خرم شہزاد خرم
لائبریرین
پتہ نہیں کیوں ہم لوگو کو بتاتیں کرنا ہی کیوں آتی ہے ہم عمل کیوں نہیںکرتے کسی دوسرے کا انتظار کیوںکرتے رہتے ہیں کہ پہل کوئی کرے پھر ہم بھی اس کا ساتھ دے اگر ہم یہی سوچتے رہے تو پھر یہ بتائے کے پہل کون کرے گا ہم ہر کام میںصرف بحث کرنا جانتے ہیں اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتے آج صبح میں جب آفس آنے کے لیے گاڑی میں بیٹھا تو کنڈیکٹر نے کرایہ مانگا میں نے اس کو ساتھ روپے نکال کر دے راجہ بازار سے غریب آباد کے سات روپے ہی بنتے ہیں اور میں نے سیکم Iii اترنا تھا کنڈیکٹر نے کہا سات روپے نہیں دس روپے کرایہ ہے میںایک دم پرشان ہو گیا کل شام کو تو میں سات روپے ہی دے کر گھر گیا تھا یہ ایک رات میں ہی کرایہ بڑ گیا اور وہ بھی سات کی جگہ دس روپے تین روپے کا اصافہ میں نے کہا کرایہ نامہ دیکھاو اس نے کرایہ نامہ بھی دیکھا دیا اب میرے پاس کوئی جواز نہیںتھا بحث کرنے کا لیکن میں دس روپے کرایہ دینے کو تیار بھی نہیںتھا کیوں کہ یہ ایک دن کی بات نہیں تھی میںنے کہا سات روپے دوں گا ورنہ نہیںدوں گا اس کے بعد کیا تھا گاڑی میں بیٹھے ہوئے سب لوگ شور کرنا شروع ہو گیا " ارے تم نے کرایہ کیسے زیادہ کر دیا کل تک تو زیادہ نہیںہوا تھا '' گاڑی والے نے کہا ہم کیا کرے حکومت نے ہی کرایہ زیادہ کیا ہے یہ سر اس روٹ کی بات نہیں رالپنڈی میںہر جگہ کرایہ زیادہ ہو گیا ہے اب میں خاموش رہا لیکن باقی سب بولتے رہے میں نے تو اس کو صاف کہاتھا اگر کرایہ لینا ہے تو سات روپے لے لو ورنہ نہیںدیتا ہوں باقی سب بھی بات کرتے رہے لیکن بعد میںپتہ چلا گاڑی میںجتنے لوگ بھی بیٹھے تھے ان سب نے دس دس روپے کرایہ دے دیا تھا بس ایک میںہی تھا جس نے نہیںدیا تھا اب میں نے سوچا یہ سب تو اپنے اپنے سٹاپ پر اتر جائے گے پھر میرے خیر نہیں لیکن میںکیا کرتا میں نے اس کو سات روپے ہی دے لیکن سب نے پورا کرایہ دیا اب میں اکیلا کیا کروں شام کو واپس جاوں گا تو میں بھی خاموشی سے دس روپے کرایہ دے دوں گا
سب لوگ دوسروں کے کندھے میں رکھ کر توپ کیوں چلاتے ہیں اگر ہم سب اس بات پر ڈٹ جائے کے ہم سات سے زیادہ کرایہ نا دے گے تو ہو سکتا ہے کرایہ کم ہو جائے لیکن کوئی بولتا ہی نہیں ہے اور ہاں کوئی بولے بھی تو کیسے بولے سب کو آفس جانے کی جلدی ہوتی ہے آفس سے دیر ہو جائے تو تب بھی تنخواہ سے کٹوٹی ہوتی ہے گاڑی یا موٹر سائیکل ہر کوئی لے نہیںسکتا اس کے بھی اخرجات ہے
کیا کرے اس کا حل کیا نکالے
خرم شہزاد خرم
سب لوگ دوسروں کے کندھے میں رکھ کر توپ کیوں چلاتے ہیں اگر ہم سب اس بات پر ڈٹ جائے کے ہم سات سے زیادہ کرایہ نا دے گے تو ہو سکتا ہے کرایہ کم ہو جائے لیکن کوئی بولتا ہی نہیں ہے اور ہاں کوئی بولے بھی تو کیسے بولے سب کو آفس جانے کی جلدی ہوتی ہے آفس سے دیر ہو جائے تو تب بھی تنخواہ سے کٹوٹی ہوتی ہے گاڑی یا موٹر سائیکل ہر کوئی لے نہیںسکتا اس کے بھی اخرجات ہے
کیا کرے اس کا حل کیا نکالے
خرم شہزاد خرم