کربلائے سخن اب خشک ہے کیسا پانی (نصیر ترابی کا سلام)

منہاج علی

محفلین
کربلائے سخن اب خشک ہے کیسا پانی
چشمِ تر تُو ہی ذرا دیر کو برسا پانی

بندشِ آب چٹانوں کا جگر کاٹ گئی
انتہا یہ کہ نشیبوں میں نہ ٹھہرا پانی

یوں رواں ہوتا نہ دریائے کرم شہؑ کا، تو لوگ
جھانکتے پھرتے کنویں اور نہ ملتا پانی

شہرِ دل ہوگیا آباد غمِ سرورؑ میں
سرزمیں اچّھی، ہَوا اچّھی ہے، اچّھا پانی

کس حدِ صبر پہ خاموش تھے انصارِ حسینؑ
لشکرِ شام تو چیخ اٹھتا ’’خدارا پانی‘‘

کہہ کے یہ نوش کیا آبِ شہادت حرؑ نے
’’ایسے پانی سے تو ہے تیغ کا اچّھا پانی‘‘

مشک بے آب علمدارؑ کی اور دل سیراب
کہیں قطرہ نہیں پانی، کہیں دریا پانی

کس پذیرائی سے موجوں نے قدم بوسی کی
مقدمِ صاحبِ رایت کا تھا پیاسا پانی

اُس طرف پانی ہی سرچشمۂ جنگ اور اِدھر
مقصدِ رزم تھا کچھ اور بہانہ پانی

پیاس میں آنکھ بالآخر جو سکینہؑ کی لگی
خواب میں حدِّ نجف تک نظر آیا پانی

سُن کے اکبرؑ کا سخن شہؑ نے بہ حسرت یہ کہا
’’کہنا سب کچھ مِرے پیاسے یہ نہ کہنا پانی‘‘

اس قدر ہوگیا محجوب کہ پیشِ اصغرؑ
اپنی صورت بھی دکھانے نہیں آیا پانی

دجلۂ وقت ہی ساکن ہو تو کیا کہیے نصیرؔ
ماہیٔ طبع کو درکار ہے بہتا پانی

نصیر ترابی
 

سیما علی

لائبریرین
یہ ہے مجلسِ شہِ عاشقاں کوئی نقدِ جاں ہو تو لیکے آ
یہاں چشمِ تر کا رواج ہے ، دلِ خونچکاں ہو تو لیکے آ

یہ فضا ہے عنبر و عود کی، یہ محل ہے وردِ درود کا
یہ نمازِ عشق کا وقت ہے، کوئی خوش اذاں ہو تو لیکے آ

یہ جو اک عزا کی نشست ہے، یہ عجب دعا کا حصار ہے
کسی نارسا کو تلاش کر، کوئی بے اماں ہو تو لیکے آ

یہ عَلم ہے حق کی سبیل کا، یہ عَلم ہے اہلِ دلیل کا
کہیں اور ایسی قبیل کا، کوئی سائباں ہو تو لیکے آ

یہ حضورو غیب کے سلسلے، یہ متاعِ فکر کے مرحلے
غمِ رائیگاں کی بساط کیا، غمِ جاوداں ہو تو لیکے آ

سرِ لوحِ آب لکھا ہوا، کسی تشنہ مشک کا ماجرا
سرِ فردِ ریگ لکھی ہوئی، کوئی داستاں ہو تو لیکے آ

ترے نقشہ ہائے خیال میں، حدِ نینوا کی نظیر کا
کوئی اور خطۂ آب و گِل، تہہِ آسماں ہو تو لیکے آ

کبھی کُنجِ حُر کے قریب جا، کبھی تابہ صحنِ حبیب جا
کبھی سوئے بیتِ شبیب جا، کوئی ارمغاں ہو تو لیکے آ

مرے مدّ وجزر کی خیر ہو کہ سفر ہے دجلۂ دہر کا
کہیں مثلِ نامِ حسینؑ بھی، کوئی بادباں ہو تو لیکے آ

نہ انیس ہوں نہ دبیر ہوں، میں نصیر صرف نصیر ہوں
مرے حرفِ ظرف کو جانچنے، کوئی نکتہ داں ہو تولے کے آ

نصیر ترابی
 
آخری تدوین:

منہاج علی

محفلین
کربلائے سخن اب خشک ہے کیسا پانی
چشمِ تر تُو ہی ذرا دیر کو برسا پانی

بندشِ آب چٹانوں کا جگر کاٹ گئی
انتہا یہ کہ نشیبوں میں نہ ٹھہرا پانی

یوں رواں ہوتا نہ دریائے کرم شہؑ کا، تو لوگ
جھانکتے پھرتے کنویں اور نہ ملتا پانی

شہرِ دل ہوگیا آباد غمِ سرورؑ میں
سرزمیں اچّھی، ہَوا اچّھی ہے، اچّھا پانی

کس حدِ صبر پہ خاموش تھے انصارِ حسینؑ
لشکرِ شام تو چیخ اٹھتا ’’خدارا پانی‘‘

کہہ کے یہ نوش کیا آبِ شہادت حرؑ نے
’’ایسے پانی سے تو ہے تیغ کا اچّھا پانی‘‘

مشک بے آب علمدارؑ کی اور دل سیراب
کہیں قطرہ نہیں پانی، کہیں دریا پانی

کس پذیرائی سے موجوں نے قدم بوسی کی
مقدمِ صاحبِ رایت کا تھا پیاسا پانی

اُس طرف پانی ہی سرچشمۂ جنگ اور اِدھر
مقصدِ رزم تھا کچھ اور بہانہ پانی

پیاس میں آنکھ بالآخر جو سکینہؑ کی لگی
خواب میں حدِّ نجف تک نظر آیا پانی

سُن کے اکبرؑ کا سخن شہؑ نے بہ حسرت یہ کہا
’’کہنا سب کچھ مِرے پیاسے یہ نہ کہنا پانی‘‘

اس قدر ہوگیا محجوب کہ پیشِ اصغرؑ
اپنی صورت بھی دکھانے نہیں آیا پانی

دجلۂ وقت ہی ساکن ہو تو کیا کہیے نصیرؔ
ماہیٔ طبع کو درکار ہے بہتا پانی

نصیر ترابی
ایک مصرع درست کرلیجیے
’’شہرِ دل ہوگیا آباد غمِ سرورؑ سے‘‘
 
Top