۶۰
یزید :۔ اُستاد تم بھی چوک گئے ۔ پھر زور لگانا ۔ اب ضحاک کی باری ہے ۔ کہئیے شیخ جی جنت کہاں ہے ۔
ضحاک :۔ بتلاؤں ؟ اس شراب کے پیالے میں ۔
یزید:۔ پتے پر پہنچے مگر ابھی کچھ کسر ہے ۔ ذرا اور زور لگاؤ ۔
ضحاک :۔ اُس پیالے میں جو کسی نازنین کے ہاتھ سے ملے ۔
یزید :۔ لانا ہاتھ ۔ بس وہی جنت ہے ۔ مئے گلفام اور کسی نازنین کا پنجئہ مرجان اس ایک جنت پر ہزاروں جنتیں قربان ہیں۔ اچھا اب بتاؤ دوزخ کہاں ہے ۔
حُر :۔ یا خلیفہ آپ کو دین حق کی توہین مناسب نہیں ۔
یزید :۔ حُر تم نے سارا مزا کرکرا کردیا ۔ آنکھوں کی قسم تم میری مجلس میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو ۔ سارا مزہ خاک میں مِلا دیا ۔ یزید کے سامنے دین کا نام لینا منع ہے ۔ دین ان ملاؤں کے لئے ہے ۔ جو مسجد میں پڑے ہوئے گوشت کی ہڈیوں کو ترستے ہیں ۔ دین ان کے لئے ہے جو مصیبتوں کے سبب سے زندگی سے بیزار ہیں ۔ جو محتاج ہیں ۔ بے بس ہیں ۔ بھوکوں مرتے ہیں ۔ جو غلام ہیں ۔ دُرّے کھاتے ہیں ۔ دین بڈھے مردوں کےلئے بیوہ عورتوں کے لئے دیوالیہ سوداگروں کے لئے ہے ۔
اس خیال سے اُن کی اشک جوئی ہوتی ہے ۔ دل تسکین پاتا ہے بادشاہوں کے لئے نہیں ہے ۔ ان کی نجات اُن کے ہاتھوں میں ہے ۔ دوستوں بتلانا ہمارا پیر و مرشد کون ہے ۔
۶۱
ضحاک :۔ پیر مغاں ( ساقی )
یزید :۔ لانا ہاتھ ۔ ہمارا پیر ساقی ہے ۔ ہمارا پیر مغاں ساقی ہے ۔ جس کے دستِ کرم سے ہمیں یہ نعمت میسر ہوئی ہے ۔اچھا کون میرے سوال کا جواب دیتا ہے ۔ دوزخ کہاں ہے ۔
شمس :۔ کسی سود خور کی توند میں ۔
یزید :۔ بلکل غلط ۔
رومی :۔ خلیفہ کے غُصہ میں ۔
یزید :۔ (مسُکراکر ) انعام کے قابل جواب ہے مگر غلط ۔
قیس :۔ کسی مُلاّ کی نماز میں جو زمین پر سجدہ کرتے ہوئے یہ دیکھتا رہتا ہے کہ کہیں سے روٹیاں آتی ہیں یا نہیں ۔
یزید :۔ واللہ خوب جواب ہے مگر غلط ۔
ضحاک :۔ کسی نازنین کے روٹھنے میں ۔
یزید :۔ ٹھیک ٹھیک ، بلکل ٹھیک لانا ہاتھ دل خوش ہوگیا (طوائفوں سے ) نرگس اس جواب کی داد دو ۔ زُہرہ شیخ جی کے ہاتھوں کو بوسہ دو ۔ وہ گیت گاؤ ۔ جس میں شراب کی بو ہو ۔ شراب کی گرمی ہو ۔
نرگس :۔ آج خلیفہ سے کوئی بڑا انعام لوں گی (گاتی ہے )
(ایک قاصد کی آمد )
قاصد :۔ السلام علیک یا امیر ۔ ابن زیاد نے مجھے کوفے سے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے ۔
یزید :۔ خط لایا ہے ؟