کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ فائرنگ سے ہلاک

کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ فائرنگ سے ہلاک
ڈان اردو تاریخ اشاعت 18 ستمبر, 2014


541a80c987c0e.jpg

541a80c987c0e.jpg

فوٹو—اوپن سورس میڈیا
کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال میں نامعلوم افراد نے جمعرات کی صبح کراچی یونیورسٹی میں شعبہِ اسلامک اسٹیڈیز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگئے۔

فائرنگ کے بعد ڈاکٹر شکیل اوج کو زخمی حالت میں آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ڈاکٹر شکیل کو کتنی گولیاں لگیں۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے میں انہیں تین گولیاں سینے اور گردن پر لگیں۔

اس واقعہ کے بعد کراچی یونیورسٹی سمیت شہر کے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل معطل ہوگیا ہے۔

پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج پر نائن ایم ایم سے چھ فائر کیے گئے۔

مقتول شکیل اوج کی لاش کو اب آغا خان سے جناح ہسپتال لے جایا گیا ہے جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد اسے ورثاء کے حوالے کیا جائے گا۔

ڈان نیوز کے مطابق یہ واقع گلشنِ اقبال میں بیت المکرم مسجد کے قریب پیش آیا جہاں موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی۔

واقعہ کے بعد پولیس کی نفری علاقے میں پہنچ گئی ہے اور مزید تفتیش کی جارہی ہے۔

دوسری جانب اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ڈاکٹر شکیل اوج کے اہلِ خانہ ہسپتال پہنچ گئے ہیں۔

ادھر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کی قاتلانہ حملے میں ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے واقعہ پر رپورٹ طلب کرلی ہے۔

کراچی یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق ڈاکٹر شکیل اوج گزشتہ 19 سال سے جامعہ کراچی سے منسلک تھے اور یکم فروری سن 2012ء کو انہیں شعبہِ اسلامک اسٹڈیز کا سربراہ بنایا گیا تھا۔

انہوں نے اس عرصے کے دوران تقریباً 15 کتابیں بھی لکھیں۔

پروفیسر ڈاکٹر سکیل اوج سن 1960ء میں کراچی پیدا ہوئے۔

انہوں نے 1986ء میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔

پروفیسر شکیل اوج حدیث، فقہ اور سیرت نبوی پروسیع ریسرچ کے حامل تھے۔ ان کا شمار جامعہ کراچی کے لائق اساتذہ میں ہوتا تھا۔
http://urdu.dawn.com/news/1009758/
 

x boy

محفلین
اناللہ وانا الہ راجعون
بہت افسوس ہوا ایک سرمایہ، ایک امتیازی خوبیوں والا انسان کا خون بہا۔ جب سے شوکت حیات کو ہٹھایا گیا ہے اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اللہ ان قاتلوں کو انکے لیڈروں کے ساتھ انجام آخر تک پہنچائے ، آمین
 
ڈاکٹر شکیل ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔تحریر اور تدوین کے ساتھ ساتھ مختلف ٹی وی چینلز پر اسلامی معلومات کے پروگرامز بھی کرتے تھے، اسلامی معلومات کا ذخیرہ بکھیرتے رہنا پوری زندگی ڈاکٹر شکیل اوج کا وتیرہ رہا، اسی لئے وہ اپنے طلبا و طالبات کے علاوہ عام لوگوں میں بھی کافی مقبول تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج صاحب علوم تفسیر قرآن میں تحقیق و تصنیف کے حوالے سے معروف نام تھا، جسے آج ملک دشمن عزائم رکھنے والوں دہشتگردوں نے ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔ دہشت گردوں نے ایک استاد کو قتل کرکے قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ ایک عالم کی موت کا مطلب پورے عالم کی موت ہوتا ہے۔
فرقہ واریت پاکستان کے لئے زہر قاتل ہے۔ قرآن مجید، مخالف مذاہب اور عقائدکے ماننے والوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا نہیں بلکہ ’ لکم دینکم ولی دین‘ اور ’ لااکراہ فی الدین‘ کادرس دیتاہے اور جو انتہاپسند عناصر اس کے برعکس عمل کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول سلم ، قرآن مجید اور اسلام کی تعلیمات کی کھلی نفی کررہے ۔ فرقہ واریت مسلم امہ کیلئے زہر ہے اور کسی بھی مسلک کے شرپسند عناصر کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دینا اسلامی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ اتحاد بین المسلمین کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے۔ ایک دوسرے کے مسالک کے احترام کا درس دینا ہی دین اسلام کی اصل روح ہے دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز دہشت گرد قومی وحدت کیلیے سب سے بڑاخطرہ ہیں۔اسلام امن،سلامتی،احترام انسانیت کامذہب ہے لیکن چندانتہاپسندعناصرکی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کاامیج خراب ہورہا ہے۔طالبان،لشکر جھنگوی اور دوسرے دہشت گرد پاکستان بھر میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر ر ہے ہیں اور ملک کو فرقہ ورانہ فسادات کی طرف دہکیلنے کی سرتوڑ کوشیشیں کر رہے ہیں۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
پاکستان میں مذہبی جنونیت کا ایک اور نشانہ
کورنگی کے دیوبندی مدرسے سے جاری کئے فتوے کے مطابق مرحوم واجب القتل ٹھہرے تھے تو یہ تو ہونا ہی تھا جب تک ایسے مدرسے اور ایسے جاہل مولوی پلتے رہیں گے ان کے ہاتھ انسانیت کے خون سے رنگے رہیں گے
 

شعیب صفدر

محفلین
اگرچہ مجھے شکیل اوج صاحب کے اُس فتوی سے شدید اختلاف ہے جس میں انہوں نے مسلم لڑکی کو غیرمسلم مرد سے شادی کو جائز قرار دیا مگر اس کے باوجود وہ ایک قابل احترام شخصیت کے حامل فرد تھے ایسے علم دوست انسان کا قتل معاشرے کی تزلی کی نشانی ہے۔ اللہ کرے ہم شعوری طور پر ایک ایسا معاشرہ تخلیق کریں جہاں برداشت ہو۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اگرچہ مجھے شکیل اوج صاحب کے اُس فتوی سے شدید اختلاف ہے جس میں انہوں نے مسلم لڑکی کو غیرمسلم مرد سے شادی کو جائز قرار دیا مگر اس کے باوجود وہ ایک قابل احترام شخصیت کے حامل فرد تھے ایسے علم دوست انسان کا قتل معاشرے کی تزلی کی نشانی ہے۔ اللہ کرے ہم شعوری طور پر ایک ایسا معاشرہ تخلیق کریں جہاں برداشت ہو۔
لگے ہاتھوں ان کے قتل کے فتوے سے بھی اپنے اختلاف کا اظہار کر دیجئے :)
 

فیصل حسن

محفلین
پاکستان میں مذہبی جنونیت کا ایک اور نشانہ
کورنگی کے دیوبندی مدرسے سے جاری کئے فتوے کے مطابق مرحوم واجب القتل ٹھہرے تھے تو یہ تو ہونا ہی تھا جب تک ایسے مدرسے اور ایسے جاہل مولوی پلتے رہیں گے ان کے ہاتھ انسانیت کے خون سے رنگے رہیں گے
شکیل اوج صاحب نے اپنی حیات میں ہی اس فتوی کی تصدیق جب متعلقہ دارالعلوم سے کروائی تو پتہ چلا کہ وہ فتوی جعلی ہے اور اس دارالعلوم نے ایسا کوئی فتوی نہیں دیا.
 
Top