ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 13

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000015.gif
 

شاہ حسین

محفلین
۲۸

عباس :۔ اس میں کوئی شک نہیں ہو سکتا ہے وہ پیغمبر خدا تھے ۔ خدا کی پناہ جس وقت حضرت نے اسلام کی صدا بلند کی تھی ۔ اس ملک میں جہالت کی کتنی سخت تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔ وہ خدا ہی کی آواز تھی۔ جو آپ کے دل سے بلند ہوئی تھی ۔ جو کانوں میں پڑتے ہی دلوں میں اتر جاتی تھی ۔ دوسرے مذہب والے کہتے ہیں کہ اسلام نے تلوار کے زور سے اپنا سکہ جمایا ۔ کاش انہوں نے حضرت کی آواز سُنی ہوتی ! میرا تو دعویٰ ہے کہ قرآن پاک میں ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس کا منشا تلوار سے اسلام پھیلانا ہو ۔
حسین :۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ ابھی سے قوم نے ان نصحیتوں کو فراموش کرنا شروع کردیا اور وہ ناپاک وجود جو حضور کی مسند پر بیٹھا ہوا ہے ۔ آج کھُلے بندوں شراب پیتا ہے ۔ (غلام آتا ہے )
غلام :۔ آل نبی پر خدا کی رحمت ہو ۔ امیر نے آپکو کسی ضروری کام کیلئے بُلایا ہے ۔
عباس :۔ یہ وقت یزید کے دربار کا نہیں ہے ۔
غلام :۔ حضور کوئی خاص کام ہے ۔
حسین :۔ تو جا ہم گھر جاتے وقت اُدھر سے ہوتے جائیں گے (غلام چلا جاتا ہے )
عباس :۔ بھائی جان ؟ مجھے اس وقت کی طلبی سے کچھ اندیشہ ہو رہا ہے ۔ یہ وقت دربار کا نہیں ۔ مجھے دال میں کچھ کالا سا نظرتا ہے ۔ کیا آپ کچھ قیاس فرما سکتے ہیں کہ کس لئے بُلاتا ہے ۔؟
حسین :۔ میرا دل تو گواہی دیتا ہے کہ معاویہ نے وفات پائی ۔
عباس :۔ تو ولید نے آپ کو اس لئے بلایا ہو گا ۔ کہ آپ سے یزید کی بیعت لے ۔
حسین :۔ میں یزید کی بیعت کیونکر لینے لگا ۔ معاویہ نے بھائی امام حسن سے شرط


۲۹

کی تھی کہ وہ مرنے کے بعد اپنی اولاد میں سے کسی کو خلیفہ نہ بنائے گا ۔ امام حسن کے بعد خلافت پر میرا حق ہے ۔ اگر معاویہ مرگیا ہے اور یزید کو خلیفہ بنایا گیا ہے تو اس نے میرے ساتھ اور اسلام کے ساتھ دغا کی ہے ۔ یزید شرابی ہے ۔ بدکار ہے جھوٹا اور لا مذہب ہے ۔ کتوں کو گود میں لے کر بیٹھتا ہے ۔ چاہے مجھے جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ لیکن میں اس کی بیعت نہ کروں گا ۔
عباس معاملہ نازک ہے ۔ یزید کی ذات سے کوئی بعید نہیں ۔ کاش ہمیں معاویہ کی بیماری اور موت کی خبر پہلے مل گئی ہوتی (غلام پھر آتا ہے )
غلام :۔ حضور تشریف نہیں لائے ۔ امیر آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔
حسین :۔ تفُ ہے تجھ پر تو وہاں گیا بھی کہ راستے ہی سے لوٹ آیا ؟ چل میں ابھی آتا ہوں ۔ اب پھر نہ آنا ۔
غلام :۔ حضور ! امیر سے جب میں نے جاکر کہا کہ وہ ابھی آتے ہیں ۔ تو وہ چُپ ہو گئے ۔ مگر مروان نے کہا کہ وہ کبھی نہ آئیں گے ۔ آپ سے دغا کریں گے ۔ اُس پر امیر اُن سے بہت ناراض ہوئے اور کہا حسین صادق القول ہیں جو کہتے ہیں اُسے پُورا کرتے ہیں ۔
حسین :۔ ولید نہایت شریف آدمی ہے ۔ تم جاؤ ۔ ہم ابھی آتے ہیں ۔
(غلام چلا جاتا ہے )

عباس :۔ آپ جائیں گے ۔ ؟
حسین :۔ جب تک کوئی سبب نہ ہو کسی کی نیت پر شک کرنا مناسب نہیں ۔
عباس :۔ بھیّا میری جان آپ پر فدا ہو مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں آپ کو
 
Top