۱۲
جام شہادت نوش فرمایا تھا ، لہاذا ان کا تذکرہ پوری انسانیت کی متاع عزیز ہے اگر ہم اس مقدّس فریضے سے دستبردار ہو جائیں تو ہم ستائش انسانیت و مذمت حیوانیت کے مقدس فریضے سے انحراف کریں گے ۔
منشی پریم چند ایک با شعور و حساس ادیب ہونے کے ناطے سے یہ جانتے ہیں کہ امام حسین کا تذکرہ انسان میں مجدّد شرف اور عزّو حیات کے جذبات پیدا کرتا ہے اور قیامت تک دشمن انسانیت (یزید) کے خدوخال نمایاں کرتا رہے گا ۔ امام حسین کا تذکرہ تمام انسانیت کا تذکرہ ہے آپ اور آپ کے رفقاء نے اپنے بے مثال کردار اور عمل کی مہریں جریدہ عالم پر ثبت کر کے قیامت تک کے لئے امر ہو گئے ۔
یہی وہ محرکات و جذبات و احساسات تھے جس نے منشی پریم چند کو "کربلا " لکھنے کی طرف مائل کیا ۔ منشی پریم چند نے اس کتاب کو ڈرامائی انداز میں تحریر فرمایا ہے جیسا کہ آپ کے علم میں ہے منشی پریم چند کا تعلق ہندو مذہب سے ہے ۔ انہوں نے واقعہ کربلا کا مطالعہ اور اس کے کردار کا مشاہدہ اپنے نقطہ نگاہ سے کیا ہے جو خالصتاً غیر جانبدارانہ و انسانی نقطہ نگاہ ہے ۔ ضروری نہیں وہ ہمارے مسلّمات و متقادات سے بھی متّفق ہوں ۔ لہٰذا اس کتاب میں انہوں نے جو کردار پیش کئے ہیں تاریخ کے تقابلی مطالعے کے باوجود یہ کردار واقعہ کربلا میں نہیں پائے جاتے لیکن چشم ادراک میں احساس کی بینائی رکھنے والے کسی نہ کسی طرح خود کو اس واقعہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام سے وابستہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہر وہ شخص و انسانیت مشربی پر یقین رکھتا ہے اور اس نے واقعات کربلا کو پڑھا یا سُنا ہے تو یقیناً اس کے دل پر ان کرداروں نے گہرے اور اَن مٹ نقوش چھوڑے ہوں گے ۔ لہٰذا منشی پریم چند نے ساہس رائے ، ہرجس رائے ، سنگھ وت ، پن رائے ، غلام
۱۳
دھروت کے جو مکالمے اور کردار پیش کئے ہیں وہ فرضی ہیں ۔ لیکن سچائی کے طرفدار ہیں ۔ کیونکہ ذہن انسانی کے ارتقا اور شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ دنیا کی تمام قومیں حسین کے نصن العین کو نہ صرف سرارہی ہیں بلکہ اسے اپنا بھی رہی ہیں اور اس پر عمل کرنے کو نجات کا ذریہ بھی سمجھتی ہیں ۔
اور اس بات پر اظہار افسوس و تاسف بھی کرتی ہیں کہ وہ واقعہ کربلا کے وقت کیوں نہ موجود تھے اور چونکہ وہ موجود نہ تھے لہٰذا کسی نہ کسی طریقے سے خیالی یا افسانوی طور پر سہی اپنی وابستگی ہمدردی اور موجودگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ساہس رائے اور نسیمہ کے درمیاں مکالمات بھی فرضی ہیں اور نسیمہ کی موت کا واقعہ بھی تاریخ اسلام اور مقتل میں کہیں نہیں ملتا ۔ نہ ہی حضرت امام حسین علیہ السلام اور ساہس رائے کے مکالمے کی کوئی حقیقت ہے ۔ حقیقت وہی ہے جو میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ منشی پریم چند نے ہندو مذہب کو امام حسین کا حامی قرار دے کر انسانیت کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان واقعات و کردار سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ منشی پریم چند انسانی کردار کی نفسیات سمجھنے میں ملکہ رکھتے ہیں اور ان کی واقعات کربلا پر بھی گہری نظر ہے ۔ اور ان کی تحریر میں جو گہرائی و گیرائی ہے وہ ان کی پختگی کی دلیل اور مطالعہ کی و مشاہدہ کی وسعت کی ترجمان ہے ۔
منشی پریم چند نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت و کردار کو کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ جو پڑھنے والے کے دل پر ایک گہرا اثر چھوڑتا ہے ۔ " یزید ! ضحاک تم کیا خیال کرتے ہو کہ حسین میری بیعت قبول کر لیں گے ، یہ محال ہے حسین کبھی میری بیعت نہ کریں گے چاہے ان کے ٹکرے اڑا دئے جائیں اور نعش کو گھوڑوں سے پامال کیا جائے اگر تقدیر پلٹ سکتی ہے ۔ دریا کی رانی تھم سکتی ہے ۔ زمانے کی رفتار رک سکتی ہے تو حسین بھی