کراچی: 6 ضلعوں والا ایک شہر

یوسف-2

محفلین
11-5-2013_14354_1.gif
 

شمشاد

لائبریرین
ایک ضلع کے 6 شہر ہوں تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن 6 اضلاع کا ایک ہی شہر۔
 

اسد

محفلین
خبر پاکستان کے سب سے زیادہ چھپنے والے "اخبار" کی ویب سائٹ سے لی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ دیے گئے نقشے کا اس خبر سے قطعی کوئی تعلق نہیں بنتا، خبر میں دیے گئے علاقوں کا کہیں اتا پتا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کراچی والوں کو ان تمام علاقوں کا جغرافیہ ازبر ہو لیکن ہم باقی لوگوں کے لئے یہ محض ہوائی تیر ہے۔ ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ خبر مکمل ہے یا نہیں، یہ تو لکھا ہے کہ کورنگی پہلے ضلع شرقی کا حصہ تھا، لیکن کیا اس نئے ضلع میں شامل باقی علاقے بھی ضلع شرقی میں شامل تھے یا کسی اور ضلع میں شامل تھے۔ تصویر چسپاں کر نے کے ساتھ اگر یہ معلومات بھی فراہم کر دی جاتیں تو بہتر تھا۔

ایک طریقہ تو یہ ہے کہ حساب لگائیں کہ کراچی کی آبادی کتنی ہے، اسے 6 سے تقسیم کریں، کراچی کی فی ضلع آبادی پتہ چل جائے گی۔ پھر سندھ کی کل آبادی کو سندھ کے ضلعوں کی تعداد سے تقسیم کریں۔ پھر پاکستان کی کل آبادی کو کل ضلعوں سے تقسیم کریں۔

ایک چیز کا خیال رکھیں کہ کراچی ایک ہی شہر ہے اور فاصلے کم ہیں۔ ایک شہری ضلع میں کہیں زیادہ آبادی ہو سکتی ہے، جیسے لاہور کی آبادی تقریباً 60 لاکھ ہے اور ایک ہی ضلع ہے۔ ضلع لاہور کی آبادی کراچی سے تقریباً نصف سے کچھ کم ہے اور رقبہ بھی نصف ہے۔ لیکن پنجاب میں ضلعوں کی آبادی پاکستان کے دیگر صوبوں میں ضلعوں کی آبادی سے کافی زیادہ ہے۔

اگر اس نئے ضلع میں شامل علاقوں میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے تو محمد امین کی بات بھی درست ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم میں سے بیشتر یہ جاننے کی حالت میں نہیں ہیں۔ کوئی ہمارے علم میں اضافے کا باعث بننا چاہے گا؟
 

زیک

مسافر
پیپلز پارٹی کو کراچی پر اپنا تسلط قائم رکھنا ہے اسی سلسلے کی ایک چال ہے۔
کیسے؟ نیا ضلع بنانے سے آبادی میں تو فرق نہیں پڑتا اس لئے صوبائی اور قومی اسمبلی میں سیٹیں نہیں بدلیں گی۔ کیا کراچی میں ہر ضلع کی اپنی ضلعی حکومت بھی ہے؟ یا کراچی کی شہری حکومت میں فی ضلع سیٹیں ہیں؟
 

محمد امین

لائبریرین
کیسے؟ نیا ضلع بنانے سے آبادی میں تو فرق نہیں پڑتا اس لئے صوبائی اور قومی اسمبلی میں سیٹیں نہیں بدلیں گی۔ کیا کراچی میں ہر ضلع کی اپنی ضلعی حکومت بھی ہے؟ یا کراچی کی شہری حکومت میں فی ضلع سیٹیں ہیں؟

ضلعوں کا تعلق بلدیاتی حکومتوں اور بیوروکریسی سے زیادہ ہے بنسبت صوبائی و قومی مقننہ کے۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے جو حلقہ بندیاں ہو رہی ہیں ان میں تو سارے ہی پاکستان سے شکایتیں سننے میں آرہی ہیں کہ جس صوبے میں جس پارٹی کی حکومت ہے وہ بلدیاتی اداروں کے قیام کے لیے ایسی حلقہ بندیاں کر رہی ہے کہ اس کا تسلط علاقائی حکومتوں تک بھی رہے۔ کراچی کے ہر ضلعے میں پیپلز پارٹی کا لگایا ہوا ڈپٹی کمشنر اور دیگر بیوروکریٹک عملہ ہے، جو کہ ان کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے بجائے کہ عوام کے مفادات کو تحفظ دے۔ ماضی میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کی مشاورت سے ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں مگر اب چونکہ دونوں پارٹیز کی طلاق ہو چکی ہے اس لیے پی پی پی اپنے فیصلے کرنے میں کلی آزاد ہے۔

مشرف کے بنائے ہوئے بلدیاتی نظام سے کراچی کی شہری حکومتوں اور یونین کاؤنسلوں میں ایم کیو ایم اور مذہبی جماعتوں کی اکثریت نظر آئی تھی اسی لیے پی پی پی نے اپنے دور میں شہری حکومتوں کو تحلیل کر کے ضیاء الحق کے بیوروکریٹک بلدیاتی اداروں پر اعتماد کیا جس کی وجہ سے شہر میں پی پی پی کا تسلط unprecedentedly بڑھتا گیا اور حالیہ دنوں میں ان کی جانب سے کی جانے والی ہر تبدیلی اسی تسلط کے لیے ہے۔ جس کی تصدیق ایم کیو ایم اور نون لیگ کے احتجاج سے ہوتی ہے کہ دونوں کے شکایت ہے کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کورنگی ضلعے کے علاقوں میں ایم کیو ایم اور نون لیگ کی اکثریت ہے لیکن اگر ضلع بنانے میں تھوڑی بددیانتی بھی کی جائے تو کافی علاقے ایسے ہیں جو سندھی اور بلوچ یعنی پی پی پی کے حامیوں سے بھرے پڑے ہیں۔۔۔
 
Top