۸۰
نازک ہو جائے گی ۔ جب سلطنت کو کِسی دوسرے مدعی کا خوف ہو تو بادشاہ کو رعایا کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرکے انہیں اپنا دوست بنا لینا مناسب ہے ۔
باغی رعایا تنکے کی طرح ہے ۔ جو ایک چنگاری سے جل اٹھتی ہے ۔ میری عرض ہے کہ ہمیں اس وقت رعایا کا دل اپنے ہاتھ میں کرلینا چاہئیے ۔ ان کی گردنیں احسان سے دبا دینی چاہئیں ۔ تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکیں ۔
یزید :۔ میری فوج باغیوں کا سر کچلنے کے لئے کافی ہے ۔
رومی :۔ نازک موقع پر اگر کوئی چیز سلطنت کو بچا سکتی ہے تو یہ سختی ہے ۔ شاید کسی اور حالت میں سختی کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی ۔
ضحاک :۔ بادشاہ کی رعایا اس کی زوجہ کی طرح ہے ۔ زوجہ پر ہم نثار ہوتے ہیں ۔ اُس کے تلوے سہلاتے ہیں ۔ اس کی بلائیں لیتے ہیں ۔ لیکن جب اسے کسی رقیب سے مخاطب ہوتے دیکھتے ہیں ۔ تو ا س وقت اس کی بلائیں نہیں لیتے ۔ ہماری تلوار نیام سے نکل آتی ہے اور یا تو رقیب کی گردن پر ہوتی ہے ۔ یا بیوی کی گردن پر یا دونوں کی گردنوں پر ۔
رومی :۔ بیشک کوفہ کو کچل دو ۔ کوفہ کو کوفتہ کردو ۔
یزید :۔ کوفہ کو کوفت میں ڈال دو ۔ یہاں سے جاتے ہی جاتے فوجی قانون جاری کردو ۔ ایک ہزار آدمیوں کو تیار رکھو جو آدمی ذرا بھی گرم ہو ۔ اُسے فوراً قتل کردو ۔ سرداروں کو یک بارگی گرفتار کرلو ۔ فوج کو روزانہ شہر میں گشت کرنے کا حکم دو ۔ سب کی زبان بند کردو ۔ یہاں تک کہ کوئی شاعر شعر نہ پڑھنے پائے ۔ مسجدوں میں خطبے نہ ہونے پائیں ۔ مکتبوں میں کوئی لڑکا نہ جانے پائے ۔ رئیسوں کو خوب ذلیل
۸۱
کرو ۔ ذلت سب سے بڑی سزا ہے ۔
(ای قاصد آتا ہے )
شمس :۔ کہاں سے آتے ہو ؟
قاصد :۔ خلیفہ پر میرا سلام ہو ۔ مجھے مکّہ کے امیر نے آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنے کے لئے بھیجا ہے کہ حسین کے چچازاد بھائی مسلم کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے ہیں ۔
یزید :۔ کوئی خط بھی لایا ہے ۔
قاصد :۔ عامِل نے خط اس لئے بھی نہیں دیا کہ کہیں دشمنوں کے ہاتھ گرفتار نہ ہو جاؤں ۔
یزید :۔ زیاد تم اسی وقت کوفہ چلے جاؤ ۔ تمہیں میرے سب سے تیز گھوڑے کو لے جانے کا اختیار ہے ۔ اگر میرا قابو ہوتا تو تمہیں ہوا کے گھوڑے پر سوار کرتا ۔
زیاد :۔ خلیفہ پر میری جان نثار ہو مجھے اس مہم پر جانے سے معاف رکھئے ضحاک یا شمس کو تعینات فرمائیں ۔
یزید :۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی ایک آنکھ پھوڑ لوں ۔
رومی :۔ آخر تم کیا چاہتے ہو ۔
زیاد :۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ اس موقع پر رعایا کے ساتھ ملائمت کا برتاؤ کیا جائے ۔ سرداروں کو جاگیریں دی جائیں ۔ ان کے وظیفے بڑھائے جائیں ۔ یتیموں اور بیواؤں کی پرورش کا انتظام کیا جائے ۔ میں نے کوفہ والوں کی خصلت کا غور سے مطالعہ کیا جائے ۔ وہ حیا دار نہیں ہیں ۔ چند خاص آدمیوں کو چھوڑ کر سب کے سب طماع اور