محمد سعد
محفلین
آپ کے بتائے ہوئے حالات پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ غربت سے زیادہ اس مسئلے کی وجہ دین سے دوری ہے۔ کیونکہ جو شخص دین سے دور ہو جاتا ہے، اس کے لیے یہ فانی دنیا ہی ہر شے بن جاتی ہے۔ اور چونکہ آخرت پر سے اس کا ایمان اٹھ جاتا ہے، اس لیے وہ اسی فانی دنیا کی فانی نعمتوں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ ایسا شخص اگر رشوت سے رک بھی جاتا ہے تو کتنا عرصہ کامیابی کے ساتھ رکا رہے گا؟میرا ایک بھائی پولیس میں بھرتی ہو گیا ہم سب گھر والے اس کا مزاق اڑاتے تھے کہ اب تم بھی رشوت لیا کرو گے تمہارا بھی سب پولیس والوں جیسا حال ہوگا پیٹ نکل آئے گا تو وہ کہتا تھا ہر بندے کا اپنا اپنا ضمیر ہوتا ہے میں اپنے ضمیر کو کبھی نہیں ماروں گا وہ سنجیدہ ہو جاتا تھا اب بھی بات کرے تو وہ سنجیدہ ہو جاتا تھا جب اس کی ٹریئنگ شروع ہوئی تو وہ ایک مہنے کے بعد آتا تھا گھر میں ہم سب بھائیوں سے اس کی صحت سب سے اچھی تھی اب بھی ہے لیکن پہلے والی نہیں رہی 6 ماہ تک اس نے ٹریئنگ کی اس کے چہرے سے ہی پتہ چل گیا وہ خوش نہیں ہے ایک دن میں نے اس سے پوچھا کیوں بھائی کیا مسئلہ ہے کیوں پرشان پرشان رہتے ہو کہتا ہے بھائی آپ کو تو پتہ ہے میں کیا سوچ کر پولیس میں ہوا تھا لگتا ہے میرا مقصد پورا نہیں ہو گا میں نے پوچھا وہ کیوں کہتا ہے بھائی سب سے پہلے رشوت لینے اور دینے کا سلسلہ ٹرینگ سے ہی شروع ہو جاتا ہے چھٹی لینے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں کہی جانا ہو تو پھر بھی پیسے دینے پڑتے ہیں سزا کم کروانے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں یہ سب سلسلہ وہی سے شروع ہو گیا ہے کہتا ہے
ایک دین ہمارے استاد جو ہم کو ٹریئنگ کرواتے ہیں ان سے ایک لڑکے نے پوچھا سر رشوت لینے اور دینے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں لینی چاہے یا نہیں۔ کہنے لگا میرے خیال میں تھا کہ استاد صاحب بہت جزباتی ہو جائے گے اس سوال پر اور ہم سب کو بہت سمجھائے گے لیکن استاد صاحب نے جواب دیا دیکھ جس کا آپ کام کر رہے ہیں اگر تو کام ہو جاتا ہے اور وہ آدمی اپنی خوشی سے کچھ دیتا ہے تو وہ لے لو لیکن اس کو مجبور نا کرو
یعنی رشوت لینے سے روکا ہی نہیں جاتا ہے آج کل وہ ایک گاوں میں ہوتا ہے آزاد کشمیر کی طرح اس کو اسلام آباد نہیں رکھا گیا پتہ نہیں کیوں
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پولیس والوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ انہیں بھی فوج جیسی سہولیات ملنی چاہییں۔ یہ ان کا حق ہے۔