۴۰
مسلم :۔ یا امیر ہم آپ کے قدموں پر نثار ہونا ہی اپنی زندگی کا حاصل سمجتے ہیں ۔ ایسی موت زندگی سے ہزار درجے بہتر ہے ۔ کیا ہم آپ کو اکیلا چھوڑ جائیں گے ۔
علی اکبر :۔ ابّا میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوکر نماز پڑھتا تھا ۔ آپ یہاں چھوڑ دیں گے تو نماز کیسے پڑھوں گا ۔
زینب :۔ بھیّا ! کیا کوئی امید نہیں ہے ؟ کیا مدینہ میں رسول کے بیٹے پر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے ؟ اس شہر سے وہ نور پھیلا جس سے سارا عالم روشن ہوگیا ۔ کیا حق کی وہ روشنی اس قدس جلد غائب ہو گئی ؟ آپ یہاں سے حجاز اور یمن کی طرف قاصدوں کو کیوں نہیں روانہ کرتے ؟
حسین :۔ زینب افسوس کہ خدا کو کچھ اور ہی منظور ہے ۔ اب مدینہ میں میرے لئے راحت نہیں ۔ یہ ولید کی شرافت ہے جو ہم آزادی سے کھڑے ہیں ورنہ یزید کی فوج نے ہمیں گھیر لیا ہوتا ۔ آج مجھے صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جانا چاہئیے ۔ یزید کو میرے عزیزوں سے دشمنی نہیں ۔ اسے خوف صرف میرا ہے ۔ تم لوگ مجھے یہاں سے رخصت کرو ۔ مجھے یقین ہے کہ یزید تم لوگوں کو تنگ نہ کرے گا ۔
اس کے دل میں چاہے ہو نہ ہو ۔ مگر مسلمانوں کی غیرت باقی ہے ۔ وہ رسول کی بہو بیٹیوں کی آبرو لٹتے دیکھیں گے ۔ تو ان کا خون ضرور گرم ہو جائے گا ۔
زینب :۔ بھیّا یہ ہرگز نہ ہوگا ۔ ہم آپ کے ہمراہ چلیں گے ۔ اگر اسلام کا بیٹا اپنی دلیری سے اسلام کا وقار قائم رکھے گا ۔ تو ہم صبر سے ضبط سے برداشت سے اس کی شان کو بڑھائیں گے ۔ گو ہم پر جہاد حرام ہے مگر موقع پڑنے پر ہم صبر کرنا اور گھٹ کر مرجانا جانتے ہیں ۔ رسول پاک کی قسم آپ ہماری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھیں گے۔
۴۱
ہمارے لبوں سے فریاد نہ سنیں گے ۔ اور ہمارے دلوں سے آہ نہ نکلے گی ۔ آپ حق پر جان دے کر اسلام کی آبرو رکھنا چاہتے ہیں ۔ تو میں بھی ایک لامذہب اور بدکار کی حمایت میں رہ کر اسلام پر داغ لگانا نہیں چاہتی ۔
(سپاہیوں کا ایک دستہ سڑک پر آتا ہوا دکھائی دیتا ہے )
حسین :۔ عباس یزید کی سپاہ آرہی ہے ۔ ولید نے بھی دغا کی ۔ آہ ہمارے ہاتھوں میں تلوار بھی نہیں ہے ۔ خیر خدا ہمارا مددگار ہے ۔
عباس :۔ کلام پاک کی قسم یہ مردود آپ کے قریب بھی نہ آنے پائیں گے ۔
زینب :۔ بھیّا آپ سامنے سے ہٹ جائیے ۔
حسین :۔ زینب گھبراؤ نہیں آج میں دکھلادوں گا کہ علی کا بیٹا کتنی بہادری سے جان دیتا ہے ۔
(عباس باہر نکل کر فوج کے سردار سے )
اے سردار کس کی بدنصیبی ہے کہ تو اس کی طرف جارہا ہے ۔
سردار : یا حضرت ہمیں شہر میں گشت لگانے کا حکم ہوا ہے کہ دیکھیں کہیں باغی تو جمع نہیں ہو رہے ۔
حسین :۔ دیر کرنے کا موقع نہیں ہے چلو اماں جان سے رخصت ہو لوں ۔ (فاطمہ کی قبر پر جاکر ) اے مادر جہاں ۔ تمہارا بدنصیب بیٹا جسے تم نے گود میں پیار سے کھلایا تھا ۔ جسے تم نے اپنے سینے سے دودہ پلایا تھا ۔ آج تم سے رخصت ہو رہا ہے ۔ اور شاید اُسے تمہاری قبر کی زیارت نصیب نہ ہو (روتے ہیں )
(اہل مدینہ کی آمد )