۱۴
میری بیعت کر سکتے ہیں ۔" اسی طرح مختلف مقامات پر منشی پریم چند نے نہایت سادہ اور افسانوی انداز میں یزید اور اس کے اجداد کے چہرے سے نقاب اٹھائی ہے ۔
اسی طرح ایک مقام پر منشی پریم چند نے لکھا ہے ۔ کہ ساہس رائے اور اُس کے ساتوں بھائی حسین کی پشت پر کھڑے شمر کے تیروں سے بچاتے رہے ۔ اتنے میں نماز ختم ہو جاتی ہے ۔ حسین فرماتے ہیں ۔ دوستوں ! میرے پیارے غمگساروں ! یہ نماز اسلام کی یادگار ہے ۔ اگر خدا کے ان دلیر بندوں نے ہماری پشت پر کھڑے ہوکر ہمیں دشمنوں کے شر سے نہ بچایا ہوتا تو ہماری نماز ہرگز نہ پوری ہوتی ۔ اگرچہ ان کا تعلق ہمارے مذہب سے نہیں ہے لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے نقطۂ نگاہ سے یہ بات غلط ہے بلکہ نماز کے وقت زہیر ابن قین اور سعد ابن عبداللہ تھے ۔
کچھ کتاب کے بارے میں
منشی پریم چند کی کتاب "کربلا " لاجپت رائے اینڈ سنز تاجران کتب لاہور نے با ہتمام سوم پرکاش ساہنی قیام پاکستان سے قبل شائع کیا ۔ جس کے دونوں ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئے ۔ ا س کتاب نے اپنے دور میں بڑی شہرت پائی اور پورے غیر منقسم پاکستان میں اس کی زبردست مانگ ہوئی لیکن اس کا تیسرا ایڈیشن شائع ہونے سے پہلے برصغیر کی تقسیم عمل میں آگئی ۔ جس کے نتیجے میں پورے ہندستان میں آگ بھڑک اٹھی ، اور قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور بہت دنوں تک دونوں ملکوں میں افراتفری ، انتشار ، نفرت کی فضائیں ، کشیدگی اور
۱۵
غیر ادبی ماحول اور کشمکش کی فضا رہی جس میں "کربلا " کا تیسرا ایڈیشن منظر عام پر نہ آسکا اور رفتہ رفتہ لوگ منشی پریم چند کے اس شہرۂ آفاق کو بھولتے چلے گئے ۔
احوال واقعی
اس کتاب کی اہمیت و ادبیت کے پیش نظر میں نے کئی پبلشر سے یہ درخواست کی کہ اس شہ پارے کو دوبارہ شائع کیا جائے تاکہ ہماری نسل اس کے مطالعہ سے محروم نہ رہے لیکن کسی پبلشر نے یہ "رسک" لینے کی کوشش نہیں کی ۔ مطالیاتی ذوق کی کمی اور کتابوں کی طباعت پر آنے والے ہوشربا مصارف کی وجہ سے ملک میں معیاری کتابوں کی اشاعت کو تجارتی اصول کے منافی سمجھتا ہے ۔ اور وہ اس سلسلے میں حق بجانب بھی ہے ۔ ہم لوگ دیگر چیزوں پر تو بے پناہ خرچ کرتے ہیں اور گرانی کے باوجود گرانی کا احساس نہیں ہوتا لیکن کتاب جو زندگی کی بہترین ساتھی ہے ۔ ذہن انسانی کو سنوارنے ، فکری بالیگی عطا کرنے اور وسعت فکر و نظر پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے ۔ اس کی طرف سے ہماری چشم پوشی آنے والی نسلوں سے بے انصافی و غداری ہے جس کے لئے ہم اپنے شعور فردا کے سامنے جوبدہ ہوں گے ۔
اس سلسلے میں میں نے اپنے دوست اور معروف پبلشر سیّد حسین عباس زیدی سے ذکر کیا جو خود بھی نہایت عمدہ ادبی ذوق رکھتے ہیں اور ہمیشاں معیاری کتابیں شائع کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں تجارت سے زیادہ فروغ علم اور تعمیر ادب کو پیش نظر رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اس