
یہودی قبرستان
اگلا مرحلہ یہودی قبرستان جانے کا تھا۔ ہم نے اپنے ایک صحافی دوست اسحاق بلوچ جو گولیمار کے رہا ئشی ہیں سے اس سلسلے میں مدد چاہی ۔انھوں نے بتایا کہ قبرستان کی نگرانی ایک بلوچ خاندان کرتا ہے۔ وہ ایک بار وہاں گئے تھے۔ بلوچ خاندان نے بہ مشکل انھیں اندر جانے کی اجازت دی۔ وہ بھی بغیر کیمر ے کے۔ ہم مایوس ہو گئے۔
اسحاق بلوچ نے ہمیں کہا کہ اس سلسلے میں نوجوان صحافی ابوبکر بلوچ سے بات کریں۔ ان کے رشتے داروں کے قبرستان کے نگران خاندان سے تعلقات ہیں۔ میں نے اس حوالے سے ابوبکر بلوچ سے بات کی اور ہمارے درمیان یہ طے پایا کہ اتوار کے دن میوہ شاہ قبرستان جا کر کوشش کریں گے.

قبرستان کا ایک منظر -- فوٹو -- اختر بلوچ
اتوار کے دن ہم ابوبکر کے گھر لیاری کے علاقے نوالین پہنچے اور وہاں سے میوہ شاہ قبرستان۔ ابوبکر نے ایک پھولوں کی پتیاں بیچنے والی خاتون کی جانب اشارہ کیا۔ ہم نے جیسے ہی انھیں سلام کیا تو انھوں نے ناگوار نظر وں سے ہماری جانب دیکھا۔ انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہم پھولوں کی پتیاں خریدنے نہیں آئے۔ وہ اردو میں بولیں تم لوگ اندر نہیں جا سکتے۔ میں نے ابوبکر کی جانب دیکھا۔ اُس بے چارے نے بلوچی میں کسی شریف بھائی کا حوالہ دیا۔
خاتون نے نازبو کے ڈنٹھل صاف کرتے کرتے ہماری طرف کچھ حیرت سے دیکھا اور پھر اردو میں اپنا پرانا جواب دہرایا۔ لیکن اب ان کے لہجے میں پہلی والی شدت نہیں تھی۔ ہم نے بھی بلوچی کا حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا اور ان سے بلوچی میں قبرستان دیکھنے کی اجازت چاہی۔
اب انھوں نے ہم سے بلوچی میں گفتگو شروع کی۔ ان کے لہجے سے دُر شتگی تقریباََ ختم ہو چکی تھی۔ انھوں نے کہا پہلے بھی کچھ لوگ آئے تھے۔ فوٹو بنا کر چلے گئے۔ ہم کو بڑا آسرا دیا کہ قبرستان ٹھیک کروا دیں گے۔ اس کی چار دیواری اونچی کروادیں گے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ چار دیواری بھی ہم نے اونچی کروائی ہے نہیں تو لوگ سنگ مر مر کے پتھر بھی لے جاتے۔
انھوں سے بتایا کہ قبرستان میں 500 سے زیاہ قبریں ہیں۔ ہم لوگوں کو قبرستان کی حفاظت کرتے ہوئے 100 سال سے زیادہ کا عر صہ ہو گیا ہے۔
گفتگو کے دوران وہ ہمیں بار بار اس بات کا احساس دلاتی رہیں کہ ہمیں اندر جانے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گی۔ لیکن ہم نے اپنی کوشش جاری رکھیں۔ آخر زِچ ہوکر انھوں نے کہا کہ ہم پیر والے دن ایک بجے آجائیں اور ان کے بیٹے سے ملیں۔
ہم تقریباََ مایوس ہو چکے تھے۔ اتنی دیر میں ایک موٹر سائیکل ہمارے قریب آکر رکی اور اس سے ایک نوجوان اترا۔ جو لنگڑا کر چل رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک اسٹک بھی تھی۔ یہ خاتون کا بیٹا عارف تھا۔ عارف نے ہماری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ان کی والدہ نے انہیں ہمارے بارے میں بتایا۔
عارف نے بھی اردو میں بتایا کہ ہم اندر نہیں جا سکتے۔ لیکن لہجے میں ماں والی درشتگی نہیں تھی۔ ہم نے عارف سے بھی دوبارہ بلوچی میں درخواست کی، ان کی آنکھوں میں حیرت اور کچھ قبولیت کے آثار دیکھ کر ہم نے انہیں بتایا کہ ہم صرف قبرستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ خاصی بحث کے بعد وہ راضی ہو گئے۔ لیکن شرط لگائی کہ صرف ایک آدمی ان کے ساتھ چلے۔ ہم نے شرط مان لی۔

دائیں - اختر بلوچ، بائیں - عارف بلوچ
یوں ہم قبرستان کے اندر داخل ہو گئے۔ اگلا مرحلہ تصویریں بنانے کا تھا۔ قبرستان کانٹے دار جھاڑیوں سے اٹاپڑا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ جیب سے کیمرہ نکالا اور تصویریں بنانی شروع کی۔ عارف نے میری طرف دیکھا اور بلوچی میں بولا جتنی چاہو بنا لو یار بلوچ بھائی ہو۔

قبرستان کا ایک منظر -- فوٹو -- اختر بلوچ
اس دوران عارف نے بھی اپنی والدہ والی باتیں دہرائیں اور بتایا کہ پہلے وہ جھاڑیاں وغیرہ خود صاف کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ دنوں ان کا موٹر سائیکل سے ایکسیڈنٹ ہو گیا جس کے نتیجے میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس لیے اب ان کے لیے یہ کام ممکن نہیں ہے۔
عارف نے مزید بتایا کہ تقریباََ ایک سال قبل ایک شخص ان کے پاس آیا تھا جس نے بتایا کہ شیرٹن ہوٹل میں کچھ لوگ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ ہوٹل گئے تو 4 لوگوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے قبرستان کا تفصیلی حال احوال لیا۔ مگر قبرستان دیکھنے نہیں آئے۔

قبرستان کا ایک منظر -- فوٹو -- اختر بلوچ --.
عارف کے مطابق کبھی کبھار لوگ آتے ہیں تصویریں بناتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کرکے چلے جاتے ہیں لیکن ہوتا ہواتا کچھ نہیں ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہودیوں کو شُکر ادا کرنا چاہیئے کہ ان کی قبروں کے نگران بلوچ ہیں ورنہ یہودی مسجد کا تو آپ کو پتہ ہے نا کیا حال ہوا۔
لنک

محمد خلیل الرحمٰن
 
ستر کی دہائی کے اوائل تک ہم لارنس روڈ پر واقع یہودی سناگوگ اور انکل سریا ہسپتال کے قریب ایک سناگوگ بس میں سے گزرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ انکل سریا کے قریب اسی مقام پر اب ایک رہائشی پلازا ہے ۔
 

arifkarim

معطل
ستر کی دہائی کے اوائل تک ہم لارنس روڈ پر واقع یہودی سناگوگ اور انکل سریا ہسپتال کے قریب ایک سناگوگ بس میں سے گزرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ انکل سریا کے قریب اسی مقام پر اب ایک رہائشی پلازا ہے ۔
کراچی کسی زمانہ میں پُر امن ملٹی کلچر ملٹی مذہب شہر ہوتا تھا جہاں ہر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ خوش و خرم رہتے تھے۔ پتا نہیں اس روشنیوں کے شہر کو کسکی نظر لگ گئی۔
 

باباجی

محفلین
کراچی کسی زمانہ میں پُر امن ملٹی کلچر ملٹی مذہب شہر ہوتا تھا جہاں ہر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ خوش و خرم رہتے تھے۔ پتا نہیں اس روشنیوں کے شہر کو کسکی نظر لگ گئی۔
میں پیدا ہونے سے لے کر 2007 تک کراچی میں رہا ۔۔ حالات میں کافی اتار چڑھاؤ دیکھے
لیکن مشرف کے دور میں کراچی کے جو بہتر حالات میں نے دیکھے ان کی بناء پر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کراچی میں کسی کو کسی سے کوئی مسئلہ نہیں
وہاں پر جان بوجھ کر مسائل پیدا کیئے جاتے ہیں
 

ناصر رانا

محفلین
باتوں باتوں میں ڈینئل نے بتایا اس کا اسرائیل, خاص طور پر رام اللہ میں دل نہیں لگتا۔
محمد خلیل الرحمٰن
ہر چند کہ یہ رپورٹ ڈان میں آئی ہے مگر میری معلومات کے مطابق درست لفظ رملّہ ہے نہ کہ رام اللّہ۔
زمانہ طالبعلمی میں ایک دفعہ یہی غلط تلفظ پڑھا تھا تو کافی تعجب ہوا تھا۔ تحقیق کرنے پر علم ہوا کہ اصل لفظ رملّہ ہے جو کہ غلط العام ہوکر رام اللّہ ہو گیا ہے۔ تفصیل تو اب یاد نہیں ہے ممکن ہے محفلین میں سے کوئی اور اس پر روشنی ڈال سکے۔
 

طالب سحر

محفلین
عام طور پر "رام اللہ" کی وجہ تسمیہ یہ بتائ جاتی ھےکہ "رام" آرامی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب اونچی جگہ، پہاڑی کے ھیں--- چنانچہ "رام اللہ" کا مطلب ہوا "اللہ کی پہاڑی" - انگریزی اورعربی ویکیپیڈیا میں یہی درج ہے (كلمة رام المنطقة المرتفعة)-

مشرق وسطیٰ کے عربی اخبارات اور نقشوں میں اس شہر کا نام "رام الله" ہی لکھا ہوا ہوتا ہے-

حوالہ:
https://en.wikipedia.org/wiki/Ramallah#Etymology
https://ar.wikipedia.org/wiki/رام_الله
 

ناصر رانا

محفلین
عام طور پر "رام اللہ" کی وجہ تسمیہ یہ بتائ جاتی ھےکہ "رام" آرامی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب اونچی جگہ، پہاڑی کے ھیں--- چنانچہ "رام اللہ" کا مطلب ہوا "اللہ کی پہاڑی" - انگریزی اورعربی ویکیپیڈیا میں یہی درج ہے (كلمة رام المنطقة المرتفعة)-

مشرق وسطیٰ کے عربی اخبارات اور نقشوں میں اس شہر کا نام "رام الله" ہی لکھا ہوا ہوتا ہے-

حوالہ:
https://en.wikipedia.org/wiki/Ramallah#Etymology
https://ar.wikipedia.org/wiki/رام_الله
بھائی وکی پیڈیا پر کسی لفظ کا موجود ہونا اس کے مستند ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ یہ لفظ غلط العام ہو چکا ہے یعنی کہ موجودہ اکثریت اس تاریخی شہر کے درست نام سے واقف نہیں ہے۔ وائس آف امریکہ اور بی بی سی اردو بھی اس شہر کیلئے رملّہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں
حوالہ:
http://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/05/printable/050519_ronaldo_palestine.shtml
http://m.urduvoa.com/a/palestinian-protests-25mar11-118663704/1132025.html
 

arifkarim

معطل
بھائی وکی پیڈیا پر کسی لفظ کا موجود ہونا اس کے مستند ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ یہ لفظ غلط العام ہو چکا ہے یعنی کہ موجودہ اکثریت اس تاریخی شہر کے درست نام سے واقف نہیں ہے۔ وائس آف امریکہ اور بی بی سی اردو بھی اس شہر کیلئے رملّہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں
حوالہ:
http://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/05/printable/050519_ronaldo_palestine.shtml
http://m.urduvoa.com/a/palestinian-protests-25mar11-118663704/1132025.html
اردو وکی پیڈیا پر تو رملہ ہی ہے:
https://ur.wikipedia.org/wiki/رملہ
محمد شعیب
 

زیک

مسافر
بھائی وکی پیڈیا پر کسی لفظ کا موجود ہونا اس کے مستند ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ یہ لفظ غلط العام ہو چکا ہے یعنی کہ موجودہ اکثریت اس تاریخی شہر کے درست نام سے واقف نہیں ہے۔ وائس آف امریکہ اور بی بی سی اردو بھی اس شہر کیلئے رملّہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں
حوالہ:
http://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/05/printable/050519_ronaldo_palestine.shtml
http://m.urduvoa.com/a/palestinian-protests-25mar11-118663704/1132025.html

اردو انٹرنیٹ فلسطین کے شہر کے لئے مستند نہیں ہے۔ کوئی عربی سورس لائیں
 

ناصر رانا

محفلین
اردو انٹرنیٹ فلسطین کے شہر کے لئے مستند نہیں ہے۔ کوئی عربی سورس لائیں
یار بھائی ناچیز کو عربی پلے نہیں پڑتی۔
میں نے سرچ کیا تھا اور ابتدا میں عربی پیجز ہی کھلے تھے مگر اسے سمجھوں کیسے؟؟؟
ویسے بھی گوگل کے زمانے میں اب کچھ ڈھونڈنا اتنا مشکل تو نہیں ہے۔
جسے عربی میں ڈھونڈنا ہے وہ عربی میں ڈھونڈ لے۔ میں تو اردو فورم کیلئے ڈھونڈ لایا ہوں یہ۔
ویسے میں نے بہت عرصہ قبل اس کے بارے میں معلومات لیں تھیں اب تو تفصیل بھی یاد نہیں ہے اسی وجہ سے پیشگی معذوری کا اظہار کر دیا تھا۔
 
Top