سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 13 نومبر، 2015
الیکشن کمیشن کے مطابق سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں 5 دسمبر 2015ء کو کراچی کے 6 اضلاع میں 5 ہزار 548 امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔ 48 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے لیے 8 ہزار 2 سو 99 افراد نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جس میں سے اسکروٹنی اور دستبرداری کے عمل کے بعد 5 ہزار 548 امیدوار بلدیاتی انتخاب میں حصہ لیں رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ضلع جنوبی میں 9، ضلع ملیر میں 6، ضلع غربی میں 13، ضلع وسطی میں 18، ضلع شرقی میں 2 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے ہیں جبکہ ضلع کورنگی میں کوئی امیدوار بلا مقابلہ منتخب نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق کراچی کےتمام اضلاع سے 2 ہزار 342 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لیے ہیں۔
اگرچہ کراچی میئرشپ، بلدیاتی الیکشن تیسرے مرحلے میں ہوں گے لیکن سیاسی سرگرمیاں ابھی سے عروج پر ہیں، بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں کراچی میں ہونے والے الیکشن پرتمام سیاسی جماعتوں کی نظریں مرکوز ہیں، بلدیاتی الیکشن کےلیے ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے امیدوار میدان میں اتاردئیے ہیں، کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے مضبوط اور نامی گرامی امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا ہے۔کراچی کی میئرشپ کا حصول ہر جماعت کی دلی آرزو ہے اس وجہ سے یہ ایک انار سو بیمار کا معاملہ بن چکا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما وسیم اختر کو میئرشپ کے لئے ایم کیو ایم کا مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے، ایم کیو ایم کے ریحان ہاشمی اور زریں مجید ڈپٹی میئر کے امیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان بھی میئر شپ کی دوڑ میں شامل ہیں جبکہ تحریک انصاف علی زیدی کو میئر کراچی کا امیدوار تصور کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے کراچی ڈویژن کے صدر نجمی عالم کو میئر کا امیدوار نامزد کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی انتخابات میں تو بڑھ چڑھ کر حصہ لےرہی ہے تاہم اس کی جانب سے میئر کے لئے کوئی نام سامنے نہیں آ سکا ہے۔ اسی طرح سے مہاجر قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ وہ سیاست برائے خدمت پر یقین رکھتے ہیں، عوام 5دسمبر کو موم بتی پر مہر لگائیں۔
سیاسی بیانات اور سیاسی سرگرمیوں کے آغاز میں کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ بلدیاتی امیدواروں نے مزار قائد کے سائے تلے امن وترقی ، پیار ومحبت اور ایمانداری سے شہرکراچی کی تعمیر نو کا حلف اٹھایا۔ امیدواروں سے حلف کراچی کی ایک بیٹی اور ایک اماں نے بھی لیا (جماعت اسلامی کا نیا ڈرامہ)۔ امیرجماعت اسلامی کراچی نعیم الرحمان نے کہا کہ عوام کی خواہش پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات کیلئے اتحاد کیا ہے، کراچی امن وترقی کی راہ پر چل پڑا تو پاکستان کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔تحریک انصاف کراچی کے صدر علی زیدی نے امیدواروں کو ہدایت کی کہ وہ محنت اور ایمانداری کو اپنا شعار بنائیں۔ اس موقع پرامن کی علامت کے طور پر سفید غبارے اور کبوتر فضاء میں چھوڑے گئےجبکہ تقریب کا اختتام قومی ترانے پر ہوا۔ پنجاب کی 2664 نشستوں میں سے تحریک انصاف نے 285 اور جماعت اسلامی نے دو نشستیں حاصل کیں ہیں۔ سندھ کی ایک ہزار سے زیادہ نشستوں کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے پانچ نشستیں جیتیں ہیں جبکہ جماعت اسلامی کا کہیں نام نہیں ہے۔
ایم کیو ایم کے سنیئر رہنما سید امین الحق نےکہاہےکہ کراچی کےبلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم عوام کی بھر پور حمایت سے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی شراکت کو توڑ کر بے مثال کامیابی حاصل کرے گی، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سید امین الحق کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم تین دھائیوں سے بلدیاتی ا ور عام انتخابات کے موقع پر کراچی سے ہمدردی کا لبادہ اوڑھنے والوں کو شکست فاش سے دوچار کرتی آرہی ہے، اس بار بھی مشترکہ امیدواروں کی ضمانتیں عوام اسی طرح ضبط کرائیں گے جس طرح این اے246کے ضمنی انتخابات میں مخالفین کی ہوئی تھی، انہوں نے کہاکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے شان دار کامیابی حاصل کی اور بلدیاتی انتخاب میں بھی اسے ماضی کے مقابلے میں ریکارڈ کامیابی حاصل ہوگی، اور مہمان امیدواروں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، جس کی کسی جماعت سے کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ لگتا ہے ایم کیو ایم اور رینجرز کے درمیان ضرورکچھ معاملات طے پاگئے ہیں، اس لیے ہی ایم کیو ایم کے دفاتر بھی کھل گئے ہیں اور ایم کیو ایم آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ بھی لے رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر و عمران ٹائیگرز پینل (پی ٹی آئی کا باغی گروپ) کے صدر اشرف قریشی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو عارف علوی اور علی زیدی نے بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین کے ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق عارف علوی اور علی زیدی اب پی ٹی آئی کے عہدیداران نہیں رہے انہوں نے ذ اتی مفادات کے لئے پی ٹی آئی کو چندہ پارٹی میں تبدیل کر دیا ہے۔ اشرف قریشی نے مزید کہا ہے کہ کراچی میں پہلی بار پی ٹی آئی کو مکمل طور پر جماعت اسلامی کے حوالے کر دیا گیا ہے جو کہ تحریک انصاف کی نظریاتی پوزیشن کو کمزور و مشکوک بنانے کے مترادف ہے۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری یونس خان بونیری کا کہنا ہے کہ عوام موسمی پارٹیوں سے ہوشیار رہیں، پنجاب کے بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں مسترد شدہ عناصر اب کراچی میں اپنی کامیابی کے لیے بے ساکھیاں تلاش کر رہے ہیں۔ بونیری کے مطابق انشاء اللہ پانچ دسمبر کو بے ساکھیوں کے متلاشی اور مسلسل بائیکاٹ کرنے والوں کا سیاسی بستر گول ہوجائے گا۔
ابھی انتخابات ہونے میں وقت ہے کون جیتے گا اور کون ہارے گا یہ ہمیں 5 دسمبر 2015ء کی رات کو پتہ چلے گا لیکن ابھی صرف اتنا کہنا ہے کہ "سیاست اور سانپ سیڑھی کا کھیل ایک ہی طرح کا ہوتا ہے۔ دونوں کھیل کے طریقے بھلے ہی الگ الگ ہوں، لیکن دونوں ہی کھیلوں میں نقصان کا اندیشہ اور فائدے کے امکانات بے شمار ہوتے ہیں۔ اسے کھیلنے والا کھلاڑی اپنی ایک صحیح چال سے فرش سے عرش تک جا سکتا ہے اور ایک غلط چال اسے عرش سے لاکر فرش پر پٹک سکتی ہے۔ صحیح چال سیڑھی سے اوپر لے جاتی ہے اور غلط چال سانپ کے منہ میں پھنس کر نیچے لے جاتی ہے"۔ پاکستانی سیاست میں جماعت اسلامی کو آپ امر بیل کہہ سکتے ہیں یہ جس سے چمٹ جاتی ہے اسے بانجھ کر کے ہی چھوڑتی ہے، کیا اتنی سی بات عمران خان کی سمجھ میں نہیں آرہی؟ اتحادی تحریک انصاف کے لیکن اسپیکر کےلیے ووٹ ایاز صادق کو اور بھی بہت سارے تضاد دیکھنے کے بعد بھی کیا گنجائش باقی بچتی ہے جماعت اسلامی سے کسی بھی سطح پہ اتحاد کرنے کی؟ تحریک انصاف کو جو لوگ ووٹ ڈالنا بھی چاہ رہے تھے وہ بھی اب جماعت کی وجہ سے نہیں ڈالیں گے۔ امید ہے عمران خان این اے 246 کی ہار کو ابھی نہیں بھولے ہونگے، بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف یا تو سیدھا سیدھا ایم کیو ایم کا مقابلہ کرتی یا پھر ان انتخابات میں حصہ ہی نہ لیتی، کیونکہ ان انتخابات کے بعد تحریک انصاف جو مسلسل سیاسی خسارئے میں جارہی ہے مزید سیاسی خسارئے میں چلی جائے گی۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے اُسکی تو عادت ہے کہ ہر ہار کے بعد یہ اعلان ضرور کرتی ہے کہ اُسکے ساتھ بے ایمانی ہوئی ہے اور اگلے انتخابات میں وہ بھرپور کامیابی حاصل کرئے گی، جیسے وہ اسوقت کراچی کے انتخابات کے سلسلے میں کررہی ہے جبکہ پنجاب کی ہزاروں سیٹوں میں اسکا اسکور صرف دو ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے کراچی کو جیالا میئر دیں گے، بلاول زرداری نے مزید کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے پیپلزپارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ہے اُس کو رسوائی اور ذلت ہی نصیب ہوئی ہے جبکہ پیپلزپارٹی پہلے سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوئی ہے۔ بلاول زرداری جب یہ بیان دےرہے تھے تو اُنکی پھوپھی ایم این اے فریال تالپور، وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ،سینیٹر شیری رحمن، سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو،اراکین پارلیمنٹ اور پارٹی کے ضلعی عہدیداران بھی موجود تھے۔ بلاول کے اس بیان پرمجھے آج بلاول کی ماں بینظیر بھٹو اور اُسکے نانا اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو بہت یاد آئے کیونکہ اگر وہ دونوں آج موجود ہوتے تو بلاول کو یہ ضرور بتاتے کہ پیپلزپارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے تمارئے ساتھ بیٹھے ہیں۔ بلاول کی پھوپھی اور نانا کی عمر کے سید قائم علی شاہ بلاول کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ وقت بدل چکا ہے اور پیپلز پارٹی آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ اور اگر آپ کو بھی نہیں پتہ کہ وقت کیسے بدلتا ہے تو کراچی میں پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری سے آنے والی یہ خبر پڑھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔
"پیپلزپارٹی کو سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا جھٹکا لگا ہے اور اسے اپنے گڑھ لیاری سے کئی نشستوں پر کوئی امیدوار نہیں مل سکا۔ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو لیاری سے 7 یونین کمیٹی پر چیئرمین اور وائس چیئرمین کا کوئی امیدوار نہیں ملا جب کہ وارڈ کونسلر کی 39 نشستوں پر کوئی جیالا میدان میں نہیں" ۔
پھر بھی کہتے ہیں ۔۔۔۔زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔۔۔۔۔ زندہ ہے بی بی زندہ ہے۔۔۔۔۔
اگر ان دونوں میں سے کوئی آپکو مل جائے تو لیاری کی یہ خبر اُنکو ضرور سنادیجیے گا، مجھے یقین ہے بھٹو اور بینظیردونوں بہت رویں گے۔
کراچی کےبلدیاتی انتخابات
تحریر: سید انور محمود
تحریر: سید انور محمود
الیکشن کمیشن کے مطابق سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں 5 دسمبر 2015ء کو کراچی کے 6 اضلاع میں 5 ہزار 548 امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔ 48 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے لیے 8 ہزار 2 سو 99 افراد نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جس میں سے اسکروٹنی اور دستبرداری کے عمل کے بعد 5 ہزار 548 امیدوار بلدیاتی انتخاب میں حصہ لیں رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ضلع جنوبی میں 9، ضلع ملیر میں 6، ضلع غربی میں 13، ضلع وسطی میں 18، ضلع شرقی میں 2 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے ہیں جبکہ ضلع کورنگی میں کوئی امیدوار بلا مقابلہ منتخب نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق کراچی کےتمام اضلاع سے 2 ہزار 342 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لیے ہیں۔
اگرچہ کراچی میئرشپ، بلدیاتی الیکشن تیسرے مرحلے میں ہوں گے لیکن سیاسی سرگرمیاں ابھی سے عروج پر ہیں، بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں کراچی میں ہونے والے الیکشن پرتمام سیاسی جماعتوں کی نظریں مرکوز ہیں، بلدیاتی الیکشن کےلیے ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے امیدوار میدان میں اتاردئیے ہیں، کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے مضبوط اور نامی گرامی امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا ہے۔کراچی کی میئرشپ کا حصول ہر جماعت کی دلی آرزو ہے اس وجہ سے یہ ایک انار سو بیمار کا معاملہ بن چکا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما وسیم اختر کو میئرشپ کے لئے ایم کیو ایم کا مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے، ایم کیو ایم کے ریحان ہاشمی اور زریں مجید ڈپٹی میئر کے امیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان بھی میئر شپ کی دوڑ میں شامل ہیں جبکہ تحریک انصاف علی زیدی کو میئر کراچی کا امیدوار تصور کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے کراچی ڈویژن کے صدر نجمی عالم کو میئر کا امیدوار نامزد کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی انتخابات میں تو بڑھ چڑھ کر حصہ لےرہی ہے تاہم اس کی جانب سے میئر کے لئے کوئی نام سامنے نہیں آ سکا ہے۔ اسی طرح سے مہاجر قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ وہ سیاست برائے خدمت پر یقین رکھتے ہیں، عوام 5دسمبر کو موم بتی پر مہر لگائیں۔
سیاسی بیانات اور سیاسی سرگرمیوں کے آغاز میں کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ بلدیاتی امیدواروں نے مزار قائد کے سائے تلے امن وترقی ، پیار ومحبت اور ایمانداری سے شہرکراچی کی تعمیر نو کا حلف اٹھایا۔ امیدواروں سے حلف کراچی کی ایک بیٹی اور ایک اماں نے بھی لیا (جماعت اسلامی کا نیا ڈرامہ)۔ امیرجماعت اسلامی کراچی نعیم الرحمان نے کہا کہ عوام کی خواہش پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات کیلئے اتحاد کیا ہے، کراچی امن وترقی کی راہ پر چل پڑا تو پاکستان کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔تحریک انصاف کراچی کے صدر علی زیدی نے امیدواروں کو ہدایت کی کہ وہ محنت اور ایمانداری کو اپنا شعار بنائیں۔ اس موقع پرامن کی علامت کے طور پر سفید غبارے اور کبوتر فضاء میں چھوڑے گئےجبکہ تقریب کا اختتام قومی ترانے پر ہوا۔ پنجاب کی 2664 نشستوں میں سے تحریک انصاف نے 285 اور جماعت اسلامی نے دو نشستیں حاصل کیں ہیں۔ سندھ کی ایک ہزار سے زیادہ نشستوں کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے پانچ نشستیں جیتیں ہیں جبکہ جماعت اسلامی کا کہیں نام نہیں ہے۔
ایم کیو ایم کے سنیئر رہنما سید امین الحق نےکہاہےکہ کراچی کےبلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم عوام کی بھر پور حمایت سے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی شراکت کو توڑ کر بے مثال کامیابی حاصل کرے گی، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سید امین الحق کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم تین دھائیوں سے بلدیاتی ا ور عام انتخابات کے موقع پر کراچی سے ہمدردی کا لبادہ اوڑھنے والوں کو شکست فاش سے دوچار کرتی آرہی ہے، اس بار بھی مشترکہ امیدواروں کی ضمانتیں عوام اسی طرح ضبط کرائیں گے جس طرح این اے246کے ضمنی انتخابات میں مخالفین کی ہوئی تھی، انہوں نے کہاکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے شان دار کامیابی حاصل کی اور بلدیاتی انتخاب میں بھی اسے ماضی کے مقابلے میں ریکارڈ کامیابی حاصل ہوگی، اور مہمان امیدواروں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، جس کی کسی جماعت سے کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ لگتا ہے ایم کیو ایم اور رینجرز کے درمیان ضرورکچھ معاملات طے پاگئے ہیں، اس لیے ہی ایم کیو ایم کے دفاتر بھی کھل گئے ہیں اور ایم کیو ایم آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ بھی لے رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر و عمران ٹائیگرز پینل (پی ٹی آئی کا باغی گروپ) کے صدر اشرف قریشی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو عارف علوی اور علی زیدی نے بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین کے ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق عارف علوی اور علی زیدی اب پی ٹی آئی کے عہدیداران نہیں رہے انہوں نے ذ اتی مفادات کے لئے پی ٹی آئی کو چندہ پارٹی میں تبدیل کر دیا ہے۔ اشرف قریشی نے مزید کہا ہے کہ کراچی میں پہلی بار پی ٹی آئی کو مکمل طور پر جماعت اسلامی کے حوالے کر دیا گیا ہے جو کہ تحریک انصاف کی نظریاتی پوزیشن کو کمزور و مشکوک بنانے کے مترادف ہے۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری یونس خان بونیری کا کہنا ہے کہ عوام موسمی پارٹیوں سے ہوشیار رہیں، پنجاب کے بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں مسترد شدہ عناصر اب کراچی میں اپنی کامیابی کے لیے بے ساکھیاں تلاش کر رہے ہیں۔ بونیری کے مطابق انشاء اللہ پانچ دسمبر کو بے ساکھیوں کے متلاشی اور مسلسل بائیکاٹ کرنے والوں کا سیاسی بستر گول ہوجائے گا۔
ابھی انتخابات ہونے میں وقت ہے کون جیتے گا اور کون ہارے گا یہ ہمیں 5 دسمبر 2015ء کی رات کو پتہ چلے گا لیکن ابھی صرف اتنا کہنا ہے کہ "سیاست اور سانپ سیڑھی کا کھیل ایک ہی طرح کا ہوتا ہے۔ دونوں کھیل کے طریقے بھلے ہی الگ الگ ہوں، لیکن دونوں ہی کھیلوں میں نقصان کا اندیشہ اور فائدے کے امکانات بے شمار ہوتے ہیں۔ اسے کھیلنے والا کھلاڑی اپنی ایک صحیح چال سے فرش سے عرش تک جا سکتا ہے اور ایک غلط چال اسے عرش سے لاکر فرش پر پٹک سکتی ہے۔ صحیح چال سیڑھی سے اوپر لے جاتی ہے اور غلط چال سانپ کے منہ میں پھنس کر نیچے لے جاتی ہے"۔ پاکستانی سیاست میں جماعت اسلامی کو آپ امر بیل کہہ سکتے ہیں یہ جس سے چمٹ جاتی ہے اسے بانجھ کر کے ہی چھوڑتی ہے، کیا اتنی سی بات عمران خان کی سمجھ میں نہیں آرہی؟ اتحادی تحریک انصاف کے لیکن اسپیکر کےلیے ووٹ ایاز صادق کو اور بھی بہت سارے تضاد دیکھنے کے بعد بھی کیا گنجائش باقی بچتی ہے جماعت اسلامی سے کسی بھی سطح پہ اتحاد کرنے کی؟ تحریک انصاف کو جو لوگ ووٹ ڈالنا بھی چاہ رہے تھے وہ بھی اب جماعت کی وجہ سے نہیں ڈالیں گے۔ امید ہے عمران خان این اے 246 کی ہار کو ابھی نہیں بھولے ہونگے، بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف یا تو سیدھا سیدھا ایم کیو ایم کا مقابلہ کرتی یا پھر ان انتخابات میں حصہ ہی نہ لیتی، کیونکہ ان انتخابات کے بعد تحریک انصاف جو مسلسل سیاسی خسارئے میں جارہی ہے مزید سیاسی خسارئے میں چلی جائے گی۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے اُسکی تو عادت ہے کہ ہر ہار کے بعد یہ اعلان ضرور کرتی ہے کہ اُسکے ساتھ بے ایمانی ہوئی ہے اور اگلے انتخابات میں وہ بھرپور کامیابی حاصل کرئے گی، جیسے وہ اسوقت کراچی کے انتخابات کے سلسلے میں کررہی ہے جبکہ پنجاب کی ہزاروں سیٹوں میں اسکا اسکور صرف دو ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے کراچی کو جیالا میئر دیں گے، بلاول زرداری نے مزید کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے پیپلزپارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ہے اُس کو رسوائی اور ذلت ہی نصیب ہوئی ہے جبکہ پیپلزپارٹی پہلے سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوئی ہے۔ بلاول زرداری جب یہ بیان دےرہے تھے تو اُنکی پھوپھی ایم این اے فریال تالپور، وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ،سینیٹر شیری رحمن، سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو،اراکین پارلیمنٹ اور پارٹی کے ضلعی عہدیداران بھی موجود تھے۔ بلاول کے اس بیان پرمجھے آج بلاول کی ماں بینظیر بھٹو اور اُسکے نانا اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو بہت یاد آئے کیونکہ اگر وہ دونوں آج موجود ہوتے تو بلاول کو یہ ضرور بتاتے کہ پیپلزپارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے تمارئے ساتھ بیٹھے ہیں۔ بلاول کی پھوپھی اور نانا کی عمر کے سید قائم علی شاہ بلاول کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ وقت بدل چکا ہے اور پیپلز پارٹی آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ اور اگر آپ کو بھی نہیں پتہ کہ وقت کیسے بدلتا ہے تو کراچی میں پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری سے آنے والی یہ خبر پڑھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔
"پیپلزپارٹی کو سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا جھٹکا لگا ہے اور اسے اپنے گڑھ لیاری سے کئی نشستوں پر کوئی امیدوار نہیں مل سکا۔ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو لیاری سے 7 یونین کمیٹی پر چیئرمین اور وائس چیئرمین کا کوئی امیدوار نہیں ملا جب کہ وارڈ کونسلر کی 39 نشستوں پر کوئی جیالا میدان میں نہیں" ۔
پھر بھی کہتے ہیں ۔۔۔۔زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔۔۔۔۔ زندہ ہے بی بی زندہ ہے۔۔۔۔۔
اگر ان دونوں میں سے کوئی آپکو مل جائے تو لیاری کی یہ خبر اُنکو ضرور سنادیجیے گا، مجھے یقین ہے بھٹو اور بینظیردونوں بہت رویں گے۔