سیدہ شگفتہ
لائبریرین
کربل کی کہانی جب کوئی بھی سنائے گا
دل والوں کی آنکھوں سے اک دریا بہائے گا
وہ قافلہ سرور کا جو شان سے نکلا تھا
صغراٰ کو خبر کیا تھی نہ لوٹ کے آئے گا
زہراء
زہراء
پرسہ لو بہتر کا
ٹوٹی ہے کمر شہ کی ، گھبرا نہ مگر اکبر
فرزند نبی تیری میت کو اٹھائے گا
زہراء
زہراء
اکبر کا بھی پرسہ لو
سوتے ہی نہ تھے اصغر ، جھولے میں تڑپتے تھے
مادر کو خبر کیا تھی ، اک تیر سلائے گا
زہرا ء
زہراء
اصغر کا بھی پرسہ لو
پامال ہوا قاسم جب گھوڑوں کی ٹاپوں سے
کس طرح چچا تیری میت کو اٹھائے گا
زہراء
زہرا ء
قاسم کا بھی پرسہ لو
تھا ہاتھوں کے کٹنے کا کچھ غم نہ دلاور کو
سیدانیوں کا پردہ اب کون بچائے گا
زہراء
زہراء
عباس کا پرسہ لو
سرور نے اٹھائے تھے سب ساتھیوں کے لاشے
شبیر تیرا لاشہ اب کون اٹھائے گا
زہراء
زہراء
شبیر کا پرسہ لو
(صاحب کلام : نامعلوم)