حسان خان
لائبریرین
کربلا میں جا کے دنیا کا گلہ جاتا رہا
سیرِ گلزارِ جناں کا حوصلہ جاتا رہا
دل کو چین آتا ہے رونے سے غمِ شبیر میں
ایک آنسو کیا گرا ایک آبلہ جاتا رہا
بیڑیاں اتریں تو عابد کو ہوا اس کا ملال
محنت و اندوہ و غم کا سلسلہ جاتا رہا
کہتے تھے عابد ہزار افسوس اے واماندگی
ہم اکیلے رہ گئے سب قافلہ جاتا رہا
مر گئے انصارِ شہ قبضے نہ ہاتھوں سے چھٹے
کب لڑائی کا دلوں سے ولولہ جاتا رہا
غل رہا سجاد کی زنجیرِ پا کا حشر تک
کب ہماری مغفرت کا سلسلہ جاتا رہا
حُر ادھر آیا کہ حضرت نے دیا باغِ بہشت
راہ بھر کا ایک دم بھر میں گلہ جاتا رہا
روتی ہیں شب بھر سکینہ سینۂ شہ کے لیے
خوابِ راحت کا بھی دل سے حوصلہ جاتا رہا
ہاتھ رکھے ہاتھ پر بیٹھی ہے ماں اصغر کے بعد
زندگی بیکار ہے وہ مشغلہ جاتا رہا
جب سنی بیمار نے دنیا سے جانے کی خبر
دل سے اکبر کے نہ آنے کا گلہ جاتا رہا
بعدِ شہ عابد نہ ہوتے تو الٹ جاتی زمیں
یوں دلِ مضطر کو روکا زلزلہ جاتا رہا
گردِ دامن بھی نہ سمجھا ساتھ والوں نے ہمیں
خاک اڑاتے رہ گئے ہم قافلہ جاتا رہا
کس طرح رکتے ہیں دیکھوں تو غمِ سرور میں اشک
کیا کہیں میرا دلِ پُرآبلہ جاتا رہا
وہ ستم شہ نے سہے دل ظالموں کے بھر گئے
ظلم کا اہلِ جفا کو حوصلہ جاتا رہا
ہو کے پیوندِ زمینِ کربلا ہو جاؤں ایک
جب ملا دریا میں قطرہ فاصلہ جاتا رہا
یاد آتا ہے طوافِ مرقدِ پاکِ حُسین
خلد میں وحشت ہے ایسا مشغلہ جاتا رہا
ایسے ایسے ظلم خوش ہو ہو کے حضرت نے سہے
صبر کا ایوب کو بھی حوصلہ جاتا رہا
بیڑیاں عابد کو پہنائیں نہ سمجھے اہلِ کیں
ہاتھ سے دینِ نبی کا سلسلہ جاتا رہا
اے تعشق دامنِ صاحب نہ چھوٹا ہاتھ سے
آمد و رفتِ نفس کا سلسلہ جاتا رہا
سیرِ گلزارِ جناں کا حوصلہ جاتا رہا
دل کو چین آتا ہے رونے سے غمِ شبیر میں
ایک آنسو کیا گرا ایک آبلہ جاتا رہا
بیڑیاں اتریں تو عابد کو ہوا اس کا ملال
محنت و اندوہ و غم کا سلسلہ جاتا رہا
کہتے تھے عابد ہزار افسوس اے واماندگی
ہم اکیلے رہ گئے سب قافلہ جاتا رہا
مر گئے انصارِ شہ قبضے نہ ہاتھوں سے چھٹے
کب لڑائی کا دلوں سے ولولہ جاتا رہا
غل رہا سجاد کی زنجیرِ پا کا حشر تک
کب ہماری مغفرت کا سلسلہ جاتا رہا
حُر ادھر آیا کہ حضرت نے دیا باغِ بہشت
راہ بھر کا ایک دم بھر میں گلہ جاتا رہا
روتی ہیں شب بھر سکینہ سینۂ شہ کے لیے
خوابِ راحت کا بھی دل سے حوصلہ جاتا رہا
ہاتھ رکھے ہاتھ پر بیٹھی ہے ماں اصغر کے بعد
زندگی بیکار ہے وہ مشغلہ جاتا رہا
جب سنی بیمار نے دنیا سے جانے کی خبر
دل سے اکبر کے نہ آنے کا گلہ جاتا رہا
بعدِ شہ عابد نہ ہوتے تو الٹ جاتی زمیں
یوں دلِ مضطر کو روکا زلزلہ جاتا رہا
گردِ دامن بھی نہ سمجھا ساتھ والوں نے ہمیں
خاک اڑاتے رہ گئے ہم قافلہ جاتا رہا
کس طرح رکتے ہیں دیکھوں تو غمِ سرور میں اشک
کیا کہیں میرا دلِ پُرآبلہ جاتا رہا
وہ ستم شہ نے سہے دل ظالموں کے بھر گئے
ظلم کا اہلِ جفا کو حوصلہ جاتا رہا
ہو کے پیوندِ زمینِ کربلا ہو جاؤں ایک
جب ملا دریا میں قطرہ فاصلہ جاتا رہا
یاد آتا ہے طوافِ مرقدِ پاکِ حُسین
خلد میں وحشت ہے ایسا مشغلہ جاتا رہا
ایسے ایسے ظلم خوش ہو ہو کے حضرت نے سہے
صبر کا ایوب کو بھی حوصلہ جاتا رہا
بیڑیاں عابد کو پہنائیں نہ سمجھے اہلِ کیں
ہاتھ سے دینِ نبی کا سلسلہ جاتا رہا
اے تعشق دامنِ صاحب نہ چھوٹا ہاتھ سے
آمد و رفتِ نفس کا سلسلہ جاتا رہا
(تعشق لکھنوی)