۷۶
کا فرض ہے ۔ لیکن آپ کے خاندان کی بھی تو کوئی خبر لینے والا ہو ۔ انسان پر دُنیا سے پہلے اپنے خاندان کا حق ہوتا ہے ۔
حسین :۔ ذرا اس خط کو پڑھ لو اور تب کہو کہ میں نے جو فیصلہ کیا ہے وہ مناسب ہے یا نہیں (شہر بانو کے ہاتھ میں خط دے کر ) دیکھا اس سے کیا ثابت ہوتا ہے لیکن جس قدر آدمیوں نے اس پر دستخط کئے ہیں ۔ اُس کے نصف بھی میرے ساتھ ہو جائیں گے تو میں یزید کا قافیہ تنگ کردوں گا ۔ اسلام کی حفاظت اس قدر اہم ہے کہ اس کی کوشش میں جان دے دینا بھی ذلّت نہیں ۔ جب میرے ہاتھوں میں ایک سیاہ کار ، بےدین ، بدکار آدمی کے سزا دینے کا موقع آیا ہے ۔ تو اس سے مستفید نہ ہونا پرلے درجے کی پست ہمتی ہے ۔ گھر میں آگ لگتے دیکھ کر اس میں کود پڑنا نادانی ہے ۔ لیکن پانی ملنے پر آگ کو نہ بجھانا ۔ اس سے بھی بڑی نادانی ہے ۔
سکینہ :۔ مگر ابّا جان ۔ اب تو محرم کا مہینہ آرہا ہے ۔ پھوپھی جان کی بہت دنوں سے آرزو تھی کہ اس مہینہ میں یہاں رہتیں ۔
حسین تم لوگوں کو لے کر جانے کا میرا ارادہ نہیں ہے ۔
زینب :۔ بھیّا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ وہاں اور ہم یہاں رہیں ! خدا معلوم کیا افتاد پیش آئے ۔
سکینہ :۔ ابّا جان دل دیکھتے ہیں اور آپ سچ سمجھ گئیں ۔
کلثوم :۔ اور کوئی چلے نہ چلے میں تو ضرور جاؤں گی ۔ میرے دل سے لگی ہوئی ہے کہ ایک بار یزید کو خوب آڑے ہاتھوں لیتی ۔
۷۷
سکینہ :۔ میں اپنی فتح کا قصیدہ لکھنے کے لئے بیتاب ہوں ۔
شہر بانو :۔ آپ سمجھتے ہیں ہمارے ساتھ رہنے سے آپ کو تردد ہوگا ۔ مگر میں پوچھتی ہوں ۔ آپ کو وہاں پھنسا کر دشمنوں نے ادھر حملہ کردیا تو ہماری حفاظت کی فکر آپ کو چین لینے دے گی ۔؟
زینب :۔ اصغر ہڑک ہڑک کر جان دے دے گا ۔
سکینہ :۔ میں اپنے اوپر بدنامی کا داغ نہیں لگا سکتی کہ رسول کے بیٹوں نے تو اسلام کی حمایت میں جان دی اور بیٹیاں حرم میں بیٹھی رہیں ۔
حسین :۔ (خودبخود ) شہربانو نے معرکہ کی بات کہی ۔ اگر دشمنوں نے حرم پر حملہ کردیا ۔ تو ہم وہاں بیٹھے بیٹھے کیا کریں گے ۔ انہیں یہاں چھوڑدینا اپنے قلعہ کی دیوار میں شگاف کردینے سے کم خطرناک نہیں (ظاہر ) نہیں میں تم لوگوں پر جبر نہیں کرتا ۔ اگر چلنا چاہتی ہو تو شوق سے چلو ۔
پانچواں سین
یزید کا دربار ۔ معاویہ پا بہ زنجیر بیٹھا ہوا ہے ۔ چار غلام شمشیر برہنہ اس کے چہار جانب کھڑے ہیں ۔ یزید کے تحت کے قریب سرجون رومی بیٹھا ہوا ہے ۔
معاویہ :۔ (دل میں) نبی کی آل پر یہ ظلم ! مجھی سے تو اس کا بدلہ لیا جائے گا ! باپ کا قرض بیٹے ہی کو ادا کرنا پڑتا ہے ! مگر میرے خون سے اس ظلم کا داغ نہ مٹے گا ہرگز نہیں اس خاندان کا نشان مِٹ جائے گا ۔ کوئی فاتحہ پڑھنے والا