۵۰
عیاش آدمہ ہمیشہ عیش و عشرت میں منہمک رہتا ہے ۔ ہم ایسے بدکاروں کی خلافت ہرگز قبول نہیں کرسکتے ۔
پُنّ رائے :۔ (غلام سے ) کچھ معلوم ہوا حسین کیا کررہے ہیں ۔
غلام :۔ وہ مدینہ سے نکل کر مکّہ چلے گئے ہیں ۔
سنگھ دت :۔ یہ مناسب وقت تھا ۔ فوراً اہل مدینہ کو یک جا کرکے یزید کے عامل کو قتل کردینا چاہئے تھا ۔ بعد ازاں اپنی خلافت کا اعلان کردینا چاہئے تھا ۔ مدینہ چھوڑ کر انہوں نے اپنی کمزوری قبول کر لی ۔
رام سنگھ :۔ حضرت حسین دین پرور ہیں ۔ اپنے بھائیوں کا خون نہیں بہانا چاہتے ۔
دھرودت :۔ ایذا رسانی سخت گناہ ہے ۔ دین پرور آدمی کتنی ہی تکلیف میں ہو مگر کسی کے درپے آزار نہیں ہوتا ۔
بھیرودت :۔ انصاف کی حمایت کے لئے تیغ آزمائی گناہ نہیں ہے ، مردم کشی انصاف کشی سے بہتر ہے ۔
ساہس رائے :۔ اگر واقعی یزید نے خلافت غضب کرلی ہے تو ہمیں اپنے مذہبی اصول کے موافق انصاف کی حمایت کرنی پڑے گی ۔ یزید کی سطوت و شوکت میں شک نہیں لیکن ہم مذہبی قوانین کو توڑ نہیں سکتے ۔ ہمیں اس کے پاس قاصد بھیج کر یہ جانچ لینا چاہئے کہ ہمیں کس راتے پر چلنا مناسب ہے ۔
سِنگھ دت :۔ جب یہ امر مسلمہ ہے کہ اس نے انصاف کا خون کیا تو اس کے پاس قاصد بھیج کر تاخیر کیوں کی جائے ہمیں فوراً اس سے جنگ کرنی چاہئے ۔
۵۱
ناانصافی کو بھی اپنی حمایت کے لئے دلیلوں کی کمی نہیں ہوتی ۔
ہرجس رائے :۔ میں کہتا ہوں کہ ابھی جنگ کی ابتدا ہی کیوں کی جائے۔ آئین سلطنت کے اصول سہِ گانہ کی جانچ کے بعد تلوار اٹھانی چاہئیے ۔ خصوصاً اس وقت ہماری حالت ایسی نہیں کہ ہم روحانیت در روحانیت کا ڈنکا بجاتے ہوئے میدانِ جنگ میں کود پڑیں ۔ تلوار کھیچنا ہمیشہ آخری تدبیر ہونی چاہئے ۔
سِنگھ دت :۔ دولت کا منشا دین کی حفاظت ہے ۔
ہرجس رائے :۔ دین بہت ہی جامع لفظ ہے ۔ دولت صرف حق کی حمایت کے واسطے ہے ۔
رام سنگھ :۔ حق کی حفاظت خون سے نہیں ہوتی ۔ مروت ، عاجزی ،ہمدردی ، اخلاق ، خدمت یہ سب اس کی آزمودہ تدبیریں ہیں ۔ اور ہمیں ان تدبیروں کی کامیابی کا تجربہ ہوچکا ہے ۔
سنگھ دت :۔ آئین سلطنت کے وسیع میدان میں یہ تدبیریں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب تلوار اس کی حامی ہو ۔ ورنہ ان کا اثر نالئہ صحرا سے زیادہ نہیں ہوتا ۔
ساہس رائے :۔ ہمارا منشا اپنی بہادری کا اظہار یا انتظام سلطنت کی قابلیتوں کا اعلان نہیں ہے ۔ ہمارا مطلب آئین مصالحت کی پیروی کرنا ہے ۔ ہم حمایت حق کے مدعی ہیں ۔ چاہے اس کے لئے کوئی طریقہ اختیار کرنا پڑے ۔ اسی لئے سب سے پہلے ہمیں قاصدوں کے ذریعہ سے یزید کی دلی خوہش معلوم کرنی چاہئیے ۔اس کے بعد ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا ۔ ہمارا فرض کیا ہے میں رام سنگھ اور بھیرودت سے استدعا کرتا ہوں ۔ کہ یہ لوگ آج ہی شام کو وہاں جانے کے لئے تیار ہو جائیں ۔
(سب جاتے ہیں )