۱۰
کررہے ہیں تاکہ منشی پریم چند کی ادبی حیثیت و عظمت سمجھنے میں آسانی ہو ۔
پریم چند دیگر افسانہ نگاروں کی نگاہ میں
سید احتشام حسین ۔ " اردو کے جن دو فنکاروں نے افسانے کے فن کو ہاتھ میں لیتے ہی بلندیوں پر پہنچادیا ان میں ایک پریم چند ہیں ۔ " ( اردو افسانہ ایک گفتگو ، مطبوعہ ادبی دنیا لاہور )
ڈاکٹڑ عبادت بریلوی ۔ " پریم چند نے اردو افسانہ نگاری کو مختصر افسانے کے فن سے روشناس کرایا اور اس فن کو برتنے کی فضا قائم کی ۔ "
ڈاکٹر وزیر آغا ۔ پریم چند کو ایک ایسا فنکار شمار کرتے ہیں ، جس نے افسانے کو ایک نیا لہجہ اور نیا مزاج عطا کیا ، پریم چند کی بڑی عطا یہ ہے کہ اس نے اردو افسانے کو داستان کے مافوق الفطرت عناصر سے نجات دلائی اور اسے انسان کی فطری آرزوؤں ، امنگوں ، ناکامیوں اور کامرانیوں کا مرقع بنادیا ۔ پریم چند کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اظہار مطالب کے لئے صنف افسانہ کو وسیلہ بنایا ۔
کرشن چندر ۔ پریم چند کے افسانے حقیقت سے بہت قریب ہیں ۔ ان کے یہاں تلاش کا ایک مسلسل عمل ہے ۔ وہ دیہات کے سیدھے سادھے نچلے طبقے کی مجبوری و مقہوری کی اثر انگیز تصویر کھینچنے میں ایک خاص ملکہ رکھتے ہیں ۔
راجندر سنگھ بیدی ۔ منشی پریم چند صرف افسانہ نگار نہیں بلکہ حقیقت نگار بھی ہیں ان کے افسانوں میں جیتے جاگتے کردار ہیں دو طرح کے لوگ نظر آتے ہیں ایک نیکی و مظلومیت کے مظہر اور دوسرا ظلم و بے انصافی کا ان دونوں کردار کی منظر کشی پریم چند
۱۱
کے افسانے کی روح ہے
انور سدید ۔ " پریم چند کے افسانے میں جو تحرک ملتا ہے اس کی اساس کردار کے اضطراری تموّج پر مبنی نہیں بلکہ یہ کسی مسئلہ کے مسلسل ردعمل کا نتیجہ ہے ۔
منشی پریم چند کی دیگر تصنیفات
منشی پریم چند اردو ہندی کے صاحب طرز افسانہ نگار ہیں انہوں نے بے شمار کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ۔ جن میں کچھ کے نام یہ ہیں ۔ جلؤہ ایثار ، چھٹکارا بیوہ دودھ کی قیمت ، نرملا ، پردہ مجاز ، میدان عمل ، فردوس خیال ، آخری تحفہ ، زادہ راہ ، خٓک و پروانہ خواب و خیال ، دیہات کے افسانے ، وغیرھم
کربلا
ان کا زیر نظر ناول ان کی حضرت امام حسین علیہ السلام سے عقیدت و محبت اور خلوص و معرفت کا آئنہ دار و غمّازہ ہے ۔ وہ مسلمان نہیں لیکن بہت سے عقل و ہوش و خرد سے عاری مسلمانوں سے بہتر ہیں ۔ انہوں نے دیکھا ، انہوں نے سوچا حیوانیت و بربریت کے ایک ایسے دور میں جب انسایت کو حیونیت کے کند خنجر سے ذبح کیا جارہا تھا اور انسانیت کا مجدّد و شرف ماضی کا افسانہ بن گیا تھا ، حضرت امام حسین کو احقاق حق ، ابطال باطل اور انسانیت کے قیام کے جرم بے گناہی پر کربلا کے تپتے صحرا میں تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کردیا گیا ۔ چونکہ حضرت امام حسین نے انسانیت کے لئے