شاہد شاہنواز
لائبریرین
کردار بن گئے ہیں فسانوں میں رہ گئے
ہم یادِ رفتگاں کے ترانوں میں رہ گئے
اپنا ہی نقش ڈھونڈنے نکلے تو یوں ہوا
ہم عکس بن کے آئنہ خانوں میں رہ گئے
نیت میں تھا وہ کھوٹ ،فلک تک نہ جاسکے
وہ لفظ جو تسبیح کے دانوں میں رہ گئے (خارج ہے شاید ۔۔)
لشکر ہوائے سرد نے پتھر بنا دیا
جتنے بھی تیر تھے وہ کمانوں میں رہ گئے
پاکر نگہ یقین سے چمکا ہے اک جہاں
ہم کم نظر تھے اور گمانوں میں رہ گئے
سیلاب آگیا تو بچائے گئے محل
مفلس تو اپنے کچے مکانوں میں رہ گئے
اک اَن کہی سی بات ہے مفہومِ کائنات
کچھ مخمصے تو سارے زمانوں میں رہ گئے
اُن سے عدو کی فوج اتاری گئی وہاں
کچھ در، کھلے جو دل کے ٹھکانوں میں رہ گئے
اب ہے زمین سرخ کٹا کر سروں کی فصل
وعدوں کے سبز باغ بیانوں میں رہ گئے
تھی جب زمیں نصیب تو کیوں بال و پر ملے؟
حیران کچھ پرند اڑانوں میں رہ گئے
ہم یار کی نگاہ میں آنے کے اب نہیں
صحرا میں ریت ریت نشانوں میں رہ گئے
امید اُ ن سے آتشِ روشن کی ہو تو کیا
بجھتے شرر جو سوختہ جانوں میں رہ گئے
ہمدرد و غمگسار تو شاہد بہت ملے
ہم سوگوار دونوں جہانوں میں رہ گئے
برائے توجہ:
محترم الف عین صاحب
اور
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
ہم یادِ رفتگاں کے ترانوں میں رہ گئے
اپنا ہی نقش ڈھونڈنے نکلے تو یوں ہوا
ہم عکس بن کے آئنہ خانوں میں رہ گئے
نیت میں تھا وہ کھوٹ ،فلک تک نہ جاسکے
وہ لفظ جو تسبیح کے دانوں میں رہ گئے (خارج ہے شاید ۔۔)
لشکر ہوائے سرد نے پتھر بنا دیا
جتنے بھی تیر تھے وہ کمانوں میں رہ گئے
پاکر نگہ یقین سے چمکا ہے اک جہاں
ہم کم نظر تھے اور گمانوں میں رہ گئے
سیلاب آگیا تو بچائے گئے محل
مفلس تو اپنے کچے مکانوں میں رہ گئے
اک اَن کہی سی بات ہے مفہومِ کائنات
کچھ مخمصے تو سارے زمانوں میں رہ گئے
اُن سے عدو کی فوج اتاری گئی وہاں
کچھ در، کھلے جو دل کے ٹھکانوں میں رہ گئے
اب ہے زمین سرخ کٹا کر سروں کی فصل
وعدوں کے سبز باغ بیانوں میں رہ گئے
تھی جب زمیں نصیب تو کیوں بال و پر ملے؟
حیران کچھ پرند اڑانوں میں رہ گئے
ہم یار کی نگاہ میں آنے کے اب نہیں
صحرا میں ریت ریت نشانوں میں رہ گئے
امید اُ ن سے آتشِ روشن کی ہو تو کیا
بجھتے شرر جو سوختہ جانوں میں رہ گئے
ہمدرد و غمگسار تو شاہد بہت ملے
ہم سوگوار دونوں جہانوں میں رہ گئے
برائے توجہ:
محترم الف عین صاحب
اور
محترم محمد یعقوب آسی صاحب