۴۸
وہب :۔ مجھے اپنے ایمان کے معاملے میں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ خلافت کے حقدار حضرت حسین ابن علی ہیں ۔ زیاد کی بیعت کبھی نہ قبول کروں گا ۔ جائداد رہے یا نہ رہے ۔ جان رہے یا جائے ۔
قمر :۔ بیٹا تیری ماں تجھ پر صدقہ ۔ تیری باتوں نے دل خوش کردیا ۔ آج مجھ جیسی خوش نصیب ماں دنیا میں نہ ہوگی ۔ مگر بیٹا تمہارے ابّا جان ٹھیک کہتے ہیں ۔ نسیمہ سے پوچھ لو دیکھو وہ کیا کہتی ہے ۔ میں نہیں چاہتی کہ ہم لوگوں کی دین پروری کے باعث اُسے تکلیف ہو اور جنگلوں کی خاک چھاننی پڑے ۔ اس کی دلجوئی کرنا تمہارا فرض ہے ۔
وہب :۔ آپ فرماتی ہیں تو میں اُس سے پوچھ لیتا ہوں ۔ مگر صاف کہے دیتا ہوں کہ میں اس کی مرضی کا غلام نہ بنوں گا ۔ اگر اسے دین کے مقابلے میں عیش و آرام زیادہ پسند ہے تو وہ شوق سے رہے ۔ لیکن میں بیعت کی ذلّت نہ اٹھاؤں گا ۔
(دروازہ کھول کر باہر چلا جاتا ہے )
ساتواں سین
عرب کا ایک گاؤں ۔ ایک عالی شان مندر بنا ہواہے ۔ جس کے پختہ گھاٹ بنے ہوئے ہیں ۔ دلفریب ۔ دلفریب باغ ہے ۔ مور ہرن گائے وغیرہ ادھر تالاب ہے ۔ اُدھر سیر کررہے ہیں ۔ ساہس رائے اور ان کے اعزہ تالاب کے پاس سندھیا اور ہون میں مصروف ہیں ۔
۴۹
(ساہس رائے دعا پڑھتے ہیں )
بھگوان ہمیں طاقت عطا کیجئے ہم ہمیشہ اپنے مذہبی عقائد کے پابند رہیں ۔
ہماری اولاد ہمیشہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلے ۔ ہم اپنا خون غریبوں کی حفاظت میں نثار کرتے ہیں ۔ ہمارے سر ہمیشہ صداقت اور انصاف پر فدا ہوتے ہیں ۔ پرماتما وہ دن جلد آئے ۔ کہ ہم برائیوں سے توبہ کر کے ہندستان چلیں اور رشیوں کی خدمت و طاعت میں بخوشی مصروف ہو کر اپنی زندگی کو مفید بنائیں ۔ ویاندھ ہمیں ایسی مناسب عقل پروان کیجئے کہ ہمیشہ راہِ عمل پر ثابت قدم رہیں ۔ اور اس بدنما داغ کو جو ہمارے بزرگوں نے ہمارے چہروں پر لگادیا ہے ۔ اپنے عمل نیک سے مٹا کر سر خرو ہو جائیں ۔ جب ہم وطن پہنچیں تو ہمارے چہروں سے روحانیت کی ضو ٹپکے ۔ ہمارے ہم وطن خوشی کے ساتھ ہمارا استقبال کریں ۔ اور ہم وہاں ذلیل بن کر نہیں قوم کے ذی عزّت افراد بن کر زندگی بسر کریں ۔
(غلام آتا ہے )
غلام :۔ غریب پرور خبر آئی ہے کہ حضرت معاویہ کے بیٹے یزید نے خلافت پر قبضہ کرلیا ۔
ساہس رائے :۔ یزید نے خلافت پر قبضہ کرلیا ! یہ کیسے ؟ اس کا خلافت پر کیا حق تھا ۔ خلافت تو حضرت علی کے بیٹے حسین کو ملنی چاہئیے تھی ۔
ہرجس رائے :۔ ہاں حق تو حسین کا ہے ۔ امیر معاویہ سے پہلے اسی شرط پر صلح ہوئی تھی ۔
سنگھ دت :۔ یزید کی شرارت ہے ۔ مجھے معلوم ہے وہ مغرور غصہ ور اور