۱۸
پہلا سین
رات کے نو بجے ہیں یزید ضحاک شمس اور کئی اہل دربار بیٹھے ہوئے ہیں ۔
شراب کی صراحی اور پیالہ رکھا ہوا ہے ۔
یزید :۔ شہر میں میری خلافت کی منادی کردی گئی ؟
ضحاک :۔ کوئی گلی کوچہ ، ناکہ، سڑک ، مسجد بازار اور خانقاہ ایسی نہیں ہے جہاں اس منادی کی آواز نہ پہنچی ہو ۔ یہ آواز فضائے ہوا کو طے کرتی ہوئی تمام حجاز یمن ، عراق ، مکّہ اور مدینہ میں پہنچ گئی ہے اور اسے سن کر دشمنوں کے دل دہل گئے ہیں ۔
یزید :۔ نقارچی کو خلعت دیا جائے
ضحاک :۔ بہت خوب امیر !
یزید :۔ میری بیعت کے لئے سب کو حکم دیا گیا ؟
ضحاک :۔ امیر حکم دینے کی ضرورت نہ تھی ۔ کل قبل طلوع آفتاب شام بیعت کے لئے حاضر ہو جائے گا ۔
۱۹
یزید :۔ (شراب کا پیالہ پی کر ) نبی (ص) نے شراب کو حرام کہا ہے ۔ یہ اس آب حیات کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے ۔ یہ اس وقت کے لئے بلاشبہ مناسب تھا ۔ کیونکہ ان دنوں کسی کو اس نعمت سے بہرہ ور ہونے کا موقع ہی نہ تھا ۔ لیکن اب وہ حالت نہیں ہے تخت پر بیٹھنے والے خلیفہ کے لئے ایسی نعمت کو حرام کردینے سے تو یہی اچھا ہے کہ وہ خلیفہ ہی نہ رہے ۔ کیوں ضحاک کوئی قاصد مدینہ بھیجا گیا ؟
ضحاک :۔ امیر کے حکم کا انتظار تھا ۔
یزید :۔ ضحاک ، قسم خدا کی اس تساہلی کو کبھی معاف نہیں کرسکتا ۔ فوراً قاصد بھیجو اور ولید کو سخت تاکید لکھو کہ وہ حسین سے میرے نام پر بیعت لے ۔ اگر وہ انکار کریں ۔ تو انہیں قتل کردے ۔ اس میں ذرا بھی توقف نہ ہونا چاہئیے ۔
ضحاک :۔ یا مولا ۔ میں تو یہ ہی عرض کروں گا کہ اگر حسین بیعت قبول بھی کر لیں تو بھی ان کا زندہ رہنا خاندان ابو سفیان کے لئے ہمیشہ مضر ہی ہوگا ۔ حسین ایک نہ ایک دن ضرور دغا کریں گے ۔
یزید :۔ ضحاک کیا تم خیال کرتے ہو کہ حسین میری بیعت قبول کرلیں گے یہ محال ہے حسین کبھی میری بیعت نہ کریں گے ۔ چاہے اُن کے ٹکرے اڑادئے جائیں اور نعش کو گھوڑوں سے پامال کیا جائے ۔ اگر تقدیر پلٹ سکتی ہے ۔ دریا کی رونی تھم سکتی ہے ۔ زمانہ کی رفتار رک سکتی ہے ۔ تو حسین بھی میری بیعت کر سکتے ہیں مگر بیعت کرنے کے بعد پھر چاہے تقدیر پلٹ جائے ۔ دریا کی رونی تھم جائے زمانہ کی رفتار رک جائے مگر حسین دغا نہیں کرسکتے ۔ ان سے بیعت لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اُنہیں دنیا سے رخصت کر دیا جائے ۔ حسین ہی میرے دشمن ہیں ۔