اگر عیسائی کمیونٹی کے لوگ جو اپکے آس پاس رہتے ہوں یا کام کرتے ہوں، آپکے تہواروں یعنی عید ین اور دوسرے مواقع پر اپکو مبارکبادیں دیتے ہین تو کیا حرج ہے اگر آپ بھی انکی خوشیوں میں محض انسانیت کے ناطے اور تالیفِ قلوب کے ناطے شامل ہوجائیں۔ یعنی انکو بھی انکے اس تہوار پر مبارکباد دے دیں۔۔۔ وہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی خوشی ہی مناتے ہیں ، آپ بھی اللہ کے ایک برگزیدہ نبی کی پیدائش پر خوشی منانے والے لوگوں کو مبارکباد دے دیں تو اس میں کیا حرج ہے۔۔۔ کیونکہ جب آپ ایک انسان کی پیدائش کی مبارکباد دے رہے ہیں تو اسی لمحے آپ اس عقیدے کو ثابت کر رہے ہیں کہ ہاں وہ تو ایک انسان تھے۔ کیونکہ جو پیدا ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا۔۔۔
افسوس کہ میں آُ پ کی بات سے متفق نہیں ہوں۔ شاید میری غلطی ہے کہ میں نے وضاحت نہیں کی اور مختصر بات پر اکتفا کیا۔
جب ہم مسلمان کسی غیر مسلم کو کرسمس کی مبارکباد دیں گے تو سامنے والا یہی سمجھے گا کہ یہ میری ہی طرح خدا کے بیٹے کی پیدائش پر مبارکباد دے رہا ہے کیونکہ وہ خوشی ہی اسی بات کی منارہا ہے ۔ ہم اپنے دل میں کیا سوچ رکھتے ہیں ، اس سے سامنے والے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ الٹا اپنا ایمان خطرے میں پڑجائے گا۔ ۔
دین کے معاملے میں کسی بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح تو ہمیں ہندوؤں کے تہواروں پر بھی خوب مبارکبادیں دینی چاہییں اور "جے شی کرشنا “ کہہ کر ان سے ملنا چاہیے !!! نعوذباللہ من ذلک ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ جو حق ہے اسے حق کہنا ہے اور جو باطل ہے اسے ڈنکے کی چوٹ پر باطل کہنا ہے۔ ذرا سورہ کافرون پڑھیں ، دیکھیں اس میں ہمیں کیا سبق دیا گیا ہے کہ جس کی تم عبادت کرتے ہو ، میں اس کی عبادت نہیں کرتا۔ یہ صاف اعلان ہے کہ حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
شمشاد بھائی کو اللہ خوش رکھے کہ انہوں نے میری بات کے مقصد کو پالیا یعنی کرسمس کے پیچھے مقصد اور جواز ، خود فیصلہ کیجئے کہ کیا ایک مسلمان کسی کافر کی تالیف قلب کیلئے اپنے رب کی وحدانیت کو چیلنج کرے گا ؟ کسی کی خوشی کیلئے اپنے رب کو ناراض کرے گا اور اپنے عقیدہ توحید کو داؤ پر لگائے گا جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :
قریب ہے کہ اس (افتراء) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں (مریم - 90)
کیا کوئی مسلمان ایسے گھاٹے کا سودا کرنے کیلئے تیار ہے ؟؟؟؟
برادرم
arifkarim کیلئے بھی یہی جواب ہے۔